Topics
سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک
ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے
ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں
کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں
سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ
پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔
پھر ایک بگولہ اُٹھا۔ آشیانے کے وہ سارے تنکے حالات کی تند آندھی نے اپنے کاندھوں پہ اُٹھا لئے جنہیں وہ اپنی متاع سمجھ رہا تھا۔ وہ ایک ایک تنکے کو بچانے دوڑا لیکن جلد ہی تھک گیا۔ اس بے سرو سامانی نے اُس کے اندر جتنی توڑ پھوڑ کی۔۔۔ وہ تو
ہوئی لیکن اُس کے
متعلقین کی سرد مہری اور موقع پرستی کے آہنی ہٹھوڑوں نے اُس کے وجود کو بالکل کرچی
کرچی ہی کر دیا۔ اک بے یقینی کے عالم میں اُس نے اپنائیت کے نقاب کے پیچھے پوشیدہ غیریت
اور بے گانگی کے چہروں پہ اپنے لئے ایک گہری حقارت اور بے تعلقی دیکھی۔ اُس کو اس کا
یارانہ تھا۔ کیا اپنے اور کیا پرائے۔۔۔ رشتوں نے جیسے اُسے ڈس لیا۔ جب خونی رشتے اُس
کو خون آشام دکھنے لگے اور دیگر رشتوں اور تعلقات کے کاغذی پیراہن کی کھڑکھڑاہٹ اُ
س کے اعصاب کی سکت سے بڑھ گئی تو اُس نے بیوی بچوں کو وہیں چھوڑا اور خود ہجرت کر کے
کراچی پہنچ گیا۔
سمندر کنارے ملگجی چاندنی میں ٹہلتے ہوئے
اُس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ جب اُس کا رخ سمندر کی طرف ہوتا تو روشنی نہ ہونے کے باوجود
سمندر روشن اور موجود محسوس ہوتا اور جب اُس کا منہ شہر کی طرف ہوتا تو شہر اُس کو
تاریک اور ناموجود لگتا۔ شہر کی جھلملاتی روشنیاں۔۔۔ عمارتوں کے بے روح ہیولوں کو ۔۔۔
اجاگر تو کر رہی تھیں۔۔۔ لیکن اُن میں زندگی کی دھڑکن ناپید محسوس ہوئی۔ اس لمحے اُس
نے جھلملاتی روشنیاں رکھنے کے باوجود بے نور سنگلاخ عمارتوں کی بجائے سمندر کے دھڑکتے
اور زندہ عمق کی کشش کو اپنے اندر ابھرتے محسوس کیا۔ اُس لمحے اس کو یہ فیصلہ کرنے
میں کچھ زیادہ دقت نہ ہوئی کہ دنیا کی جھلملاتی روشنیوں اور سنگلاخ عمارتوں سے ناطہ
رکھنے کی بجائے اگر وہ علم کے سمندر کی شناوری پہ کمر کس لے تو ہو سکتا ہے کہ کسی روز
کسی ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں اندر کی کڑواہٹ اور بیزاری سے اُسے امان مل سکے۔ اُس
رات بہت عرصے بعد وہ گہری نیند سویا۔
نارتھ کراچی سے گرومندر جاتے ہوئے ناظم آباد چورنگی پہ اشارہ بند ہونے پر اسے رکنا پڑا۔ اِدھر اُدھر دیکھتے اُس کی نگاہ ایک اشتہاری بورڈ پر پڑی۔ مصنوعات آرائش اور آسائش کے درمیان وہ ایک کتاب کا اشتہار تھا۔ سر اُٹھا کر اُس نے قدر بڑے بورڈ پہ لکھے الفاظ کو دوبارہ پڑھا۔ ” روحانی سائنس کی پہلی کتاب ۔ لوح و قلم'۔ اچنبھا سا ہوا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں ۔ روحانیت کی بابت اُس کا تصور کچھ زیادہ واضح نہ
تھا۔ وہ اسے عمل
حاضرات و عملیات اور علم و نجوم اور تعویز گنڈوں کی قبیل کا ہی کوئی علم سمجھتا تھا۔
