Topics

قرآن الہامی طرزِ کلام

شام کی نماز اور مراقبے کے بعد مراقبہ ہال کے باہر ٹہلتے ہوئے اُس نے مرشد کریم سے اُن کی کتاب نظریہ رنگ و نور کا ترجمہ کرنے کی اجازت چاہی تو اس میں بار بار کی گئی کانٹ چھانٹ پہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔ اس ( کانٹ چھانٹ کی ) وجہ سے اس کتاب کا سمجھنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ تشریحی جملے نکل گئے ۔ پھر قلندر بابا اولیا ؒ کی بابت بتایا کس طرح انہوں نے نے لوح و قلم انہیں دکھائی تو انہوں نے ابتدائی آٹھ صفحات یہ کہہ کر کاٹ دیئے کہ ان کی کیا ضرورت ہے۔ فرمایا۔ ہم نے کچھ اس لئے کاٹ دیا کہ اس کی تکرار محسوس کی اور کچھ اس لئے کہ اس کا تشریحی انداز مختصر ہو جائے۔ اس سے پوری کتاب ہی مختصر ہو کر رہ گئی۔ پھر کتاب کے آخری باب کی بابت کہا کہ اُسے دیکھ کر تو خصوصاً یہ لگتا ہے کہ ہم نے یہ پورا باب ہی کہیں سے نقل کر دیا ہے۔ اس میں دو چار صفحے بھلے ہی زیادہ ہو جاتے لیکن ہمیں اُس میں اپنی بات بھی ڈال دینا چاہئے تھی۔ سب کچھ قاری کے ذہن پر بھی نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ انسان کے شعور کی کمزوری یہ ہے کہ وہ بات کو ٹکڑوں میں سمجھتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ بات کو سمجھنے کے لئے اُس کے ٹکڑے کر دیتا ہے۔

          قرآن میں بھی تکرار ہے۔ انسان کا شعور تکرار کے بغیر بات کو سمجھتا ہی نہیں۔ قرآن الہامی طرزِ کلام ہے۔ حضور ﷺ نے قرآن عربی میں پیش کیا لیکن عربی پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا حا لانکہ بہت سے موقعوں پر اس کی ضرورت بھی پڑی۔ وہ خطوط پر اپنی انگوٹھی سے مہر لگاتے تھے۔ مرزا غلام احمد نے اسی بات سے تو فائدہ اُٹھایا قرآن میں خاتم ہے اور خاتم کا مطلب ہے انگوٹھی یعنی حضور ﷺ انبیا کرام میں انگوٹھی کے نگینے کی مانند ممتاز ہیں۔ بس زیر زبر سے مفہوم کچھ کا کچھ ہو گیا ۔ علم سینہ ان خرابیوں سے محفوظ ہوتا ہے۔ علم سینہ کی طرزِ علم منتقل کرنے کا یہی فائدہ ہے کہ آپ ایک بات کا کوئی دوسرا مطلب نہیں لیتے۔ جو کہہ دیا وہی اس کا مطلب ہوتا ہے اور وہ اپنے جیسے ہی انسان کو بتایا جاتا ہے ۔ ایسا انسان ساری زندگی نہ ملے تو اُسے سینے میں بھرے پھرتے رہیں اور جاتے ہوئے ساتھ لے جائیں۔

          فرمایا نظریہ رنگ و نور کی تشریح ہو نا چاہئے۔ مرید نے اس بات کی وضاحت کی درخواست کی تو فرمایا۔پیرا گراف نقل کر کے تشریح کرنا تفسیر ہوا۔ جو بھی آپ کے ذہن میں آئے اُسے لکھیں تو یہ تشریح ہوگی ۔ تفسیر نہ کریں۔ جب سے قرآن کی تفسیر لکھی جانے لگی ہے مسلمانوں پہ انحطاط اور زوال اگیا۔ دراصل انسان آرام پسند ہے اس لئے خود غورو فکر نہیں کرتا اور جب تفسیر پڑھتا ہے تو قرآن پیچھے چلا جاتا ہے اور تفسیر کرنے والے کا ذہن سامنے آجاتا ہے۔

          مولانا مودودی کی تفسیر کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جب لوگ اُن کی تفسیر پڑھتے ہیں تو قرآن سے دھیان ہٹ جاتا ہے۔ اب ہم قرآن کو نہیں بلکہ مولانا کو پڑھتے ہیں۔

