Topics
پشاور پہنچ کر ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہوئے اُس نے گھر واپس
پہنچنے کی خوشی کے جوش کی بجائے اپنے اندر ایک سناٹا سا پھیلا ہوا محسوس کیا۔ جانی
پہچانی سڑکوں اور عمارتوں کو وہ دیکھ تو رہا تھا لیکن شناسائی کی کوئی لہر اُس کو گدگدا
نہیں رہی تھی۔ بیوی بچوں سے ملا۔۔۔ وہ اس کے اتنے دن بعد واپسی پہ جس خوشی اور مسرت
کا اظہار کر رہے تھے۔۔۔وہ اُس کے ردِ عمل میں مسکرا تو رہا تھا لیکن اندر سے کہیں بہت
دور رہ کر۔
تین چار روز
وہ گھر میں لیٹا کراچی میں اپنے مراد کے سنگ گزرے لمحات کو ، اُن کی کہی باتوں کو دل
ہی دل میں دہراتا رہا۔ مراقبہ ہال میں بیتی کیفیتوں کو یاد کرتا رہا۔ بیوی نے دریافت
کیا کہ وہ دفتر کیوں نہیں جا رہا تو اُس نے کہا کہ کل سے وہ ضرور جائے گا۔۔ آج رہنے
دو۔۔۔ بیوی نے قدرے اچنبھے سے اُس کو دیکھا اور پھر۔۔۔ ہوگا کچھ۔۔۔کے انداز میں کندھے
اچکا کر چل دی۔ وہ ضرور سوچ رہی ہوگی یہ دفتر سے ناغہ کرنے والا تو نہیں۔۔
اگلے روز سے
اُس نے دفتر جانا شروع تو کر دیا لیکن اندر سے وہ اک لاتعلقی سی محسوس کرتا رہا۔ اگر
کوئی کام نہیں بھی ہو رہا ہوتا تو اُس کو کچھ زیادہ فکر محسوس نہ ہوتی اور اگر کوئی
کام مکمل ہو جاتا تو پہلے کی مانند اُس پہ خوش ہونے کی بجائے محض اطمینان کا اظہار
کر کے رہ جاتا۔ کوئی دوست آتا تو اُسے جتاتا۔۔ کیا بات ہے کہیں کھوئے کھوئے سے ہو۔۔نہیں۔۔۔
بس یونہی تمہیں کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ وہ اُس سےکراچی کی بابت پوچھتے۔ بس ٹھیک
ہے ۔۔۔کہہ کر خاموش ہو جاتا۔ وہ چاہتا تو تھا کہ انہیں اپنے مراد سے سُنی اور سیکھی
باتیں بتائے لیکن پھر یہ سوچ کر کہ جانے وہ کیسا محسوس کریں۔۔۔خاموش رہتا۔
لگ بھگ ایک
ڈیڑھ ماہ کچھ اسی طرح کی کیفیت میں گزار کر ایک دن اُس نے فون پہ مرشد کریم سے بات
کی۔ اُس نے سلام دُعا کے بعد عرض کی کہ لکھنے پڑھنے پہ طبیعت مائل نہیں ہوتی۔
فرمایا۔ صدیوں
کا غبار نکل رہا ہے تو خلا سا محسوس ہو رہا ہے۔ پھر دریافت کیا کہ کام کاج کیسا ہے؟
اُس نے عرض کی شکر ہے۔۔ گزارا ہو رہا ہے۔۔ لیکن وہ چاہتا ہے کہ کام کچھ بڑھ جائے۔
فرمایا۔ یہ
بھی کوئی امتحان ہوگا۔ سب بہت بہتر ہو جائے گا۔ آپ فکر نہ کریں ۔ آپ غصہ سے بچیں۔ اُس
نے کہا۔ اپنے طور پر وہ کوشش تو بہت کرتا ہے کہ غصہ نہ آئے ۔ٹینشن کی وجہ سے ایسا ہوتا
ہے۔ غصہ بھی ٹینشن ہی کی وجہ سے آتا ہے۔
پھر سلسلے کے
حوالے سے فرداً فرداً دریافت کیا۔ اُس نے نیاز صاحب کی چار سدہ پوسٹنگ اور پشاور مراقبہ
ہال کی تعمیر کے مکمل ہونے کی بابت مطلع کیا تو فرمایا۔ یہ نیاز بھائی کے لئے بہت بہتر
ہو جائے گا۔ اُس نے عرض کی کہ پشاور کے دوستوں نے بہت خلوص سے۔۔۔بہت خوبصورت جگہ بنائی
ہے جب آپ پنڈی آئیں تو پشاور بھی تشریف لائیں۔ فرمایا۔ ہاں پنڈی سے پشاور کا فاصلہ
ہی کتنا ہے۔ پھر شاہین اور بچوں کو دعا اور پیار کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ فون بند
کرنے کے بعد اُس نے اپنے اندر چہل اور چلبلاہٹ کی بجائے سناٹے اور ٹھہراؤ کو گہرا ہوتے
اور پھیلتا محسوس کیا۔
پہلے جب کبھی
وہ مرشد کریم سے فون پہ بات کرتا تو وہ کتنا ہی اداس اور افسردہ کیوں نہ ہوتا۔۔۔وہ
خوشی سے بھر جایا کرتا۔ اُسے اچھی طرح یاد ہے۔ جب انہوں نے پہلی بار اُسے دُعا دیتے
ہوئے کہا تھا۔۔۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔۔۔اُس وقت اُسے لگا تھا جیسے خوشی کا ایک ایسا
پیڑ اس کے اندر اُگ آیا ہے جو ہر گزرتے لمحے بڑھتا اور پھیلتا ہی جا رہا تھا۔ وہ ہر
وقت خوشی کے احساس سے سرشار رہنے لگا تھا۔ اب یہ ٹھہراؤ اور سکون۔۔۔ا س کو عجیب سا
لگ رہا تھا۔ شاید وہ خوشی کے مفہوم کو اسی قدر سمجھا تھا کہ وہ خوشی کو اک قہقہ بردار
مسرت کے روپ میں خود پہ ہمہ وقت طاری دیکھنے کا متمنی تھا۔ اب جب وہ خوشی کی اصل سے
واقف ہو رہا تھا تو اُس کو عجیب سا لگ رہا تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کیفیت میں رہنے کا
عادی ذہن بے کیفی کی لذت سے ابھی آشنا نہ تھا۔ مرشد کامل نے اُس کو یہ بات کچھ اس انداز
سے تعلیم فرمائی کہ اب یہ کیفیت اُس پہ وارد ہو کر اُس کے ذہن کو اُس بات کا خوگر بنا
رہی تھی جو بات اُس کو سمجھائی اور سکھائی گئی تھی۔
اس نتیجے پہ
پہنچ کر اُس کو قدرے طمانیت کا احساس ہوا تو اُس نے سوچا کہ مرشد کریم سے بات کر کے
یہ تو ہوا کہ اُس کو کسی نتیجے پہ پہنچنے میں مدد ملی۔ اب اُس کو اس بات پہ بھی کوئی
حیرت نہ ہو رہی تھی کہ بظاہر اُس نے ایسی کوئی بات کہی بھی نہ تھی جس سے اُس کے اندر
کی بات ظاہر ہوتی اور انہوں نے بھی اُس کے مسئلے پہ براہ راست کوئی بات نہیں کہی تھی۔
بظاہر سرسری اور رسمی سی باتوں کے بعد وہ اپنے اندر سکون اور ٹھہراؤ میں اضافہ ہی دیکھ
رہا تھا۔
ایک دو روز
میں وہ زندگی کے بہاؤ میں اسی طرح بہنے لگا جیسا کہ پہلے بہہ رہا تھا۔ لیکن اب اُس
بہاؤ کو وہ اپنی مرضی سے موڑنے کی خواہش اور کوشش کرنے کی بجائے اُس کے ساتھ بہنے میں
زیادہ لطف لینے لگا تھا۔
تقریباً ایک
ماہ بعد خالد نیاز نے قلندر شعور کے نئے انگریزی ایڈیشن چھپنے کی اطلاع دی۔ تو وہ کھل
اُٹھا۔ جس ملک میں طبع زاد کتب کا ایک ایڈیشن سالوں میں ختم نہ ہوتا ہو وہاں ترجمہ