وہ اُس اشتہاری بورڈ کو کتب بینی کے ذوق کی کمی اور بڑھتے فقدان کا ماتم سمجھے یا عامل
کامل پروفیسروں کی اشتہاری مہم کا کوئی حصہ۔ اُس کے کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پیشتر
اشارہ کھلا اور اُس نے موٹر سائیکل بڑھا دی۔ کئی روز یہی ہوتا رہا۔وہ اُس چورنگی سے
گزرتا۔ گزرتے گزرتے اور جب رکنا پڑتا تو رک کر وہ اُس اشتہاری بورڈ پر نظر ڈالتا۔ کبھی
اُسے لگتا کہ وہ بورڈ اُس سے کچھ کہہ رہا ہو۔ رفتہ رفتہ وہ اس سے مانوس سا ہو کر بے
تعلق ہو گیا۔
اُس کی کاروباری مصروفیات غیر محسوس طور
پر کم ہوتی چلی گئیں۔ حالات کی مار، معاشی ناآسودگی، معاشرتی نا ہمواری کا احساس ،
کراچی جیسے شہر نگاراں میں خود کو تنہا اور بے یار و مددگار سمجھنے کے سبب اُس کا رحجان
مطالعہ قرآن کی طرف بڑھ گیا۔ وہ قرآن حکیم
کی آیا ت کا ترجمہ پڑھتا اور چاہتا کہ اس پہ کچھ ایسی کیفیت اور رقت طاری ہو کہ اُس
کا پتہ پانی ہو جائے۔ لیکن ترجمے کے الفاظ اُس کو اتنے بے ربط اور بے جان سے لگتے کہ
رقت اور خشیئت طاری ہونا تودور کی بات اُس کو اپنی توجہ اُن پر مرکوز و مرتکز کرنا
دو بھر ہو جاتا۔ لیکن وہ اپنی سی تگ و دو میں لگا رہا۔
ایک روز وہ اس نیت سے قرآن مجید لے کر بیٹھا کہ وہ قرآن کے الفاظ کو ترجمے کا سہارا لئے بغیر اپنے طور پر سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ اس نے آغاز کیا اور ھدی اللمتقین پہ آکر سپر ڈال دی۔یہ کتاب ہدایت دیتی ہے متقیوں کو۔۔۔ اس مفہوم کو ماننے میں اُسے تامل ہوا۔ یہاں الناس نہ سہی تو المسلمین کیوں نہیں کہا گیا؟ کیا یہ کتاب عوام الناس کے لئے ہدایت کا کوئی سامان اپنے اندر نہیں رکھتی؟ کیا اس میں مسلمانوں کی ہدایت کے لئے کچھ نہیں؟ متقی سے کم درجے کے مسلمان کو اس کتاب سے ہدایت پانے کی گنجائش کیوں نہیں چھوڑی گئی؟ حیرت ہے کہ مومن بھی تو نہیں کہا۔ بعض اوقات جو نہ کہا گیا ہو اُس کی اہمیت کہی گئی بات سے بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
وہ سوچتا رہا۔ اُس
کو کوئی جواب سجھائی نہ دیا تو وہ الجھ گیا۔ کبھی خیال آتا کہ یہ کوئی شیطانی وسوسہ
ہے۔ لیکن اُس کے اندر سے آواز آتی سیدھی سے منطقی بات ہے اللہ تعالیٰ نے متقی ہی کیوں
فرمایا؟۔ الناس کہہ کر اسے ہر ایک کے لئے عام کرتا نہ سہی تو اسے مسلمین ، مومنین ،
صالحین، صدیقین یا پھر کافر ین کے لئے کیوں خاص نہیں کیا؟ صرف متقی ہی کیوں؟ وہ جتنا
سوچتا گیا۔۔۔ اتنا ہی اُس کی الجھن میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب کوئی بات اُس کے پلے نہ
پڑی تو وہ مذاق پر اتر آیا ۔ اُس نے سوچا۔۔ یہ ایک قانونی سقم ہے۔ اب روزِ محشر اسی
بات کی آڑ لے کر جان بچا سکتا ہے کہ یہ کتاب تو متقیوں کی ہدایت کا سامان تھی۔ اس لئے
وہ اُس سے فیضیاب ہو نے کی سعادت کہاں سے لاتا؟ چشم تصور میں وہ اپنی چالاکی کی خود
کو داد دیتا۔ قانونی سقم کا خیال اُسے بھا گیا۔
زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ اس کی بیوی بچوں