          پھر فرمایا کہ جو کچھ بھی اس کتاب کے مطالعہ سے ذہن میں آئے لکھ لیا کریں۔

          پھر گوتم بدھ کی بابت فرمایا۔ گوتم بدھ نے اسی لئے کوئی کتاب نہیں چھوڑی کہ کوئی نہ کوئی تحریر ہو گی نہ لوگ ایک سے زیادہ مطلب نکالیں گے۔۔۔ نہ فرقے بنیں گے ۔ تحریر ہو تو ایک آدمی ایک مطلب نکالتا ہے اور دوسرا آدمی دوسرا مطلب لیتا ہے۔ گوتم بدھ نے اسی لئے اپنی تعلیمات کو علم سینہ بنا دیا نہ تحریر ہوگی۔۔۔ نہ تفرقہ ہوگا۔ یہ مذہب بہت ہی پُرامن مذہب ہے۔ گوتم بدھ چونکہ شہزادہ تھا اس لئے وہ پڑھا لکھا تھا لیکن اس کے باوجود اُس نے کوئی کتاب نہیں چھوڑی۔ علم کو بطور علم سینہ منتقل کرنے کا بندوبست کیا۔اُن کے پیرو کاروں میں بڑے بڑے پکے لوگ ہیں۔ اُس کے ہاں سٹوپا کے بڑے راہب کو بھکشو کہتے ہیں۔

          پھر ایک صاحب کا نام لے کر فرمایا۔ وہ تھائی لینڈ گئے تو ایک بھکشو سے ملے۔ جب اُس کو انہوں نے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ کا حوالہ دیا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت وہ دنیا کے سب سے زیادہ عظیم انسان ہیں کیونکہ اُن کے گرد روشنیوں میں دیگر رنگوں کے علاوہ سنہرا رنگ بہت نمایاں ہے جو سلطنت اور حکومت کا رنگ ہے۔ انہیں یہاں تک بتایا کہ آپ عظیمی صاحب کے قریب ہیں۔

          سیر سے واپسی پر مراقبہ ہال پہنچے تو برامدے میں بچھے تخت پوش پر بیٹھ گئے۔ کچھ لوگ منتظر تھے ۔ انہیں وہیں بلا لیا۔ اُن سے بات چیت ہو رہی تھی کہ عرفان صاحب نے آ کر بتایا کسی کا فون ہے۔ آپ اُٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ فون پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ نام رکھنے کے لئے پہلے دن جو بھی نام ذہن میں آتا ہے وہ اپنے نقوش بچے کے ذہن پر چھوڑ جاتا ہے۔

          پھر کسی اور کا فون آگیا۔ کھانے کی گھنٹی بجی تو خالہ صدیقہ نے آ کر کہا کہ اب آپ سب جائیں اور کھانا کھائیں ابا حضور آرام کرنا چاہ رہے ہیں۔

          اگلے روز اُس نے واپس آنا تھا اور وہ اس تاڑ میں تھا کہ واپسی سے پیشتر ملاقات ہو جائے۔ ناشتے کے بعد وہ اور شاہین دونوں حضور کے کمرے میں جا پہنچے۔ فرمایا آج آپ مت جائیں۔ عرض کی۔۔۔ جو حکم۔۔۔ جا کر ٹکٹ تبدیل کروا لیتا ہوں۔

          فرمایا۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔اگر ائیر پورٹ جانا ہی پڑ رہا ہے تو پھر یوں بھی آج نہیں تو کل تو جانا ہی ہے ۔ دراصل اس روز کراچی میں ہڑتال تھی۔ اس وجہ سے رُکنے کا فرما رہے تھے۔

          فرمایا۔ آپ نے غصہ کرنا ترک نہیں کیا۔

          عرض کی۔۔ کچھ تو فرق پڑا ہے۔

          فرمایا۔۔ ہاں فرق تو ہے۔۔۔ پھر کہا بعض اوقات اونچا بولنا ضروری ہو جاتا ہے۔ لوگ اس کے بغیر مانتے بھی تو نہیں۔ لیکن آپ کوشش کریں کہ میری طرح ہو جائیں۔۔۔ جیسے پانی۔ اب مجھے غصہ آتا ہی نہیں۔ غصہ کرنا ہو تو پہلے باقاعدہ منصوبہ بناتا ہوں۔۔۔ یوں ڈانٹوں گا۔۔ اتنا غصہ کروں گا۔۔۔یہ کہوں گا۔۔ وہ کہوں گا۔