کا دوسرا ایڈیشن سال بھر میں آجانا۔۔۔خوشی ہی کی بات تھی سو وہ خوش ہو رہا تھا۔ اُسی
شام اُسے نیاز صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ ابا حضور انگلینڈ جارہے ہیں۔ اُس نے فون
کیا اور کہا کہ اُس نے سُنا ہے کہ وہ انگلینڈ جارہے ہیں۔ فرمایا ۔ جی ہاں اس بار وہاں
چھ ہفتے قیام رہے گا۔ پھر اُس نے کتاب کے بارے میں بات کی اور کہا کہ اس کا کور سادہ
لیکن شاندار ہے تو فرمایا۔ یہ انگلینڈ کے حساب سے چھپی ہیں۔ وہاں نہ تو گرد ہوتی ہے
اور نہ دھول اور پسینہ۔ وہاں ایسی ہی کتاب چاہئے۔اُس نے انہیں مبارک باد پیش کی تو
اُسے دُعا دیتے ہوئے فرمایا۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آپ کو برکت دے، آپ کے کام میں برکت
دے، آپ کو مزید روحانی علوم عطا فرمائے اور اُن کا مزید ذوق و شوق عطا فرمائے۔
فون بند کرنے
کے بعد کئی روز تک وہ سر شاری کے کیف کا جھولا جھولتا رہا۔ پھر اس پینگ کو ایک اور
ہلارا اُس وقت ملا جب اُسے منصور الحسن کا خط ملا۔ خط میں انہوں نے ڈھیروں مبارک باد
دیتے ہوئے لکھا کہ مرشد کریم نے انگلینڈ سے واپس آکر مرکزی مراقبہ ہال میں قلندر شعور
کی کلاس لی ہے تو اپنے انگلینڈ کے دورہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں انگریزوں کے
ہاتھ میں قلندر شعور کی نئی کتاب دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مقصود صاحب کی روح خوش ہو
رہی ہوگی۔ میں تو وہاں تھا ہی مجھے تو خوشی ہو ہی رہی تھی۔ پھر اُس کے لئے دُعا فرمائی
کہ اللہ انہیں برکت عطا فرمائے انہوں نے سلسلے کے کام کو آگے بڑھانے میں میری مدد کی
ہے۔
ایک دن وہ اپنے
دفتر پہنچا تو اقبال قریشی صاحب کو وہاں موجود پایا۔ وہ سلسلے کے ایک مخلص رکن اور
مُرشد کریم کے عاشقوں میں سے ایک ہیں۔ انہیں دیکھ کے اُسے خوشی ہوئی۔ انہوں نے اُسے
بتایا۔ سلسلے میں آنے سے پہلے میری سوچ یہ تھی کہ اللہ کی اس کائنات کو چلانے میں کہیں
نہ کہیں۔۔۔کچھ نہ کچھ میرا بھی کردار ہے۔۔۔میں نہیں کروں گا تو یہ کام کیسے ہوگا۔ لیکن
مرشد کریم نے اب کچھ ایسا ذہن بنا دیا ہے کہ میں یہ سمجھ گیا ہوں کہ اس کائنات کو اللہ
ہی چلا رہا ہے اور میں تو اُس کو اسے چلاتے ہوئے بھی نہیں دیکھ پا رہا تو میرا دل اور
حصہ کیسا۔ اب میں دیکھتا ہو ں کہ میں نہ بھی کروں تب بھی وہ کر کے ہی چھوڑتا ہے۔ وہ
دیر تک اُن کی اس بات سے محظوظ ہوتا رہا۔
انہوں نے باتوں
باتوں میں اُس سے پوچھا کہ کیا وہ کراچی جائے گا؟ کس سلسلے میں؟ اُس نے دریافت کیا۔
انہوں نے بتایا کہ بابا جی کی چھوٹی صاحبزادی حنا کی شادی ہے ۔ نیاز صاحب اور وہ مرشد
کریم کو بابا جی ہی کہتے ہیں۔ اُس نے کہا اگر اُسے مدعو کیا گیا تو وہ ضرور جائے گا
لیکن اس طرح جانا کہیں غلط ہی نہ ہو جائے۔ اُن کے لئے کسی کوفت کا باعث بننے کے خیال
سے ہی اُس کو ہول آتا تھا۔
شام کو وہ گھر
پہنچا تو اُس کی بیوی نے اُس کو حنا کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ دکھایا۔ وہ دیر
تک اُس دعوت نامہ کو دیکھتا رہا۔اُس نے دل ہی دل میں اپنے مراد کو تھینک یو اور بیوی
سے شادی میں شرکت کی تیاری کرنے کا کہا۔
معلوم ہوا کہ
نیاز بھائی بھی کراچی جا رہے ہیں تو پروگرام یہ بنا کہ وہ سب ایک ہی دن ایک ہی ٹرین
سے کراچی جائیں۔ ساتھ بھی رہے گا اور گپ شپ بھی۔ اُس نے یہ بات فوراً مان لی۔ اب اُس
نے اپنے اندر ایک تبدیلی یہ نوٹ کی تھی کہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کی بجائے سلسلے کے
بہن بھائیوں کے ساتھ بات چیت کرنا اُسے بھاتا تھا۔ شاید اس لئے کہ سب ایک دوسرے کی
عزت کرتے ، ہم ذہن ہونے کے سبب ایک دوسرے کی بات آسانی سے سمجھتے تھے ۔ ایک مشترکہ
بندھن میں بندھے ہونے کے سبب ایک سی باتیں کرتے یا پھر یہ کہ اب وہ خود کو ایک گروہ
ہی مانتے تھے۔
لاہور سے آگے
جب ٹرین کی رفتار ہموار ہو گئی اور وہ آمنے سامنے بیٹھے ایک ادبی و شعری محفل گرما
رہے تھے کہ ٹکٹ چیکر آیا ۔ گہری رنگت، ڈھیلی ڈھالی وردی، کھوئی کھوئی آنکھوں والا۔۔۔
کام کو ایک طرح کی بے گار سمجھ کر کرتا۔۔۔ٹکٹ چیک کرتے ہوئے اُس نے اُن کی باتیں سنتے
ہوئے پہلے تو ایک لقمہ دیا، پھر اجازت ہے۔۔۔اور۔۔۔بھائی صاحب ذرا جگہ دیں کہہ کر اُن
کے ساتھ ہی آن بیٹھا۔ شروع میں اُسے اُس کا وہاں بیٹھنا ناگوار خاطر ہوا۔۔۔ لیکن جب اچانک ہی اُس نے حج کا لغوی
مطلب اجتماعی غورو فکر بتایا تو سب یک دم ہی اُس کی طرف متوجہ ہو گئے۔
اُس نے حج کو
حجت سے جوڑتے ہوئے کہ ا للہ تعالی نے اس اجتماع المسلمین کو سال میں ایک بار اس لئے
فرض کیا تاکہ ہم ایک بار مل بیٹھ کر اجتماعی طور پر ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کر کے
پورا سال اُس کے مطابق چلیں اور پھر اگلے سال نہ صرف سالِ گزشتہ کی کارگزاری کا جائزہ
لیں بلکہ آئندہ اُن غلطیوں سے اجتناب کی سبیل کریں جو اس سال ہو چکی ہوں۔ اسی لئے یہ
کہا گیا کہ جو حج کرلیتا ہے اُس کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ گناہ اس لئے معاف
نہیں ہوتے کہ آپ کچھ مقامات کی Site
Seeing کے اہل ہیں۔ یہ سوچ
اللہ کے نظام انصاف سے ایک بھیانک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔۔ا للہ ہمیں معاف فرمائے۔
اب اُن کو اُس