کو لے کر اُس کے پاس پہنچ گئی۔ وہ گھرداری کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ روز گار کے تقاضوں
کی مصروفیات کو نبھانے لگا رہا۔
ایک روز حیدری کے جمعہ بازار میں کتابوں کے اسٹال پہ اُس کی نظر خواجہ شمس الدین عظیمی کی تصانیف پر پڑی۔ اُن دنوں وہ کبھی کبھار روز نامہ جنگ میں اُن کے کالم پڑھتا تھا۔ اُس کو اُن کے کالموں میں ندرت کا احساس ہوتا تھا۔ وہ کچھ الگ سے محسوس ہوتے تھے۔ روحانی مسائل پہ بات کرتے کرتے وہ کچھ عجیب سی بات لکھ جاتے۔ مثلاً کسی نے روزگار اور معاشی پریشانیوں کا ذکر کر کے مدد مانگی ہوتی اور وہ اُس کے جواب میں لکھتے ۔۔۔ چڑیوں کو باجرہ ڈالیں۔۔۔ مُٹھی بھر چینی چیونٹیوں کے بل کے پاس ڈالیں۔۔۔ اُس کی سمجھ میں نہ آتا کہ چڑیوں کو باجرہ اور چیونٹیوں کو مُٹھی بھر چینی ڈالنے سے کسی کے معاشی مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ پھر بھی اُسے تجسس ضرور تھا۔ اُن کی باتوں میں اُسے ایک نیا پن محسوس ہوتا۔ وہ اُس کے دل کو چھوتی بھی تھیں۔ اور کبھی الجھا بھی دیتی تھیں۔ کچھ ہی روز پہلے اُس نے اُن کے کالم میں آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کی بابت پڑھا تھا۔ اُنہوں نے اُس کی بابت جو کچھ لکھا تھا اُس سے وہ
متفق تو تب ہوتا
جب اُس کی سمجھ میں کچھ آتا۔ وہ اُس نظریہ کی بابت جو کچھ پہلے پڑھ چکا تھا وہ اُن
کی لکھی باتوں سے بہت مختلف تھا۔ اس بات سے اُس کی توجہ اُن کتب کی طرف مبذول ہو گئی۔
اُس نےسوچا کسی مصنف کےذہن کو اچھی طرح جاننے کے لئے اُس کی تمام کتب کا مطالعہ لازمی
ہے۔
اُس نے اُس سٹال پہ موجود اُن کی تمام کتابیں
خریدیں۔ گھر آکر حسبِ عادت پہلی فرصت میں وہ ایک ایک کتاب یکے بعددیگرے پڑھتا چلا گیا۔اُس
کو کئی نئی باتوں کا علم ہوا، کئی باتوں کو وہ پہلے سے جانتا تھا۔ اُس نے ایک بات بہت
توجہ سے نوٹ کی۔۔ اُن کی تحریروں میں لفاظی کی بجائے سیدھے سادھے انداز میں ازلی اور
ابدی حقائق کا تذکرہ فراواں تھا۔ علمیت کا رعب گانٹھنے کی بجائے وہ ایک پُر یقین انداز
میں سیدھے سبھاؤ بات کہتے محسوس ہوتے، اُن کی کتب میں لوح وقلم اور مصنف لوح و قلم۔۔
قلندر بابا اولیا کے ساتھ اپنے تعلق خاطر کے حوالے بار بار دیکھ کر اُس کو اشتیاق
ہوا وہ اُن کی بابت کچھ جانے۔
اُس نے کتاب تذکرہ قلندر بابا اولیا کھولی اور پڑھنے لگا۔ وہ اُس خط کو پڑھ رہا تھا جو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے اپنے کسی مرید کو لکھا تھا۔ جب اُس نے ھدی اللمتقین کی وہ شرح پڑھی جوحضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے فرمائی تھی تو اُس کے اندر تلاطم پیدا ہوا۔ اُس کو لگا اُس کے افکار و نظریات کی پوری عمارت ریت کی بنی ہوئی تھی جو اُن کی شرح کے بہاؤ کی پہلی لہر سے ہی ڈھے رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دیتے ہیں اُن کو جو اپنے اندر ذوق رکھتے ہیں اور اس ذوق کی وجہ سے وہ بات کو سمجھنے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ ۔۔۔