          فرمایا آج کل منیر صاحب اور دبئی والوں پہ غصہ ہونے کا پروگرام بنا رہا ہوں کہ انہوں نے ورکشاپ میں شرکت کیوں نہیں کی۔ انہوں نے پیسے کو علم پہ فوقیت دی۔ یہ اُن کے انچارج کی غلطی ہے۔ بھئی میرا آپ کا رشتہ ہی علم کا ہے۔ آپ کو اُسی کی قدر نہیں تو مجھے آپ سے کیا لینا۔ پھر فرمایا۔ اب مجھے اپنی جگہ جم کر بیٹھ جانا چاہئے۔ جس نے آنا ہو وہ چل کر خود آئے ۔ میں نے تو دبئی والوں کو کہہ دیا ہے کہ میں نہیں آرہا۔ آپ ہیں کہ مجھی کو دوڑا دوڑا کر ہلکان کئے دے رہے ہیں۔ اس سے کئی ہونے والے کام متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں روحانی یونیورسٹی کا منصوبہ چل رہا ہے آج کل ساری ساری رات اُس کے نقشے بناتا ہوں۔۔۔ یہاں اُس کا کیمپس ہوگا۔۔ وہاں ہوسٹل ہوگا۔لوگ خزانے کی حفاظت کرتے ہیں لیکن آپ مجھی کو ہر جگہ آگے کرتے ہیں۔مجھے پیچھے رکھیں اور خود آگے بڑھیں۔ اس طرح سلسلہ زیادہ تیزی سے پھیلے گا۔

          فرمایا ۔ یہ سب استغنا کی طاقت سے ہی تو مظہر بن رہا ہے۔ جب یہ تجربہ بار بار ہوتا ہے کہ یہ کام تو نہیں ہونا تھا۔۔۔یہ کیسے ہو گیا۔۔۔ تو استغنا پیدا ہوتا ہے۔ گھر کا بننا، مراقبہ ہال قائم ہونا۔۔ پھر اتنے بہت سے مراقبہ ہال تعمیر ہو جانا۔۔۔لکھا پڑھا نہ ہونے کے باوجود کتابیں لکھنا۔ جب روحانی ڈائجسٹ کا ڈیکلریشن فارم بھرا تو تعلیم کے خانے میں لکھ دیا۔۔۔ علم لدنی فرمایا جب اوپر سے کام ہونا ہو تو کوئی نہیں دیکھتا کہ کیا لکھا ہے اور کیا نہیں۔

          جب آپ اُٹھنے کو تھے تو شاہین نے اُس کی شکایت کرتے ہوئے کہا۔ ابا۔۔۔یہ وہاں پشاور میں مراقبہ ہال جانے میں اکثر ناغہ کر جاتے ہیں۔ مسکرا کر کہا۔ آپ کے پاس تو رہتے ہیں نا۔ پھر قدرے توقف کے بعد فرمایا۔ اگر یہ نہیں جاتے تو آپ انہیں اپنے ساتھ لے کر جائیں۔ پھر اُس کو مخاطب ہو کر مراقبہ ہال کی زمین کی بابت دریافت فرمایا۔ اُس نے حالات بتائے تو کہا۔ ابھی وقت نہیں آیا ہوگا۔ وقت بہرحال ایک بہت بڑا فیکٹر ہے۔

          مرید نے عرض کی جب وقت ہی سب کچھ ہے تو پھر ہم کیوں چیں بچیں ہوتے ہیں؟

          فرمایا۔ ہمارا مشاہدہ جو نہیں۔ جب لوح محفوظ سے عکس چل پڑتا ہے تو اُس کو اب مظہر تو بننا ہی ہے۔ آج نہیں ہوگا تو کل ہو جائےگا۔

          اُس نے سوچا کہ وہ مرشد کریم سے اپنی ایک پریشانی کا تذکرہ کر ہی دے۔ وہاں پشاور مراقبہ ہال میں ایک بھائی نے اس کی بابت کچھ ایسی بات کہہ دی تھی جو اُسے ناگوار گزری تھی۔ اُس نے وہ بات انہیں بتا دی۔

          بات سُن کر حضور کا لہجہ تن گیا۔ فرمایا۔ مقصود صاحب دراصل آپ ایک جذباتی انسان ہیں اور آپ میں انتہا پسندی بھی بہت ہے۔ وہ اُن کے اس انداز تکلم کا شناسا نہ تھا۔ وہ سیدھا ہو کر دو زانو بیٹھ گیا۔ تو حضور نے اپنے لہجے کی تان کو قدرے کم کرتے ہوئے بات جاری رکھی ۔ انتہا پسندی ذاتی معاملات کی حد تک تو درست ہے بلکہ فائدہ بھی دیتی ہے مگر جہاں دوسرے involve ہو جائیں وہاں انتہا پسندی نقصان دہ ہو جاتی ہے۔۔۔جذباتیت یہ ہے کہ آپ دوسروں سے توقعات رکھتے ہیں۔۔۔توقعات نہیں رکھنی چاہیئں۔ دوسروں سے توقعات ہی کے سبب آپ کو اُن پر غصہ آتا ہے۔ آپ دوسروں کی ذہنی سطح پر اتر کر بات کرنا سیکھیں۔