سے اتنی دلچسپی محسوس ہونے لگی کہ وہ اُس سے کچھ مزید سننے کے لئے آمادہ و تیار تھے۔
اُس نے اُس سے دریافت کیا۔ آپ کے نزدیک تسبیح کا قرآنی مفہوم کیا ہے؟ اُس نے اُس کی
بات کا جواب دینے سے پہلے اپنی سگریٹ جو دوران گفتگو بجھ گئی تھی دوبارہ سلگائی۔ شاید
اس طرح وہ سوچنے کو درکار وقت حاصل کر رہا تھا۔ ایک دو کش لے کر جب اُس نے محسوس کیا
کہ اب وہ جلدی نہیں بجھے گی تو اُس نے کہا۔۔ ڈیوٹی۔۔۔ڈیوٹی کرنا ہی تسبیح ہے۔
وہ منتظر تھے
کہ اتنی تیاری کے بعد اب وہ کوئی تقریر کرے گا لیکن اُس نے بات ختم کر کے ایک دو کش
لئے اور انہیں اشعار سنانے لگا۔ کافی دیر بعد جب گاڑی آہستہ ہونے لگی اور دبے میں کچھ
ہلچل بیدار ہوئی تو وہ چونکا۔ ارے رحیم یار خان آگیا۔ میری ڈیوٹی یہاں تک ہی تھی۔ جب
وہ اُن سے اجازت لے کر جانے لگا تو اُن سب نے کھڑے ہو کر اُس سے ہاتھ ملایا۔ وہ انہیں
خدا حافظ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
اُس کے جانے
کے بعد سب اُس کے بارے میں سوچ رہے تھے اور بات بھی کر رہے تھے۔ اُس نے سوچا اتنا قابل
آدمی اور اجلے ذہن کا مالک ، شعری ذوق اور جمالیاتی حس رکھنے والا بندہ سارا دن کیسے
کیسے لوگوں کو دیکھتا اور سہتا ہے۔ کراچی پہنچ کر وہ اپنے مراد سے اس کے بارے میں ضرور
بات کرے گا اور انہیں اُس کی سُنی ہوئی بات بتا کر اُن سے ان باتوں کی تصدیق کروائے
گا۔اور پھر وہ یہ اندازہ کرنے میں لگا رہا کہ بھلا وہ اس کی بابت کیاکہیں گے۔
اچانک اُس نے
خود سے پوچھا پہلے تو تم خود ہی سارے فیصلے کر لیا کرتے تھے اب اس بندے کی اتنی اچھی
بات ماننے کے لئے بھی تم اُن سے بات کرنا کیوں ضروری سمجھ رہے ہو؟ اُس نے ٹرین سے باہر
تیز رفتاری سے گزرتے مناظر کو بے دھیانی سے دیکھتے ہوئے جوابی جملہ سوچا۔ پہلے میں
کسی کو باپ بھی تو نہیں مانتا تھا اور پھر خود ہی اپنی بات پہ خود کو داد دینے کو مسکرا
دیا۔
کراچی سٹیشن
پر اتر کر انہیں احساس تو یہ ہوا کہ وہاں پشاور کی نسبت سردی بالکل ہی نہیں ہے کیونکہ
ایک سویٹر میں انہیں پسینہ آرہا تھا لہذا اُنہوں نے اپنے کوٹ اور جیکٹیں اتار کر ہاتھوں
میں زائد سامان کی طرح اُٹھا لئے۔ راستے میں نیاز صاحب نے تجویز کیا کہ ایک گاڑی میں
سامان کے ساتھ ایک صاحب سیدھے مراقبہ ہال چلے جائیں اور دوسری گاڑی میں وہ راستے میں
ڈی۔۳۲ میں رُک کر۔۔حضور بابا جی سے مل کر۔۔۔مراقبہ ہال پہنچیں۔ سب نے اس تجویز پر صاد
کیا۔
جب وہ ڈی۔۳۲
پہنچے تو حضور گھر کے اندر تشریف فرما تھے۔ انہیں اندر آتا دیکھ کر اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔
اُن سے گلے ملنے کے بعد خواتین کے سر پہ ہاتھ رکھ کے اُن کے سلام کا جواب دیتے فرمایا۔
میں دیکھ رہا تھا کہ یہ گورے گورے لوگ کہاں سے آگئے۔ سبھی کھل اُٹھے۔ کچھ اپنے سچ مچ
گورے ہونے کے سبب اور کچھ اپنے معنوی طور پر گورا ہونے کا سمجھتے ہوئے۔
سب اُن کے گرد
گھیرا ڈال کر بیٹھ گئے۔ خیرو عافیت ، سفر کیسا گزرا۔ پوچھنے کے بعد فرمایا۔ زندگی بھی
تو ٹرین کا ایک سفر ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس ٹرین سے جو اک بار اتر جائے دوبارہ
اس پہ سوار نہیں ہو سکتا۔
مرید نے ٹرین
میں ملنے والے ٹکٹ چیکر کا بتایا تو فرمایا۔۔۔ جی ہاں۔۔ایک سے ایک پڑا ہے۔
پھر تسنیم بھابھی
اور شاہین سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ حنا بہت نصیب والی بچی ہے۔ اس کی شادی پر جتنے لوگ
آئے ہیں اس سے پیشتر کسی بچے کی شادی پہ نہیں آئے ۔
پھر انہیں گھر
پہ ہی رُکنے اور قیام کرنے کا کہا اور حمیرا بھابی سے نیاز بھائی اور اُن کے لئے ایک
ایک کمرے میں فرشی بستر لگانے کا کہا۔ شاہین اور تسنیم بھابھی حمیرا بھابھی کا ہاتھ
بٹانے کو اُٹھ کر اُن کے ہمراہ چلی گئیں۔
شاہین کی بابت
تبصرہ کیا۔ یہ تو دودھ پینے والی لیلیٰ ہیں۔ پھر اُس کو دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ ٹھپہ اوپر
سے لگا ہوا آیا ہے۔ مرید نے ہنس کر کہا جی ہاں مجھ پر شاہین کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔ مسکراتے
ہوئے کہا۔۔ جی ہاں۔۔ میاں تو بیوی کا غلام ہی ہوتا ہے۔
گھر میں خواتین
کو صفائی کرتے دیکھ رہے تھے۔ فرمایا۔ بڑا گھر اس لئے بھی بہتر نہیں ہوتا کہ خواتین
کو ہر روز ہفتہ صفائی منانا پڑتا ہے۔ بھئی یہ سب پاور کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے اللہ
جب ایک کام کرواتا ہے تو ہم ذہن لوگ ملوا دیتا ہے۔
شادی کے بارے
میں کہا کہ خوشی کو شادی کہتے ہیں مگر یہ خوشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی۔ اندیشوں
اور وسوسوں سے دھند لا جاتی ہے۔ اگر آدمی روٹین میں چلتا رہے تو شادی کی خوشیاں ماند
نہیں پڑتیں۔
پھر ایک بات
یہ ارشاد فرمائی۔ ہم منافقت بہت کرتے ہیں۔ سب بُرائی کو چھپاتے ہیں۔ بھئی جب ایک بات
کو بُرا جانتے ہو تو اُسے کرتے ہی کیوں ہو؟ اصل میں انسان برائی کو نہیں اپنی کمزوری
کو چھپاتا ہے۔ اخفا کو ارتقا اسی لئے تو کہا گیا ہے۔ انبیاء کرام کے یہاں اندر اور
باہر سب ایک سا ہے۔ اگر مکھن چُرایا تو وہ بھی سامنے اور اگر گوپیوں کا بانسری بجا
کر رجھایا تو وہ بھی پوشیدہ نہیں۔ حضور ﷺ کی زندگی میں بھی سب کچھ لوگوں کے سامنے ہی
رہا۔ تیرہ شادیاں بھی۔ اگر اپنوں نے عقیدت میں کچھ نہیں کہا تو غیروں یعنی کفار اور