اُس نے اس بات کو بار بار پڑھا۔ اُس کو اپنی سابقہ سوچ پہ شرم بھی آئی، تاسف بھی ہوا اور غصہ بھی آیا ۔ اُس نے بڑی رسانیت سے خود کو مخاطب کیا۔ جی تو اب کیا خیال ہے؟ یہ قانونی سقم تو الٹا اپنے گلے پڑ گیا ہے۔ خود کو وہ ایک عام سا مسلمان مانتا تھا۔ اُس کو اپنے ذوق کے حوالے سے بہت مان تھا۔ اپنے ذوق سے شعر و شاعری سمجھنے، فلسفیانہ موشگافیوں سے محفوظ ہونے ، اچھے
لباس، خوشبویات سے
لطف اندوز ہونے اور جمالیاتی احساسات سے متصف ہونے کی حد تک ہی واقف تھا۔ یہ بات اُس
کو بہت اچھی لگی کہ اللہ کے نزدیک صاحب ذوق لوگ ہی اس قابل ہیں کہ ہدایت پا سکیں۔ بے
شک ذوق بھی اللہ ہی کی عطا ہے لیکن سعید ہیں وہ لوگ جو اس عطا کو اُس طرح سے برتتے
اور استعمال کرتے ہیں جس طرح سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔
اُس نے اُس خط کی داد یوں دی کہ خط کے آخر
میں درج ہدایت پہ عمل پیرا ہو کر اُس خط کے مندرجات کو اپنے قلم سے تحریر کیا اور ہر
روز دن میں ایک دو دفعہ اُسے پڑھنا اپنا معمول بنا لیا۔ اس مشق سے اُس پہ ایک نکتہ
یہ واضح ہوا کہ جب بھی وہ اُس خط کے مندرجات پڑھتا اُس پہ کوئی نیا نکتہ کوئی نئی بات
روشن ہوتی۔ اُس خط نے اُس کی سوچوں کے بہت سے بل سیدھے کر دیئے۔ بہت سے جالے اُس کے
ذہن سے اترتے چلے گئے۔ اُس کے ذہن میں روحانیت اور روحانی لوگوں کے حوالے سے ایک ایک
احترام سا در آیا تھا۔ اب اُس نے تصوف کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا
تھا۔ تصّوف اس سے پیشتر اُس کے لئے ایک علمی مناظرے کا عنوان تھا، وقت گزاری کے لئے
بزرگوں کے حوالے سے گھڑی گئی باتوں کا مطالعہ اور تذکرہ تھا۔ اس کتاب نے اُس کے افکار
کی پوری نیو کو سیدھا کر دیا۔ وہ اپنے سامنے ایک نئے جہاںِ معنیٰ کو طلوع ہوتے دیکھ
رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ روحانیت علم کی وہ جہت ہے جو غیر جانبدار طرزِ فکر اور
حقیقت آشنائی سکھانے کے بعد اُس منزل کی طرف لے جاتی ہے جہاں بندہ نیا بت الہٰیہ سے
سرفراز ہو سکتا ہے۔
اب اُس کو جستجو ہوئی کہ وہ لوح و قلم پڑھے۔ مختلف کتب فروشوں سے پوچھتا ایک روز وہ صدر کے ایک دکاندار سے یہ وعدہ لینے میں کامیاب ہو گیا کہ وہ اُس کو وہ کتاب لا دے گا۔ جب اُس نے اُس کتاب کو پہلی بار اپنے ہاتھ میں لیا تو اُس کو ایک عجیب سا احساس ہوا۔ اُس کو وہ کتاب کچھ زیادہ وزنی اور بھاری سی لگی۔ اُس نے سوچا شاید اس کا کاغذ ہی کچھ ایسا ہے یا گہرے نیلے پلاسٹک کور میں ملبوس اس غیر مجلد کتاب
کو اس حوالے سے جانچنے
میں اُس سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔ اُس نے وہیں کھڑے کھڑے ورق گردانی کو اُسے کھولا۔
کتاب کے پہلے صفحے کی جلی تحریر نے اُس کی توجہ کو جکڑ لیا۔
” میں یہ کتاب پیغمبر اسلام حضور
علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حکم سے لکھ رہا ہوں۔۔۔۔
مجھے یہ حکم حضور علیہ الصلوٰۃ
واسلام کی ذات سے بطریق اُویسیہ ملا ہے۔“