          کچھ توقف کے بعد اسی مدھر اور میٹھے سے لہجے کو بحال کرتے ہوئے جو آپ کے مزاج کا خاصہ ہے۔۔۔فرمایا۔ جب کوئی آدمی آپ کی توقع پر پورا نہ اترے تو نظر انداز کر دیا کریں۔ ۔۔ ہو سکتا ہے کہ اُس میں سکت نہ ہو۔ اگر ایک آدمی میں ایک کام کرنے کی سکت ہی نہیں تو آپ اُس سے وہ کیونکر لے سکتے ہیں؟ آپ خود دو سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔۔۔ اب اگر آپ دوسروں سے بھی دو سیڑھیاں چڑھنے کی توقع رکھیں تو یہ کوئی درست بات نہ ہوئی۔۔۔ اور پھر یہ بھی تو ہے کہ سیڑھیاں تو ایک ایک کر کے چڑھنا چاہیئں کیونکہ وہ بنائی ہی ایسی جاتی ہیں۔۔۔اگر دو سیڑھیوں کے برابر ہی فاصلہ طے کروانا ہو تا تو دو سیڑھیاں بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ایک ہی سیڑھی دو کے برابر بنا دی جاتی۔ اب یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی میں ایک سیڑھی چڑھنے کی بھی سکت نہ ہو۔ پھر مثال دیتے ہوئے کہا۔ میں نے طاہر جلیل کو خود پہ قیاس کرتے ہوئے اُن کو مراقبہ ہال شروع کرنے کا کہہ دیا۔۔ اب وہاں کوئی آتا ہی نہیں۔۔ یہاں تو ہم تیس سال سے کام کر رہے تھے۔۔۔یہاں سرجانی تک لوگ آجاتے ہیں۔ وہاں یہ مسئلہ ہو گیا۔۔۔مجھے وقار بھائی جان نے کہا بھی کہ آپ دوسروں کو خود پہ قیاس نہ کیا کریں۔

          پھر لہجے میں شفقت کی مٹھاس گھولتے ہوئے فرمایا۔ اس بار جب میں غصے کے بارے میں تقریر کر رہا تھا تو میرے ذہن میں مخاطب آپ ہی تھے۔ تقریر ہوتی تو کسی ایک آدھ ہی کے لئے ہے۔۔ سُنا سب کو دیا جاتا ہے تاکہ اجتماعی فائدہ ہو جائے۔

          پھر غصے سے بچنے کی تاکید فرماتے ہوئے کہا۔ غصے کا اصل سبب ۔۔کبر ہے۔ آپ خود کو بڑا سمجھیں گے تو لا محالہ دوسروں پہ غصہ آئے گا۔۔۔۔ آپ دوسروں سے توقع رکھیں۔۔۔ آپ کو غصہ آئے گا۔ آپ کو مجھ پر غصہ کیوں نہیں آتا۔ ۔۔آپ خود کو بڑا نہیں سمجھتے۔۔۔آپ مجھ سے توقع بھی نہیں رکھتے۔ اس لئے آپ کو مجھ پہ غصہ بھی نہیں آتا۔

          پھر کہا آپ کے اندر ایک بہت بڑا مولوی چھپا ہوا ہے۔۔۔ اب تو خیر بہت کم ہو گیا ہے۔ اُسے نکالیں۔

          مرید نے عرض کی مولوی سے آپ کی مراد شک ہی نا؟

          فرمایا ۔ جی ہاں۔۔شک ہی تمام پریشانیوں کی اصل جڑ ہے۔

          پشاور پہنچ کر کئی دن تک اُس کو اپنے ارد گرد کا جانا پہچانا ماحول اجنبی اجنبی سا لگا۔ قربت مراد کی روشن ساعتوں اور شاداب لمحات کو یاد کرتا۔۔۔۔۔وہ اس فرق کو سمجھنے میں لگا رہتا کہ اُن کے قریب وسوسے، اندیشے اور خدشات کیوں نہیں آتے اور یہاں آ کر رفتہ رفتہ ان کی شدت میں اضافہ کیوں ہو تا چلا جاتا ہے۔ کبھی وہ سوچتا کہ جب وہ ایک یکسو بندے کے قریب ہوتا ہے تو وہ اُن کی مقنا طیسیت کی حصار میں ہونے کے سبب ان چیزوں سے محفوظ و مامون ہو جاتا ہے۔ کبھی وہ سوچتا کہ یہاں پر اُس کے اردگرد کے ماحول میں رچی بے یقینی اور لوگوں کے وسواس کی لہریں اُس کو اپنی لپیٹ میں لئے رہتی ہیں اس لئے وہ ان وسواس اور اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔پھر وہ سوچتا کہ کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں ہو سکتا کہ وہ خود بھی یکسوئی کے اُس درجے کو حاصل کر لے جہاں یہ سب کچھ اُس کی کیفیات پہ اثر انداز نہ ہو سکے۔۔۔۔۔جواب میں اُس کے اندر اُس کی ذہن کی سکرین پر ایک روشن ہیولا جھلملاتا اور اُس کو مخاطب ہو کر کہتا۔۔۔ بالکل ہو سکتا ہے تم اپنی توجہ اور دلچسپی کو ان کی طرف مرکوز رکھو تو تمہارے اندر بھی ایک ایسا مضبوط حصار بن جائے گا جو ایسی تمام چیزوں کے لئے سدراہ اور فصیل پناہ ہوگا۔