یہودیوں نے کیوں نوٹس نہیں لیا۔ خیر اب تو اسے کسی اور وجہ سے اچھالا جاتا ہے۔
فرمایا باہر
کے لوگوں میں منافقت نہیں ہوتی۔ وہ بُرائی کو بُرائی ہی نہیں سمجھتے اس لئے جو کچھ
کرتے ہیں سرِ عام کر لیتے ہیں۔ میں نے ایک بار ایک صاحب سے انگلینڈ میں کہا کہ ماں
کی خدمت کیا کرو۔ اُس نے صاف کہہ دیا ۔ میں اُس سے ناراض ہوں۔ میں اُس کی خدمت کیوں
کروں؟ منافقت نہیں کی۔
مرید نے عرض
کی جب سب ہی منافقت کر رہے ہیں تو ہمارے لئے کون سا راستہ رہ جاتا ہے؟ کیا ہم بھی منافقت
کریں؟
فرمایا۔ انبیائے کرام کا طرزِ عمل ہی بہتر راستہ ہے۔
مرید نے سوچا
کہ بُرائی کو چھپانا منافقت ہوئی اور خوبی کو بڑھا کر بیان کرنا شیخی اور کبر ہوا تو
پھر اخفا کاا رتقا سے تعلق کیسے بنا؟ پیشتر اس کہ وہ دلیل کا سہارا لے کر اپنے منہ
سے ادا کرتا ۔ فرمایا۔ ابھی بتایا نا کہ کمزوریوں کو چھپانا ہی ارتقا کا سبب بنتا ہے
اور یہی لوح و قلم میں بھی لکھا ہے۔
مرید نے عرض
کی۔ جب منافقت چھوڑ دیں تو لوگ سیدھی بات کہنے کے چکر میں سختی اور تند خوئی کا شکار
ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کم از کم وہ کوئی منافقت تو نہیں کر رہے ۔ کیا یہ طرزِ
عمل مناسب ہے؟
ناگواری سے
فرمایا۔۔ یہ تو منافقت سے بھی زیادہ بری بات ہے۔ یہ تو کبر ہو گیا۔ منافقت کا مواخذہ
نہیں لیکن کبر کا ہے اور بہت سخت ہے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ مرید نے بتایالوگوں کا ہے
اور بات اپنی سُنا کر کچھ رعایت چاہ رہا ہے۔ اس لئے بجائے کوئی رعایت دینے کے اُس کی
سوچ میں موجود خامی کی نشاندہی کرنےکے بعد اس کی بیماری کا علاج تجویز کرتے ہوئے کہا۔
اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی دھیمی آواز میں بات کرے۔۔ دوسروں کو حقیر نہ جانے۔
اتنے میں کھانے
پہ بلایا گیا۔ مرشد کریم اُٹھے اور کہا آئیں نیاز بھائی۔۔۔اسلام کا چھٹا رکن ادا کر
لیں۔ کھانے کی وہی میز جہاں ایک عید کے دن اُس کا مُراد سر جھکائے اپنی پلیٹ میں رکھے
چند چنے کے دانوں کو انگلیوں سے سمیٹ کر نوالے کی صورت پکڑنا چاہ رہا تھا کہ اک اجنبی
نے اُن کی سر پرستی کی درخواست کی تھی اور آج وہ اُن کے گھر میں بلائے ہوئے مہمان کی
طرح اُن کی میزبانی سے سرفراز ہو رہا تھا۔ اُس نے سوچا۔ اتنا بہت سا پانی بھلے ہی پلوں
کے نیچے سے بہہ گیا ہو۔۔۔ اُس نے بھی تو اتنا بہت سا فاصلہ طے کر ہی لیا ہے۔۔۔۔اک اجنبی
اور انجان سے۔۔۔اک مہمان ہونے تک کا فاصلہ۔۔احساس تشکر کے ابلتے چشمے کے نمکین پانی
کو آنکھوں کی راہ بہنے سے روکنے کے لئے اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ نیاز صاحب کے بند
جانے کب کے ٹوٹ چکے تھے وہ رومال سے آنکھیں پونچھتے۔۔مرشد کریم کی اپنی طرف بڑھائی
ڈش کو تھام رہے تھے۔
مرید نے چھٹے
رکن کی بابت جاننے کی خواہش کی تو بتایا۔ کہ ایک فقیر کے پاس ایک مفتی صاحب آئے ۔ بتایا
کہ وہ حج پہ جا رہے ہیں۔ فقیر نے مفتی صاحب سے دریافت کیا؟ آپ نے اسلام کے کتنے ارکان
پورے کیے۔ انہوں نے کہا حج ہو جائے گا تو پانچوں پورے ہو جائیں گے۔ فقیر نے دریافت
کیا۔ لیکن چھٹے رکن کا کیا ہوگا۔ پہلے تو وہ سٹپٹائے پھر کہا کہ اسلام کے کل پانچ رکن
ہیں۔ فقیر نے اپنی بات پہ اصرار کیا اور کہا کہ پانچ نہیں چھ ارکان ہیں اور سب سے ضروری
یہ چھٹا رکن ہی ہے۔ مفتی صاحب جزبز ہوتے وہاں سے اُٹھ گئے اور پھر حج پہ روانہ ہو گئے۔
حج سے واپسی میں وہ جہاز سے سمندر میں گر گئے۔ جہاز والوں کو اُن کے گرنے کی خبر ہی
نہ ہوئی۔ وہ تیرتے ہوئے ایک ویران جزیرے تک پہنچ گئے۔ وہاں آدم نہ آدم زاد۔
اِدھر اُدھر
پھرتے انہیں دو ایک دن ہو گئے۔۔۔وہاں نہ کھانے کو کچھ اور نہ پینے کو۔ تیسرے دن ایک
بندہ خدا نظر آیا ۔ انہوں نے اُسے پکارا۔ اُس سے کچھ کھانے کو پوچھا۔ وہ رُکا اور پوچھا۔
کھانے کے عوض کیا دو گے۔ اُن کے پاس تھا ہی کیا۔ جو کچھ ساتھ تھا وہ تو جہاز میں رہ
گیا تھا۔ اُس بندے نے ایک روٹی کے عوض اُن سے اُن کی زندگی بھر کی نیکیوں میں سے نصف
اپنے نام لکھوالیں۔ روٹی کھا کر جب پیاس بھڑکی تو وہی بندہ پھر سامنے آیا اور باقی
نصف نیکیاں بھی اپنے نام لکھوا کر انہیں پانی کی ایک چھاگل دے کر وہاں سے چلا گیا۔
کچھ دیر بعد وہاں سے گزرتے ایک جہاز والوں نے انہیں اُس ویران جزیرے سے اُٹھا لیا۔
جب وہ فقیر سے ملے تو فقیر نے اُن سے چھٹے رکن کی بابت دریافت کیا۔ جب مفتی صاحب نے
اپنی بات پہ اصرار کلیا تو انہوں نے اپنے تکیے کے نیچے سے اُن کے ہاتھ کی وہ تحریر
جو انہوں نے روٹی اور ایک چھاگل پانی کے عوض لکھ کر دی تھی نکال کر اُن کے سامنے رکھ
دی اور کیا ۔ یہ ہے چھٹا رکن۔
فرمایا غریب
آدمی کا کیا ہے۔ بے شک اُس کا ایمان خرید لو۔ رہا حضور ﷺ کے متعلق یہ تصور کہ خدا نخواستہ
وہ کوئی غریب آدمی تھے۔۔۔ بالکل درست نہیں۔۔۔ اُس دور میں کسی کے پاس اگر ایک بھی اونٹنی
اپنی ہوتی تو اُسے ایک اچھا خاصا متمول انسان سمجھا جاتا تھا۔ حضور ﷺ کے پاس تو ایسی
کئی اونٹنیاں تھیں۔ اپنے وقت کی پانچ نادر روزگار اونٹنیاں تھیں۔ آج کل کی رولس رائس
گاڑیاں ہی سمجھیں اور پھر ایک سے ایک اعلیٰ تلوار تھی۔ کوئی دو شاخہ تو کوئی دو دھاری۔
اُن میں سے بعض کے دستے جڑاؤ تھے اُن میں ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھر لگے ہوئے تھے۔
