Topics

درخت باتیں کرتے ہیں

          کھانے کے بعد اُس نے رات کو اپنے مراد کو ٹہلتے دیکھا تو اُس سے رہا نہ گیا اور وہ اُن کے ہمراہ ہو لیا۔ اُس کو پہلا خیال یہی آیا کہ وہ کس قدر خوش بخت ہے کہ وہ اپنے مراد کے ساتھ ہم قدم ہے۔ کچھ ہی دیر میں اس فخر پہ سعادتمندی کا احساس غالب آگیا۔ اُن کی قربت میں فخر کی گردن کا تان سعادت مندی کے ایک ہی چھینٹے نے بھگو کر ڈھیلا کر دیا۔ ٹہلنے کے دوران اُسے ایک عجیب سا احساس ہوا وہاں اندھیرا ہونے کے باوجود تاریکی نہ تھی۔ رات کا اندھیرا بھی کچھ روشن روشن سا تھا۔ درخت اور پودے واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ دور اُفق پر شہر کی روشنیوں کی ضیاء کو اس اجالے کا سبب قرار دے کر اُس نے اس بات کی تفصیل پوچھنے کا فیصلہ ترک کر دیا۔ اُس کو کہنے کو کوئی اور بات نہ ملی تو اُس نے دریافت کیا” حضور ۔۔۔ یہ نباتات اور جمادات بھی باتیں کرتے ہیں؟۔۔۔ کیا یہ بات درست ہے یا یہ کوئی تمثیلی اندازِ بیان ہی ہے؟

          ”جی ہاں کرتے ہیں۔۔۔ خود مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ آپ نے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ کے تذکرے میں نہیں پڑھا کہ ایک درخت بہت باتیں کیا کرتا تھا۔ اُس سے اُن کے کام میں حرج ہوتا تھا اوپر والوں نے اُسے وہاں سے ہٹا دیا تھا۔ ایک بار ایک خاتون آئیں تو اس درخت نے مجھ سے کہا ۔ یہ ٹھیک عورت نہیں۔۔۔ اس سے ہوشیار رہیئے۔ اس کو یہاں سے ہٹا دیں۔ انہوں نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ ” بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بات درست تھی وہ عورت جہاں بھی جاتی کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیتی۔“ اس کی سوچ میں اپنے بچپن کی حیرت تھی کہ کہانیوں میں طوطے مینا باتیں کرتے اور حکمت و دانائی کے موتی رولتے ہیں تو کیا یہ درخت بھی اسی پائے کی حکمت و دانش کی باتیں کرتے ہیں؟ مزید فرمایا” یہ درخت بھی بہت سمجھدار ہیں۔ یہ سب رات دو ڈھائی بجے اُٹھتے ہیں اور سحر ہونے تک مراقبہ کرتے ہیں۔“ اُس نے دل ہی دل میں کہا۔ لو کر لو بات۔۔۔ اِدھر بات تمہارے دل میں آتی اُدھر وہ اُس کا جواب فرما دیتےہیں اور تمہیں کیا چاہئے۔




Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