          چان رات پہ اُس نے کراچی فون کیا۔ حضور مرشد کریم گھر پہ ہی تھے۔ مرید نے عید مبارک کہا تو فرمایا۔ عید تو آپ کو ہی مبارک ہو۔۔ میں تو چاند میاں ہوں۔۔ مجھے تو چاند رات مبارک کہیں۔۔۔بھئی عید میاں تو آپ ہیں۔ وہ جھوم ہی تو اُٹھا۔ پھر بتایا کہ عید کی نماز وہیں مراقبہ ہال سے ملحق میدان میں پڑھی جائے گی۔ ہنس کر فرمایا۔۔ مجھے پیش امام بنا دیا ہے۔۔مرید نے عرض کی۔۔۔اور کیا خطیب نہیں؟ تو بتایا کہ اس موقع کے لئے ایک عصا بھی تیار کیا ہے۔ چھ فٹ لمبا عصا۔۔۔ باقاعدہ خراد مشین پہ بنوایا ہے کہ جب میں منبر کی دوسری سیڑھی پہ کھڑا ہوں تو کان کی لو کے نیچے تک آئے ۔۔ چارپائی کے پائے جتنی تو موٹائی ہے اُس کی۔۔۔ یوں محسوس ہوا گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام والا عصا ہی پکڑا دیا ہو۔

          پھر دریافت کیا۔ موسم کیسا ہے؟

          عرض کی ۔ یہاں بارش ہوئی ہے۔

          فرمایا۔ یہاں تو بہت سخت گرمی ہے۔

          عرض کی۔ اللہ کرے وہاں بھی بارش ہو جائے۔

          فرمایا۔ ہم اتنے خوش نصیب کہاں۔ عربی میں کہاوت ہے۔۔۔ قاسم المحروم یعنی تقسیم کرنے والا محروم رہتا ہے۔ بھئی ہم تو یہاں سے بارش بنا بنا کر آپ کے دیس بھیجتے ہیں۔

          مرید نے مزہ لیتے ہوئے کہا۔۔ تقسیم کرنے والے کو اجر و ثواب جو ملتا ہے۔۔۔

          استفہامیہ لہجے میں فرمایا۔ اجرو ثواب؟ گویا کہہ رہے ہوں اس کی حقیقت بھی جانتے ہو میاں۔

          عید پہ وہ لوگوں سے ملتا۔۔۔۔خود کو عیدومیاں کہتا۔۔۔اُس دن اور اُس کے بعد بھی کئی روز تک اسی ترنگ میں مست رہا۔ موسم بہار چھایا کلیاں اور شگوفے پھوٹے پھر موسم کا مزاج بدلا اور گرمی آئی۔ ایک روز نیاز صاحب نے بتایا کہ حضور بابا جی پندرہ بیس روز بعد انگلینڈ جا رہے ہیں۔ اُس نے کراچی فون کر کے کامران باسط سے بات کی اور کراچی آنے کی اجاز چاہی۔ انہوں نے ابا حضور سے پوچھا اور کہا۔ آپ بسروچشم تشریف لائیں۔

          اگلے روز وہ اپنے مراد کے گھر کراچی پہنچ گیا۔ حضور گھر کے اوپر منزل پہ کھانے کے کمرے میں فرش پر دستر خوان پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تو دونوں ہاتھ فرش پہ ٹیک کر اُٹھے۔ اُسے سینے سے لگایا۔ پھر کھانا کھانے کا حکم دیا۔ وہ خود کھانا کھا کر فارغ ہو چکے تھے۔ کھانے کے دوران حال احوال دریافت کیا۔ پشاور مراقبہ ہال کی بابت پوچھا۔ نیاز بھائی کی خیر و عافیت معلوم کی۔ جب اُس نے کھانا کھا لیا تو فرش سے اُٹھ کر صوفے پہ دراز ہو گئے۔ وہ صوفے کے قریب ہو کر قالین پہ بیٹھ گیا۔