ترکی کے عجائب گھر میں آپ ﷺ کی ایسی کئی اشیاء آج بھی رکھی ہوئی ہیں۔ نہ جانے انہیں
کیسے آب دی گئی تھی کہ آج تک اُن پر زنگ نہیں لگ سکا۔ انہیں دیکھ کر بھی اگر کوئی یہ
کہتا ہے کہ حضورﷺ ایک غریب آدمی تھے۔۔تو اُس کی مرضی۔۔لیکن یہ بات ہمیں تو سمجھ نہیں
آتی۔۔جب اُس دور کے کپڑے آج تک محفوظ ہیں تو اُن کی کوالٹی کا بھی تو کچھ اندازہ ہوتا
ہی ہے نا۔ اب جس دور میں کپڑا ہی عام نہ تھا اُس دور کا اُن سے منسوب جبہ و دستار دیکھیں
وہ مخمل ہی تو ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی غریب آدمی مخمل کہاں پہن سکتا ہے۔
پھر حضورﷺ عود
کا عطر استعمال فرماتے تھے۔ آج کل عود کی لکڑی پینتیس ہزار ریال فی کلو ہے۔ یہ لکڑی
اُس وقت بھی عرب میں تو ہوتی نہیں تھی۔ ہندوستان سے ہی آتی ہوگی۔ ظاہر ہے جب حضورﷺ
خود اتنا قیمتی عطر استعمال کرتے تھے تو دوسروں کو بھی دیتے ہوں گے۔ مہمانوں کے وفود
آتے تھے۔۔۔ سب اصحاب صفہ اُنہی کے مہمان تھے۔۔۔ یہ سب غریبی میں کہاں ممکن تھا؟
اُس زمانے میں
چھت ہونا ہی اسٹیٹس کی علامت تھا۔ بدو تو آج بھی خیموں میں ہی رہتے ہیں۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لئے کھانے کے برتن اور کٹلری چین سے آتی تھی۔ یہ سب باتیں
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے اپنی کتاب میں تحریر کی ہیں۔ لیکن ہم پڑھتے ہی کب ہیں؟ پڑھ
لیں تو سمجھتے ہی کتنا ہیں۔
فرمایا۔ اللہ
نے کائنات اسٹیٹس پر بنائی ہے۔ آپ جس اسٹیٹس پر قائم ہو جائیں گے اللہ اُس کے مطابق
وسائل فراہم کر دیتا ہے۔
بتایا کہ پورا
قرآن فعلن فعلن فعل کے وزن پر ہے اور پھر سورہ کوثر کی تلاوت کر کے اُس کی تقطیع کر
کے بتایا۔ مرید نے حیرت سے کہا۔ یہ تو عجیب بات معلوم ہوئی۔ شفقت سے فرمایا۔ مجھے خود
حضرت قلندر بابا اولیا ؒ نے بتائی تھی۔ بھئی ساڑھے تئیس سال تک ایک ہی وزن میں بات
کہنا۔۔معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر بتایا کہ روحانی ڈائجسٹ میں ایک مضمون شائع ہوا
تھا۔ جس میں قرآن میں ۱۹ کے ہندسے کے کمالات کا تذکرہ تھا ۔ جیسے ۱۱۴ سورتوں کا حاصل
ضرب ہونا۔ الفاظ کی تعداد کا ۱۹ سے مکمل تقسیم ہونا وغیرہ۔
مرید کو خیال
گزرا کہ قلب انسانی سے لے کر کائنات تک ہر شے کی دھڑکن میں بھی تو ایک آہنگ، ایک سر
اور ایک تال ہے۔۔۔وہ بھی شاید فعلن فعلن فعل ہی کی عنایت کے وزن پر ہو۔۔۔ تبھی تو پورا
قرآن اسی وزن میں نازل کیا گیا ہے۔
کھانے کی میز
سے اُٹھے تو فرمایا۔ میرے بڑے بھائی مولانا ادریس احمد انصاری اور اُن کی بیگم صاحبہ
کو لینے ایئرپورٹ جانا ہے آپ سفر سے آئے ہیں تھکے ہوئے ہیں۔ آپ کچھ آرام کر لیں۔ واپسی
پہ ملاقات رہے گی۔
شادی والے گھر
میں جو افراتفری اور ہڑبونگ دیکھنے کے ہم اس قدر عادی ہیں کہ اس موقعے پر ہر بے ترتیبی
اور بے نظمی کی یہ توجیہہ بہت کافی جانتے ہیں کہ شادی والا گھر ہے ایسا تو ہوتا ہی
ہے۔۔۔ لیکن اُس کو اس قسم کی کوئی بات وہاں نظر نہیں آرہی تھی۔ ہر کام ہو رہا تھا۔
حضور سب سے مل رہے تھے سب کو اُن کی خواہش اور توقع کے مطابق کوئی نہ کوئی بات بھی
بتا رہے تھے۔ اُس نے کمرے میں لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔
نیم غنودگی
میں اُسے خیال آیا کہ لوگ کہتے ہیں سب کو خوش نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ اس بات کی سند
اور دلیل میں یہ تک کہہ دیا جاتا ہے کہ سب کو تو اللہ خوش نہیں رکھ سکتا تو ہم آپ کیا
رکھیں گے۔۔۔ اس لئے صرف اپنی خوشی کا خیال رکھو۔۔ اُس نے سوچا لیکن اُس کے مرشد کریم کے ارد گرد جتنے بھی لوگ اُس نے دیکھے ہیں
وہ سب ہی اُن سے خوش ہی ہیں۔۔ اس کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ خود خوش رہنا
جانتے ہیں اور خوشی ایک ایسی چیز ہے جس کو جتنا بانٹا جائے وہ اُسی قدر بڑھتی اور پھیلتی
ہے اور پھر یہ بھی تو ہے کہ وہ دوسروں کی خوشی کا خیال رکھتے ہیں۔ اس بات کو سوچتے
سوچتے وہ نیند کی وادی میں اتر کر کہیں کھو گیا۔
اچانک اُس نے
دیکھا کہ وہ ایک عالی شان محل کے شاہی دربار میں موجود ہے ہر طرف ایک چہل پہل اور رونق
کا سماں ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ شاہی سواری آ رہی ہے۔ سب ادب سے اپنی اپنی جگہ کھڑے
ہو چکے ہیں ۔ کوئی اُسے ٹہوکا دیتاہے کہ وہ بھی اُٹھ کھڑا ہو جائے۔ وہ اس کو نظر انداز
کر دیتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ بادشاہ سلامت قریب آجائیں تو وہ اُٹھ کھڑا ہوگا۔
پھر وہ دیکھتا ہے کہ شاہی بگھی سے کوئی اور نہیں خود اُس کا مراد اتر رہا ہے۔ وہ ہڑ
بڑا کر اُٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ اسی کمرے میں تنہا سچ مچ کھڑا ہوا ہے۔ نیند سے
عالم بیداری میں منتقل ہو چکا ہے۔ خواب میں محسوس کی گئی کیفیت اُس کے حواس پہ اس قدر
طاری تھی کہ وہ بیداری میں بھی اُسی طرح ادب سے کھڑا تھا۔
یہ احساس ہوتے
ہی کہ وہ خواب سے بیدار ہو ا ہے۔۔۔لیکن محض آنکھ کھلنے کی بجائے خود کو مودب اور ایستادہ
پانا۔۔۔وہ دروازہ کھول کر باہر کی طرف نکلا۔ ہال کمرے میں کوئی نہ تھا۔ غیر ارادی طور
پر وہ لان کی طرف کا دروازہ کھول کر مین گیٹ کی طرف بڑھا اور یہ دیکھ کر کہ سامنے سے