اُس کو اپنے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس
ہوئے۔ عقیدت، احترام اور حقیقت شناسی ایک کرنٹ کی طرح اُس کے روں روں میں دوڑ گئی۔
اُس نے اپنے شعور کو نوعِ جن و انس کے ورثے کی امانت کے بوجھ تلے دبتے محسوس کیا۔ اُس
کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں لگا کہ یہ کوئی ادیبانہ مبالغہ آرائی ہے۔ حقیقت میں
ایسی کسی بے یقینی اور گمان کی گنجائش ہوتی ہی کہاں ہے۔ اُس کو یہ خیال ضرور گزرا کہ
اک وہ امانت بھی تو تھی جس کو جبل و سماوات نے اس لئے اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا
کہ کہیں وہ ریزہ ریزہ نہ ہو جائیں لیکن انسان نے اُٹھا لیا تھا۔
اب کئی روز تک وہ تھا اور وہ کتاب لوح و قلم تھی۔ اُس نے اُس کو پڑھا۔ بار بار پڑھا، مختلف انداز سے پڑھا کبھی ایک ہی نشست میں ختم کیا، تو کبھی سبقاً سبقاً اور کبھی جستہ جستہ۔ پھر اُس نے نوٹس لینے شروع کئے۔ اُس میں بیان کئے گئے موضوعات کو اپنے حافظہ میں اتارنے کے لئے طالب علمانہ انداز میں انہیں بار بار دہرایا۔ اس تمام تر مصروفیت میں اُس کو ایک ہی احساس تھا کہ دورانِ مطالعہ وہ کتاب اور اُس کے مندرجات جس قدر سہولت سے اُس کو سمجھ آرہے ہوتے، کتاب بند کر تے ہی وہ سب کچھ اُس کے حافظے سے یوں حذف ہوجاتا کہ محض ایک تاثر باقی رہتا کہ اُس نے کوئی بہت ہی اچھی بات پڑھی ہے لیکن وہ کیا بات تھی اُس کا ذہن اس کو دہرانے
میں کامیاب نہیں
ہو پا رہا تھا۔ وہ کتاب کے مفہوم کو اپنے ذہن کے حصار میں لے تو لیتا تھا لیکن اُس
کو تھامے رکھنے میں اُس کو دشواری ہو رہی تھی۔
اُس نے طالب علمانہ دور میں اور اُس کے بعد
بھی بے شمار کتب کا مطالعہ کیا تھا۔ دوستوں میں اُس کی رفتار مطالعہ اور فہم رسائی
کی اچھی خاصی دھاک تھی۔ دوست اُ س کی تواضع کو اُسے اچھی اچھی کتابوں کی بابت بتاتے
اور کبھی کبھار تو اُس کے ذوق مطالعہ کو خراج پیش کرنے کو کوئی مشکل اوراق کتاب لا
دیتے اور بعد میں اُس سے اس کی بابت اُس کی رائے اور تبصرے سے محظوظ ہوتے۔
اُس کی حسِ تنقید کا یہ عالم تھا کہ وہ کسی
بھی کتاب کی اچھی باتوں کے ساتھ ساتھ اُس کی خامیوں اور کمی کو بھی بھانپ لیتا تھا۔
دوست اس کے ناقدانہ انداز کا لطف لیتے تو وہ اور کھل کر اظہار کرتا۔۔۔ لیکن اس کتاب
لوح و قلم نے اُس کی تنقیدی صلا حیتوں کے سارے ہی کس بل نکال کے رکھ دیئے تھے۔ اُس
نے کسی کتاب کو ایک دو بار سے زیادہ کبھی نہیں پڑھا تھا۔ وہ کتابیں جن کو اُس نے تیسری
بار اپنے مطالعہ کے قابل جانا تھا اُن کی تعداد چند ایک سے تجاوز نہیں کرتی تھی۔ وہ
اس کتاب کو گیارہویں بار پڑھ رہا تھا اور وہ اُس کے حواس پہ سوار ہو چکی تھی۔