          کچھ دیر خاموشی رہی۔ وہ سر جھکائے مودب بیٹھا اُن کی قربت کی لہروں کو اپنے اندر سمیٹتا رہا۔پھر اُس نے انہیں بتایا کہ ایک دوست نے اُس کو جوتے بنانے کا کارخانہ لگانے کو کہا ہے وہ اس کام کو کوریا کی ایک فرم کے تعاون سے کرنا چاہ رہا تھا۔

          دریافت کیا۔ پروجیکٹ کا تخمینہ کیا ہے؟

          اُس نے بتایا۔ بارہ کروڑ روپے۔

          پوچھا۔ اس کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟

          اس نے بتایا کہ ایک کورین کمپنی سے جوائنٹ وینچر ہوگا۔ کمپنی بنے گی۔ اُس میں سات لوگ ڈائریکٹر ہوں گے۔ جن میں سے تین کورین ہوں گے۔ مشینری وہ لائیں گے۔ چراٹ کے قریب زمین کا بندوبست بھی ہو چکا ہے۔ جن صاحب کی زمین ہے انہیں زمین کی مالیت کے برابر کمپنی حصص دیئے جائیں گے۔ نقد ادائیگی نہیں کرنا ہوگی۔ پھر مشینری اور زمین کو بنکوں کے پاس گروی رکھ کر سرمایا لیں گے اور جب جوتے تیار ہوں گے تو سارا مال کوریا ایکسپورٹ کیا جائے گا۔ ہمیں صرف انفراسٹریکچر اور انتظامی عملہ دینا ہوگا۔ منافع کی شرح طے ہے۔ ان شاء اللہ کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگا۔

           فرمایا ۔ آپ انہیں بتا دیں کہ ہم فقیر لوگ ہیں۔

          آُس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے انہیں دیکھا۔ وہ آنکھیں موندے دائیں کہنی صوفے کے بازو پہ ٹکائے ، دایاں پاؤں بائیں ران کے نیچے رکھے ہوئے بائیں پیر کو پھیلائے ، ایک طرف جھکے نیم دراز تھے۔ شاید اُس نے غلط وقت پہ بات کہہ دی ہے۔ یہ اُن کے قیلولہ کا وقت ہے۔۔شاید مراقبے میں ہیں۔۔ انہیں تکتا رہا۔

          وہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ انہوں نے جو فرمایا ہے۔۔۔ اُس کامطلب کیا ہے۔ اُس نے سوچا کہ وہ دریافت کریں گے کہ کبھی اُس نے جوتا بنایا ہے؟ اُس نے اس بات کے جواب میں یہ بات عرض کرنا طے کیا تھا کہ وہ تو کمپنی کا چیف ایگزیکٹو ہوگا ، کوالٹی کنٹرول کے لئے کورین ایکسپرٹ ہوں گے، اُس کو جوتے بنانے کے تجربے کی بجائے انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہوگی۔ اُس نے تو محض منتظم کے طور پر مختلف شعبوں کی کارکردگی پہ نظر رکھنا ہوگا اور اُن میں ہم آہنگی کو یقینی بنانا ہوگا۔ لیکن انہوں نے تو بالکل ہی ایک الگ بات کہہ کر اُس کومخمصے میں ڈال دیا تھا۔وہ کافی دیر تک الجھتا رہا کہ وہ اس کا کیا مطلب لے۔ انہوں نے منع فرما دیا ہے یا اجازت مرحمت فرمائی ہے؟

          کچھ دیر بعد آپ نے آنکھیں کھولیں اور بڑی رسانیت سے فرمایا۔ مقصود صاحب لوح و قلم کا انگریزی ایڈیشن ختم ہو گیا ہے۔ اُس نے عر ض کی۔ مبارک ہو۔

          فرمایا۔اب نیا ایدیشن آئے ۔ یہ تو جیسے تیسے بھی ہو ختم ہوہی گیا۔ ۔۔۔بک کر ہوا یا بٹ کر ہوا۔۔۔بہر حال ہو گیا-پھر خالد نیاز کے خلوص کی تعریف کی اور فرمایا۔ خلوص ہی سب کچھ ہے۔ اللہ نے اپنی تعریف بیان کر کے اُس سورت کا نام ہی سورہ اخلاص رکھا ہے۔۔۔۔خالص ہونا۔۔مخلص ہونا بہتہی بڑی سعادت ہے۔ کوئی اللہ سے بڑھ کے مخلص نہیں۔ مخلص بندوں کو اللہ کی یہ صفت حاصل ہوتی ہے۔