مرشد کریم آ رہے ہیں۔۔ اُس کو ایک زور کا جھٹکا لگا۔۔ یک دم مودب ہو کر ایک طرف ہٹتے
ہوئے اُس نے دروازہ کھول کر اُن کو اندر جانے کی راہ دی۔ مہمانوں کو ساتھ لئے وہ اندر
داخل ہوئے اور وہ اک عالم حیرت میں اپنی کیفیت اور اس تجربے پہ سوچتا باہر لان میں
پڑی ایک کرسی پہ جا کر بیٹھ گیا۔
کچھ دیر بعد
شاہین باہر آئی اور بتایا کہ نیاز بھائی اور بھابھی کسی سے ملنے کہیں گئے ہوئے ہیں۔
شام کو واپس آنے کا کہہ کر گئے ہیں ۔ پھر بتایا کہ ابا حضور اُسے اندر طلب فرما رہے
ہیں کہ آ کر چائے پی لیں۔
مرشد کریم کے
پاس بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے انہیں اپنے بھائی کی تواضع کرتے دیکھ رہا تھا۔ ادریس صاحب
بزرگانہ وضع داری اور رکھ رکھاؤ کے ساتھ اُن کی بات سُن کر سر ہلا دیتے۔ امی حضور اور
حمیرا بھابھی مہمانوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں۔ بچے بھی اپنے تایا جان کے پاس سعادت
مندی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بھی ہر ایک کے ساتھ شفقت بھرا سلوک فرما رہے تھے۔۔خاندان
کے لوگوں میں وہاں وہی ایک غِیر تھا لیکن کوئی وہاں اُسکی موجودگی کا نوٹس لے رہا تھا
اور نہ ہی کوئی برا منا رہا تھا۔
نکاح کی تقریب
سے پیشتر پھول اور اشیائے خورد ونوش کی خریداری کے لئے روانہ ہوئے تو اُسے اپنے ہمراہ
آنے کا کہا۔ حیدری سے نمکین دال سوئیاں وغیرہ خرید کر دکاندار کو ادائیگی کی۔ جب اُس
نے بقایا رقم واپس کی تو اُس میں کچھ ریز گاری اور دو تین انتہائی میلے نوٹ شامل تھے۔
آپ ریز گاری لینے کو ہاتھ پھیلا چکے تھے۔ جونہی اس کے ہاتھ میں پکرے میلے نوٹ دیکھے
تو جھٹکے سے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور اسی ہاتھ سے وہاں رکھے نمکو کے تھال کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے فرمایا۔۔۔ ان پیسوں کی یہ دے دیں۔
میلے نوٹوں
نے طبیعت میں جو تکدر پیدا کیا اُس سے نمٹنے کا سلیقہ دیکھ کر مرید عش عش کر اُٹھا۔
اگر آپ چاہتے تو دکاندار سے کہہ کر نوٹ تبدیل بھی کروا سکتے تھے لیکن اس سے دو باتیں
ہوتئیں ایک تو دکاندار پہ اُن کی نفاست طبع کا حال کھلتا اور دوسرے ہو سکتا ہے کہ دکاندار
کے پاس نئے نوٹ نہ ہوتے۔۔۔ انہوں نے دونوں ہی صورتوں کو ایک سیکنڈ کے کسی ایک حصے میں
جانچا ، تولا رد کیا اور ایک اور شے بدلے میں طلب کر لی۔ جتنی دیر میں دکاندار نے مطلوبہ
شے تول کر اُن کے حوالے کی۔ آپ نے فقط اتنا فرمایا۔ یہ نوٹ جانے کیسے کیسے لوگوں کے
ہاتھوں سے گزرتے ہیں۔
سامان کے تھیلے
اُس نے پکڑے اور وہاں سے پھولوں کی دکان کا رخ کیا۔ جتنی دیر میں پھول پیک ہو رہے تھے
ارشاد فرمایا۔ جن شہروں میں پھولوں کا کاروبار ہوتا ہے وہاں کے لوگ خوشحال ہوتے ہیں۔
پھولوں کا کاروبار لوگوں کے ذہنی رجحان کی علامت ہوتا ہے۔ یورپ کے کئی شہروں کی مثال
دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں کے لوگوں میں جمالیاتی ذوق اور فطرت سے لگاؤ یہاں سے کہیں
زیادہ ہے۔ جونہی دیکھا کہ دکاندار اُن کی بات سُن کر اُن کی طرف متوجہ ہے تو اُسے مخاطب
کر کے دریافت کیا۔۔ کیوں بھئی کراچی کے لوگ بھی خوشحال ہیں نا۔۔ اُس نے کہا ۔ سب تو
نہیں۔۔ فرمایا۔۔ جی ہاں سب تو نہیں۔۔۔ اور آگے بڑھ گئے۔
ایک ٹھیلے والے
سے بھاؤ دریافت کر کے پھل لئے۔ پیسے دینے کو جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے تو ساتھ
میں کاغذ کی ایک پرچی بھی آگئی۔ اُس پرچی کو پڑھ کر پھاڑتے ہوئے فرمایا۔۔ اللہ تو بغیر
کسی حساب کے دیتا ہے اور بندہ حساب کتاب میں لگا رہتا ہے۔ مرید نے اپنی سوچ کی روشنی
میں عرض کیا۔انسان مصروف رہنے کو ایسا کرتا ہے۔
فرمایا ۔ یہ
کیا مصروفیت ہوئی۔۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ انسان اپنے لئے سانس گنے۔۔اس میں احتیاط
کرے گا تو عمر میں کچھ اضافہ ہی ہو جائے گا۔۔ یہ روپے پیسے گننا کہاں کی مصروفیت ہوئی۔۔۔
ہر قدم پہ ایک سبق۔۔۔ہر لحظہ ہے مومن کی نئی ان۔۔
مرید نے دریافت
کیا۔۔ حضور یہ فیض سے کیا مراد ہے؟
فرمایا۔ لوگ
نہ جانے فیض کسے کہتے ہیں۔ فیض سے مراد رنگ چڑھنا، اگر کسی پہ کسی کا رنگ چڑھ گیا تو
یہ فیض ہوا۔۔۔ ویسے طرزِ فکر میں تبدیلی ہونا ہی فیض ہے۔۔لیکن یہ تو ایسے ہی ہے جیسے
کسی پہ چند چھینٹے اُس رنگ کے پڑ گئے جیسے کوئی ہاتھ دھو کر جھٹک دے اور چند قطرے آپ
پہ آن گرے۔۔۔ ویسے لوگ تو فائدے کی بات کو ہی فیض مانتے ہیں۔
مرید نے دُعا
کی کہ اللہ اُس کو اپنے مراد کا فیض نصیب فرما دے ۔
واپسی پہ مرید
نے چوتھی بین الاقوامی روحانی کانفرنس جو حیدر آباد میں ہونا تھی کی بابت انگریزی میں
مقالہ پیش کرنے کی اجازت مانگی تو فرمایا۔ ہاں ، ہاں ، ہاں کیوں نہیں۔۔ ورائٹی ہو جائے
گی۔۔ پھر اُس نے موضوع کی بابت دریافت کیا تو فرمایا۔۔ آپ لوح وقلم کےحوالے سے ہی کچھ
کہیں۔۔۔ بھئی بندے کو ایک لائن پکڑنی چاہئے۔۔ اور پھر آپ کی تو یہی لائن ہے۔۔ یہی بہتر
رہے گا۔
گھر پہنچ کر
حضور تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں سے ملنے جلنے میں مصروف ہو گئے۔ جب طاہر جلیل
صاحب دُلہا بنے اہلِ خانہ کے ہمراہ آئے ۔۔۔ تو مرشد کریم نے استقبال کیا۔ انہیں اور
ان کے ہمراہ آنے والے مہمانوں کو ہار پہنائے گئے۔۔۔ نکاح کی تقریب ہوئی۔۔۔ باراتیوں