ایک دن وہ اپنے ایک دوست کے سسر سے ملنے اُن کے گھر نارتھ ناظم آباد گیا۔ پراچہ صاحب تپاک سے ملے۔ اُن کی شفقت سے اُسے ڈھارس ہوئی۔ وہ یوں بھی خود کوکراچی میں اکیلا سا محسوس کرتا تھا۔ وہ دنیا گھومے ہوئے تھے۔ اُن کی باتوں میں دنیاداری کا رکھ رکھاؤ تھا۔ انہوں نے اُسے اپنے گھر منعقدہ عید میلاد النبی ﷺ کی تقریب پہ مدعو کیا۔ اُس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اُس تقریب میں روضہ اقدس ﷺ کی چادر کے سائے تلے درود و سلام پڑھنے کی سعادت ملی۔ اُس کے بعد وہ اُن سے ملنے کئی بار اُن کے گھر گیا۔ ایک دو بار وہ بھی اُس کے گھر آئے ۔ ایک بار وہ اُس کے یہاں آئے تو اُس نے لوح و قلم انہیں بھی دکھائی اور اسی کی بابت گفتگو ہوتی رہی۔ اُس نے محسوس
کیا کہ وہ اُس کی
باتوں میں محض اُس کی دلجوئی کے لئے دلچسپی لے رہے ہیں تو اُس نے بات اُن کی دلچسپی
کے موضوعات کی طرف موڑ دی۔
رمضان المبارک کا آغاز ہوا۔ ایک دن وہ کام
سے گھر جاتے ہوئے پراچہ صاحب کے یہاں رکا۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے دوران اُس نے پراچہ
صاحب سے خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی بابت دریافت کیا۔ وہ ہنس دیئے ۔ اُن کی ہنسی
سے وہ جھینپ سا گیا۔
انہوں نے پوچھا۔۔۔ آپ اُن سے کس سلسلے میں
ملنا چاہتے ہیں؟ آپ کو کیا مسئلہ درپیش ہے؟
میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے میں تو اُن کے علم
کے حوالے سے ملنا چاہتا ہوں۔ اُ س نے اکھڑ کر کہا۔
اُس نے روزنامہ جنگ کے دفتر سے فون نمبر
لے کر اُن سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہاں سے ایک ہی بات کہی گئی کہ آپ اپنا مسئلہ
لکھ کر بھیج دیں۔ اب وہ مسئلہ کیا لکھ کر بھیجتا۔ وہ تو فقط اُن سے ملنا چاہتا تھا۔۔۔
کیوں؟ سچی بات تو یہ ہے اُسے خود بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ اُن سے کیوں ملنا چاہتا ہے۔۔۔
بس ایک تجسس سا تھا۔۔۔ ایک طلب اور تقاضہ کہ اُن سے ملنا چاہئے۔
” اگر آپ جانتے ہیں کہ اُن سے کہاں ملا جا سکتا ہے تو بتا دیں۔ ورنہ کوئی ایسی خاص بات بھی نہیں۔ مجھے یوں بھی مشاہیر سے کچھ خوف آتا ہے، کیونکہ اُن کا جو تاثر اُن سے ملنے سے پہلے ہوتا ہے اکثر وہ ملنے کے بعد قائم نہیں رہتا۔' بار بار مسئلہ کا ذکر ہونے سے شاید اُس کے اندر موجود مسائل کے انبار جن سے وہ آنکھیں چرائے پھرتا تھا اُس کے سامنے آجاتے تھے۔ یوں بھی یہ لفظ اُس کی چڑ سی بن گیا تھا۔ ہر ایک مسئلہ پوچھتا تو ہے لیکن حل کوئی نہیں کرتا بلکہ اکثر تو اُس کا مسئلہ سُن کر خود اُسی کا
مسئلہ حل کرنے بیٹھ
جاتے تھے۔ تم نے یہ کیوں کیا، یہ کیوں نہیں کیا، تمہیں یہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جب
کوئی حل نہیں کر سکتا تو پوچھتا ہی کیوں ہے؟۔۔۔ وہ جھنجھلا اُٹھتا تھا۔
” جانتے کا کیا مطلب؟ بھئی وہ ہمارے پڑوسی
ہیں اور ہم سے اُن کے بہت اچھے مراسم ہیں۔ وہ کئی بار ہمارے یہاں آ چکے ہیں۔“ پراچہ
صاحب نے کہا۔
روضہ اقدس کی چادر کے حوالے سے پراچہ صاحب
خود کو بہت اہم مانتے تھے اور اس بات پہ انہیں فخر بھی بہت تھا۔ انہوں نے اُن کے اپنے
یہاں آنے کو جب چادر شریف کا شاخسانہ قرار دیا تو نہ جانے اُس کو یہ بات کچھ عجیب سی
کیوں لگی لیکن وہ کچھ بولا نہیں۔ پھر انہوں نے اپنے بیٹے کو آواز دی۔ گلو بیٹے انکل