          پھر فرمایا میں انگلینڈ واپس آ کر کتابوں کی تقسیم اور اشاعت سے متعلق ایک ادارہ قائم کروں گا ۔ میں نے اکرام شہابی صاحب کو کہہ دیا ہے کہ وہ میرے واپس آنے تک لاہور سے کراچی شفٹ ہو جائیں۔

          اُس نے ا نہیں بتایا کہ سلام عارف بھائی نے خواہش ظاہر کی تھی کہ انگریزی کتب کا الگ سے ایک اشتہار شائع کیا جائے۔۔۔کتابوں کی دکانوں پہ چارٹس کی صورت آویزاں کیا جائے۔ تو فرمایا۔ کتاب مارکیٹ میں نہ ہو اور آپ اشتہار دے دیں تو کتاب بیٹھ جائے گی اور پھر کسی طور اُسے اُٹھایا نہیں جا سکتا خواہ آپ ایک کروڑ روپے خرچ کر دیں۔ ' مستانی' کے ساتھ یہی تو ہوا۔ ایک دفعہ پٹ گئی تو گئی۔

          مرید نے لوح و قلم کے نئے انگریزی ایڈیشن میں فرہنگ شامل کرنے کی بات کی تو فرمایا۔ یہ سہرا آپ کے سر حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے باندھ دیا ہے۔۔۔اب آپ جو چاہے کریں۔

          مرید نے جسم مثالی اور (Aura) اور نسمہ کا تصور اپنے ذہن میں واضح نہ ہونے کی بابت کہا تو فرمایا۔

          جسم مثالی نہ تو Aura ہے اور نہ ہی ایسٹرل باڈی۔۔۔ایسٹرل باڈی وہ جسم ہے جو خواب میں نکلتا ہے۔ آپ اُسے ہمزاد کہہ سکتے ہیں۔۔۔ اگر تو ہمزاد اطلاعات کو درست اورصحیح انداز میں قبول کرتا ہے تو وہ مسلمان ہمزاد ہے ورنہ شیطانی ہمزاد ہوا۔ روشنیوں کا بنا جسم جو اس مادی جسم کے ارد گرد ہوتا ہے نسمہ ہے اور جب نسمہ کا ایک عکس سا کہیں پڑتا ہے اور ایک جھماکا سا ہوتا ہے تو یہ اورا ہوا۔ ویسے خواب میں جو جسم متحرک ہوتا ہے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے اُسے ہیولیٰ کہا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ خواب میں متحرک ہونے والا جسم۔۔۔جسم مثالی ہے ۔ اورا حقیقت میں نسمہ کا اظہار اور اُس کا مظاہرہ ہوا۔ یعنی جیسے کرنٹ گزرتے ہوئے اسپارک کرتا ہے تو کرنٹ نسمہ ہوا اور اسپارک اس کا اورا ہوا۔

          پھر فرمایا۔ روحانیت سیکھنا کوئی آسان کام نہیں۔ حضور ﷺ کے دور میں ۲۵ فیصد لوگ روحانی لوگ تھے جبکہ آج کل ساڑھے گیارہ لاکھ افراد میں سے کہیں جا کر ایک آدمی روحانی بنتا ہے۔ پھر اُن ساڑھے گیارہ لاکھ روحانی بندوں میں کوئی ایک آدھ بندہ ہی منزل پاتا ہے۔

          مرید نے بات سُن کر مایوس ہونے کے انداز میں منہ بسورتے ہوئے عرض کی۔ حضور آپ نے تو مقابلہ اور بھی سخت کر دیا ہے۔ یہ تو کھربوں میں سے ایک آدھ بندہ ہی ہوا۔

          فرمایا۔ اللہ بلاشبہ سب کو ہی روحانی بندہ بنا سکتا ہے۔۔۔۔آپ مساعی تو کریں۔۔۔۔اللہ کی قیمت تو لگائیں۔۔۔پھر کچھ توقف کیا اور کہا۔۔۔معلومات ہونا ایک بات ہے۔۔ اس کو تجرباتی طور پر کرنا ایک بالکل ہی دوسری بات ہے۔ ایک آدمی الیکٹرونک کے بارے میں کتنی ہی معلومات رکھتا ہو اگر وہ ایک ٹی وی نہیں بنا سکتا تو اُسے سائنسدان نہیں کہہ سکتے۔ معلومات کا پریکٹیکل استعمال جاننا بھی تو ضروری ہے۔