اور مہمانوں کی تواضع کے بعد بیٹی بابل کا گھر چھوڑ گوجرانوالہ رخصت ہوگئی۔ سب سے چھوٹی
بیٹی کے گھر سے جانے کے بعد اُس کے بابل نے اُس کی جدائی کو جس طرح محسوس کیا وہ سب
نے دیکھا۔ اُن کے افسردہ ہونے سے وہاں سب ہی پہ مردنی چھا گئی۔ ڈولی اُٹھنے کے بعد
تو یوں بھی گھر جیسا ویرانہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔
صبح مراقبہ
گھر ہی پہ ڈرائنگ روم میں ہوا۔ مراقبے کے بعد ارشاد ہو یہ کیسے پتہ چلے کہ پہلے دن
نہیں بلکہ رات پہلے تھی؟ مرید نے عرض کی۔۔ اس کے لئے تو دو دلائل دیے جا سکتے ہیں۔
پہلی دلیل تو یہ ہے کہ قمری تاریخ شام کو سورج ڈھلنے کے بعد آغاز ہوتی ہے اور دوسرے
یہ کہ بائیبل میں آتا ہے کہ خدا نے کہا روشنی اور روشنی ہوگئی۔۔۔یعنی پہلے تاریکی اور
رات ہی تھی روشنی کو اللہ نے بعد میں تخلیق کیا۔
فرمایا۔ جی
ہاں ۔۔۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں کیا ہیں؟
فرمایا۔ دراصل یہ دونوں خلا ہیں۔ دن میں رات نکالتے
ہیں اور رات میں سے دن۔ ادھیڑ لیتے ہیں دن پہ سے رات اور رات پرسے دن۔۔۔ یعنی اُدھیڑ
اور بن رہے ہیں۔ ہاتھ سے ادھیڑ نے کے عمل کا اشارہ کر کے دکھاتے ہوئے پوچھا اگر کسی
بننے ہوئے
کپڑے یا سویٹر کو ادھڑیں تو کیا بچے گا؟
مرید نے کہنا
چاہا۔۔۔ دھاگہ باقی بچا لیکن خاموش رہا۔ فرمایا ۔۔ کچھ نہیں۔۔ یعنی کچھ باقی نہیں بچا۔۔بھئی
سب خلا ہے۔۔ خلا میں ایک قسم کے حواس بھر جاتے ہیں تو وہ دن کہلاتا ہے اور جب دوسری
قسم کے حواس بھر جاتے ہیں تو رات کہلاتی ہے۔یہ دن اور رات دراصل حواس کی سپیڈ کے نتیجے
میں بنتے ہیں اور دونوں ہی دھوکا ہیں۔جب حواس کی رفتار کم ہوجاتی ہے تو دن کہلاتا ہے
اور جب حواس کی رفتار تیز ہوجاتی تو اُس کو رات کہہ دیتے ہیں۔یہ سب لطائف وغیرہ بھی
خلا ہی تو ہیں۔۔۔کہہ کر بات ختم کر دی۔
اتنے میں شاہین
نے چائے پیش کی۔چائے میں چینی ڈالتے ہوئے چینی کے چند دانے پیالی سے باہر طشتری میں
گرے تو فرمایا۔ گھروں میں صفائی، خلوص اور سلیقہ ہونا ضروری ہے۔ آپ سے چینی پیالی سے
باہر گر جاتی ہے آئندہ نہ گرے۔ دراصل آپ کو کبھی کسی نے یہ بتایا نہیں۔
پھر کہا کہ
ایک بار حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے کسی سے فرمایا۔ خواجہ صاحب تو سوئی ہیں۔ فرمایا
یہ بات سُن مجھے کچھ رنج سا ہوا کہ میں اتنا حقیر ہوں۔ جب حضور کوخبر ہوئی تو فرمایا۔
ارے بھئی میرا مطلب یہ تھا کہ خواجہ صاحب ہر طرح کے حالات سے گزر جانے کی صلاحیت رکھتے
ہیں۔ سوئی سے مخمل سی لو۔۔۔ ٹاٹ سی لو۔۔۔ وہ ہر قسم کے کپڑے سے گزر جاتی ہے۔
اسی نشست میں
یہ بات بھی فرمائی کہ قرآن میں جن اشیاء کا تذکرہ کیا
گیا ہے وہ سب انسان کے لئے مفید ہیں اور اُس کو فائدہ دیتی ہیں۔ زیتون کو دیکھیں اس
کے تیل میں کولسٹرول نہیں ہوتا۔ زیتون کا تیل انگلیوں پہ لگ جائے تو صرف پانی سے ہاتھ
دھو لینا ہی کافی ہوتا ہے۔ صابن کے بغیر بھی ہاتھ صاف ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ کہ اس کے
تیل کو جلائیں تو وہ دھواں نہیں دیتا۔ اسی طرح شہد کی مکھی کی بابت یہ کہا گیا ہے کہ
اُس کو وحی کی جاتی ہے۔۔یعنی جب ہم شہد کھاتے ہیں تو وحی کی مقداریں ہی تو کھاتے ہیں
اور اس کے نتیجے میں وحی کو سمجھنے والا ذہن بنتا ہے۔ ہم یوں بھی تو مقداریں ہی تو
کھاتے ہیں۔ یہ مقداریں ہی تو ہیں جن کی وجہ سے ایک چیز دوسری سے مختلف ہو جاتی ہیں۔
نمک اور سنکھیا
دونوں سفید ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ دراصل ان کی وولٹیج میں فرق
ہوتا ہے۔ فرمایا مختلف لوگوں میں مختلف وولٹیج کی لہریں کام کرتی ہیں۔ بعض اوقات آدمی
کسی روحانی آدمی سے گلے ملتا ہے تو ساری زندگی
اُس کیف کو یاد کرتا ہے۔ ایک دوسرے سے گلے ملنے میں یہ لہریں
ایک دوسرے میں منتقل ہوتی ہیں۔ بعض لوگ پوری طرح گلے نہیں ملتے۔ دراصل انہیں جھٹکا
لگتا ہے اُن میں وولٹیج کی کمی ہوتی ہے اور جب وہ کسی سے گلے ملتے ہیں تو انہیں جھٹکا
لگتا ہے۔
بچوں میں بڑوں
کی نسبت وولٹیج زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لئے انہیں گلے لگانے سے زیادہ سکون ملتا ہے یوں
لگتا ہے جیسے باقاعدہ کوئی چیز اندر جا رہی ہو۔ آپ بچے کو سینے پہ لٹائیں تو نیند آجاتی
ہے۔ گالی دینے سے یہ وولٹیج ضائع ہوتی ہے۔
فرمایا ۔ الصبح
اُٹھنے کا ایک بڑا فائدہ اس وولٹیج کا زیادہ ہونا بھی ہے۔
شاہین کو دیکھتے
ہوئے کہا۔ یہ نیند کی خوب پکی ہیں۔
عرفان کی بابت
بات کرتے ہوئے فرمایا۔ ایک بار حضور ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے دریافت کیا۔ علی
رضی اللہ تعالیٰ عنہا تم نے مجھے دیکھا۔
حضر ت علی
نے فرمایا ۔ جی ہاں میں نے آپ کو بدر میں دیکھا۔
فرمایا۔ تم
نے مجھے نہیں دیکھا۔
فرمایا۔ میں
نے آپ کو احد میں دیکھا۔
فرمایا۔ تم
نے مجھے نہیں دیکھا۔۔پھر کہا اچھا ۔۔آؤ اب دیکھو۔
حضرت علی کرم
اللہ وجہہ تاب نظارہ نہ لا سکے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
فرمایا یہ تو
ذکر ہے حضرت علی جیسی برگزیدہ ہستی کا۔۔۔جنہیں حضور ﷺ کا اتنا قرب حاصل رہا۔۔۔دامادِ
رسولﷺ ہیں۔۔۔اُن کی تربیت خود حضورﷺ نے فرمائی۔۔۔مگر وہ بھی نہیں دیکھ سکے۔۔بھئی عرفان
کی کوئی حد ہی نہیں۔۔۔۔ جتنا بھی ہو جائے کم ہی رہتا ہے۔
مرید نے عرض