کو ساتھ لے جاؤ اور انہیں عظیمی صاحب سے ملوا دو۔ پراچہ صاحب اس وقت یقیناً اچھے موڈ
میں تھے۔
غلام محمد (گلو) ماشاء اللہ سات بہنوں کے
اکلوتے بھائی ہیں۔ انہوں نے سعادت مندی سے انکل کی قیادت کی ہامی بھری اور وہ دونوں
وہاں سے چار گھر دور ڈ-32 کی طرف چل دیئے۔ ابھی وہ ایک گھر دور تھے کہ غلام محمد نے
کہا۔ وہ جا رہے ہیں۔ اُس نے دیکھا کہ اُن سے آگے دو بندے جا رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں
کوئی برتن تھا۔ شاید افطاری کے لئے کچھ لینے جا رہے تھے۔
غلام محمد تیزی سے آگے بڑھ کر اُن سے جا ملا اور انہیں راستے میں روک کر کہنے لگا۔ انکل نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، یہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔اُس نے اُن صاحب کو دیکھا جن سے غلام محمد مخاطب تھا۔ میانہ قامت، گٹھیلا لیکن گداز بدن، سفید کرتے پاجامے میں ملبوس، سفید خشخی ڈاڑھی ، مندی مندی پلکوں، تبسم آمیز آنکھوں سے انہوں نے اُس کی طرف نظر کی۔ اُس نے انہیں سلام کیا۔' کام اللہ کرتا ہے اور نام بندے کا ہو جاتا ہے'۔۔۔ انہوں نے اُس کو احترام اور عقیدت مندی کے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع دیئے بغیر کہا۔
جی ہاں۔ اللہ ہی اپنے بندوں کی دیوٹی لگاتا
ہے کہ وہ کچھ کریں۔۔۔ جانے کیسے وہ بول پڑا۔
انہوں نے اُس کو نظر بھر کے دیکھا۔ اُس نے
محسوس کیا کہ یوں انہیں راہ میں روک کر انہوں نے کچھ اچھا نہیں کیا اور یہ کوئی مہذب
طریقہ بھی نہیں۔
' آپ سے ملنا تو چاہتا ہوں لیکن اس طرح نہیں۔۔۔
اس گستاخی کی معافی چاہتا ہوں' اُس نے جلدی سے کہا۔
' ہاں۔۔۔ تو آپ افطار کے بعد تشریف لے آئیں۔
اس وقت تو ہم افطاری کے لئے کچھ لینے جا رہے ہیں'۔
اور ۔۔۔'جی مناسب ہے' ۔۔۔ سُن کر وہ مسکراتے
ہوئے آگے بڑھ گئے۔
وہ انہیں جاتے دیکھتا رہا۔ لوح و قلم کے
علوم کا حامل بندہ۔۔۔ خراماں خراماں چلتا۔۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے وہ دائیں بائیں جھومتے
ہوئے چل رہے ہیں۔ گلی کی نکڑ پہ مُڑ کر وہ نگاہوں سے اوجھل ہوئے تو اُس نے غلام محمد
کو اپنی طرف متوجہ پایا۔
' چلیں؟' اُس نے پوچھا
جی ہاں۔۔۔آپ افطار ہمارے یہاں کر کے ان سے
مل کے جائیے گا'۔۔۔ اُسے گلو پہ پیار اگیا۔
واپس پلٹتے ہوئے اُس نے اُس کے گھر کے بند دروازے کی طرف دیکھا جہاں روزنامہ جنگ کی دھاتی پلیٹ کے اوپر مکین کا نام نامی چمک رہا تھا اور جہاں اسے افطار کے بعد آنا تھا۔
افطار تک وہ پراچہ
صاحب کے یہاں رہا۔ اس دوران کیا کیا باتیں ہوئیں اُس کا دھیان وہاں ہوتا تو اسے یاد
بھی رہتیں۔ اُن سے مل کر کوئی ہیجان، کوئی جوش محسوس نہیں کر رہا تھا۔ بس ایک انتظار
کی کیفیت تھی۔۔۔ اُن سے کیا کیا پوچھے؟ اُن کی کس کتاب پہ تبصرہ کرے؟ کیا تبصرہ کرے؟
وہ اُن سے کیا کہے گا کہ وہ اُن سے کیوں ملنا چاہتا تھا ؟ افطار کے بعد نماز پڑھتے
ہی وہ اُن کے گھر پہنچ گیا۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