کی ۔ حضور مرشد کو اپنے ہمراہ لے جانے کا کیا طریقہ ہے؟
فرمایا۔ مرشد
کو اپنے دل میں بسانے اور ہمراہ لے جانے کا طریقہ قرب ہی ہے اور قرب بھی ذہنی قرب۔
بعض لوگ قریب رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے آشنا نہیں ہو پاتے بعض لوگ دور رہ کر بھی
قریب رہتے ہیں۔ اگر فاصلے حائل نہ رہیں تو ذہنی قرب ہی اصل قرب ہے۔
فرمایا۔ حضرت
اویس قرنی ؒ اس قرب کی وہ اعلیٰ ترین مثال ہیں جو نوع انسانی آج تک پیش کر سکی ہے۔
بڑے پیر صاحب شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ علم کی اور حضرت اویس قرنی ؒ عشق
کی وہ اعلیٰ ترین مثالیں ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔
شاہ عالم نے
آکر ناشتے کی بابت پوچھا تو اُٹھ کر باہر کو چل دیئے۔ مرید ہمراہ تھا۔ ناشتے کے لئے
گھر کے قریب کی دکانوں سے خریداری کر کے پلٹ رہے تھے تو فرمایا۔ یہاں کے لوگوں میںCivic Sense نہیں
ہے۔ باہر کے ممالک میں کوئی زیبرا کراسنگ پہ پاؤں رکھتا ہے تو ٹریفک وہیں رُک جاتی
ہے۔ مرید نے تبصرہ کیا۔ یہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے۔ فرمایا۔۔ وہاں کون سا سبھی پڑھے
لکھے ہیں۔۔۔ یہ تعلیم کی نہیں تربیت کی کمی ہے۔
ناشتے کی میز
پر حکیم سعید کا تذکرہ فرمایا۔ آج سے چار سال پہلے کی بات ہے۔ ایک بار دوا خانے کے
سلسلے میں اُن کے دفتر گیا۔ اُن کے اکاؤنٹنٹ میرے جاننے والے تھے۔ اُن کے پاس گیا تو
وہ بیٹھے چیک لکھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا۔ میاں کیا کر رہے ہو؟ بتایا کہ بیواؤں کی امداد
کے چیک لکھ رہا ہوں۔ اُس وقت وہ ایک کروڑ روپے کے چیک اس مد میں سالانہ لکھتے تھے۔
پھر فرمایا۔ خیرات کرنے والوں کی بابت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مطلع کر دیتا ہے کہ
وہ بندہ انہیں عزیز ہے۔
پھر ایدھی کی
بابت بتایا کہ وہ لوگوں سے خیرات لے کر لوگوں پہ ہی صرف کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گیا
ہے۔ مرید نے تبصرہ کیا۔ اُس میں درشتی اور سختی ہے اور اُس کی زبان بھی سخت ہے۔ فرمایا۔
اُس کام کی نوعیت جو ایسی ہے۔ یہ اُس کے کام کی نوعیت کے باعث ایسا ہے۔
بھابھی تسنیم
نے یَاحَیُ یَاقَیُوْم کے ورد کے فوائد کا پوچھا تو فرمایا۔ اس سے دماغ کے سیل چارج
ہوتے ہیں۔۔ مردہ سیلوں کو نئی زندگی ملتی ہے۔
پھر آگے جھک
کر اُسے دیکھا اور کہا۔۔آپ تو گورے ہو گئے ہیں۔۔۔کیا ایمکس لگاتے ہیں۔
پھر عورتوں
کے سنگھار کا ذکر چلا تو فرمایا۔ بھئی یہ عورتوں کی ہمت ہے گھنٹوں میک آپ میں صرف کر
لیتی ہیں۔ پھر مسکرا کر مرید سے دریافت کیا۔ آپ بیٹھ سکتے ہیں تین چار گھنٹے۔
مرید نے شہہ
پا کر کہہ دیا۔۔۔جی ہاں کیوں نہیں۔۔اگر میں بھی میک آپ کرنا شروع کر دوں تو۔۔۔
فرمایا۔آج کل
کے لڑکوں نے ایسے بال رکھے ہوئے ہیں اور اوپر سے ایسی چال چلتے ہیں گویا کوئی خاتون
ہو۔
مسکرا کر طرح
دیتے ہوئے فرمایا۔ لوگ چار ہزار روپے خرچ کر دیں گے۔ دس روپے کے پھولوں کے گجرے خرید
کر نہیں دیں گے۔ آپ دس روپے کے گجرے ہفتے میں ایک بار گھر لائیں۔ بیوی خوش ہو جائے
گی۔ بیوی کو خوش کرنے کو چالیس روپے ماہانہ کا نسخہ ہے۔
پھر یہ کہتے
ہوئے اُٹھ کر چل دیئے کہ باتیں بہت ہو گئی ہیں اب کچھ کام بھی ہو جائے۔
اُس کے بعد کے کئی روز لگا تار سفر میں رہا۔ پشاور
کے لئے واپسی ہوئی۔۔۔راستے میں گوجرانوالہ رُک کر طاہر جلیل صاحب کے گھر اُن کے ولیمے
میں شرکت کی۔ وہاں پہ مرشد کریم کو دور ہی دور سے دیکھتا رہا۔ وہاں سے حضور تو لاہور
کے لئے روانہ ہو گئے اور پشاور جانے والے پشاور۔
پشاور پہنچ
کر ایک روز وہ ایک صاحب سے ملنے یونیورسٹی گیا اور اُن سے روحانی علوم پہ پی ایچ ڈی
کرنے کی بابت مدد اور راہنمائی کا خواستگار ہوا۔ انہوں نے اُسے ہمراہ لیا اور ایک اور
صاحب جو یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم کے صدر بھی تھے کے پاس لے گئے۔ وہاں انہوں نے اُس
سے دریافت کیا آپ کس مضمون میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں؟
اُس نے عرض
کی سپریچول سائنسز میں ایک استہزائیہ ہنسی کے ساتھ پوچھا۔ یہ سپر یچول سائنسز کیا ہوتی
ہیں؟
مرید نے سوال
کے استہزا کو پیتے ہوئے اُن سے عرض کی۔ کچھ ویسی ہی جیسی آپ کی یہ سوشل سائینسز ہیں۔
اس جواب کو
شاید انہوں نے گستاخی پر محمول کیا۔ اُس کے بعد جتنی دیر بھی وہ وہاں رُکے وہ اُس کے
ساتھی سے ہی پشتو میں گپ شپ کرتے رہے۔
دو ماہ بعد
وہ عرس اور روحانی کانفرنس میں شرکت کے لئے دوبارہ کراچی پہنچ گئے۔روحانی کانفرنس کی
تیاریاں اپنے نقطہ عروج پر تھیں دعوتنامے چھپ کر آچکے تھے۔ سو ونیئر تیار ہو رہا تھا۔
وزیر اعلیٰ سندھ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ گورنر سندھ کا خصوصی نمائندہ آرہا تھا۔
یہ روحانی کانفرنس حیدرآباد میں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے عرس سے ایک روز پہلے
ہو رہی تھی۔ اس لئے ساتھ ساتھ عرس کی تیاریاں بھی ہو رہی تھیں۔ کراچی اور بیرونِ کراچی
سے آنے والے سلسلے کے تمام بہن بھائیوں کو حیدرآباد لے جانے اور رات کو واپس لانے کا
انتظام کیا جا رہا تھا بسوں اور ویگنوں نے مرکزی مراقبہ ہال سے روانہ ہوناتھا اور واپسی
پہ وہیں آنا تھا۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