          پھر ارشاد ہوا کہ روحانیت پہ کتابیں لکھ لینا، مضامین لکھ لینا، اس کی بابت تقریریں کر لینا کوئی روحانیت نہیں ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بندے کو روحانیت کے بارے میں معلومات حاصل ہیں۔

          فرمایا بعض افراد بتاتے ہیں کہ انہیں خواب میں حضور ﷺ کی زیارت ہوئی اور یہ بات ان کے ساتھ اکثر ہوتی ہے ۔ فرمایا یہ اتنا آسان ہوتا تو اولیا کرام بیس بیس سال کی پتیسا کیوں کرتے۔ دراصل عقیدت کی وجہ سے اُن کا ذہن بن جاتا ہے اور وہ جو دیکھنا چاہتے ہیں دیکھ لیتے ہیں۔۔۔ یکن در حقیقت حضور ﷺ کی زیارت ہونا۔۔۔ایک بالکل ہی الگ صلاحیت ہے اور اُس کو بیدار کرنے میں سالوں لگتے ہیں اور اکثر کو سالوں بعد بھی کامیابی تبھی ہوتی ہے جب نصیب یاوری کریں۔۔۔ ورنہ لوگ تو اسی بات کا شکر کرتے ہیں کہ انہوں نے کوشش تو کی۔

          ملازمہ نے آ کر چائے کا پوچھا تو فرمایا۔ ہاں یہیں لے آئیں۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کی بابت بتایا کہ وہ اللہ سے اتنے قریبی تعلق کے باوجود عوام کے معمول کے پابند تھے۔ بیمار ہوتے اور عوام کی طرح علاج ہوتا۔ اس تمام تر قربت کے باوجود عوام کے معمول سے گزرے۔ ایک طرف اتنی نیاز مندی اور دوسری طرف اتنا ناز کہ اپنی بات منوانے کو دنیا چھوڑنے پر مصر ہوگئے حالانکہ بالتصدیق انہیں دنیا میں ۲۰۰۶ء تک رہنا تھا۔ اللہ میاں بہت ہی بڑے ہیں ۔ ماننے پر آئیں تو پہاڑ جتنی بات مان لیں۔۔۔ نہ مانیں تو چیونٹی جتنی بات نہ مانیں۔

          آسمان پر جب ہم نے دو تلواریں دیکھیں اور حضور سے ان کے بارے دریافت کیا تو فرمایا کہ آئندہ دنیا کے نقشے کی کیا صورت ہوگی۔ ایک شہر میں کتنی آبادی ہوگی۔ کتنے شہروں کا صوبہ ہوگا۔ ہندوستان کا نقشہ کیا ہوگا۔۔۔ پاکستان کا نقشہ کیا ہوگا۔ پھر بتایا کہ کراچی فواروں کا شہر ہوگا۔۔ان پہاڑیوں پہ باغ لگیں گے۔

          چائے آئی۔ اُس نے سنہرے نقش و نگار سے آراستہ نفیس سی پیالی میں چائے ڈال کر سنہرے رنگ کے نازک سے چمچ سے اُس میں چینی ہلاتے ہوئے مرشد ہی کا فرمایا ہوا جملہ دل ہی دل میں دہرایا۔ فقیر بھی بادشاہ ہی ہوتے ہیں۔اُس نے چائے پیش کی تو پیالی تھامتے ہوئے فرمایا۔ غریب آدمی کا ذہن چھوٹا ہوتا ہے ۔ وہ اپنی محدود سوچوں کے سبب محض اپنی ضرورتوں کے چکر میں پڑا رہتا ہے۔ وہدوسروں کو اپنے ساتھ شریک کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ وہ کسی کو کھلانے پلانے پر کیسے راضی ہو سکتا ہے۔ بھئی غریب آدمی کا کیا ہے۔ بے شک اُس کا ایمان خرید لو۔

          فرمایا۔میرے اورا کا رنگ سنہرا ہے۔ جب میں نہا کر نکلتا ہوں تو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ مجھے آواز دے کر بلاتے ہیں ۔ خواجہ صاحب ! ادھر آیئے۔۔۔یہاں بیٹھیں۔۔۔ میں ننگے بدن اُن کے قریب بیٹھ جایا کرتا اور مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھا کرتے۔

          مرید نے اپنی پرانی الجھن کا تذکرہ کیا کہ سلسلے کے افراد کا ذہن تو پیر و مرشد کی طرف لگا رہتا ہے۔۔۔ اُن کو اپنا ذہن مرشد کے تابع رکھنا یوں بھی لازم تو پھر یہ جو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے اپنے خط میں غیر جانبدارانہ ذہن رکھنے کی بات فرمائی ہے اس کا کیا مطلب ہوا۔۔۔وہ بات سلسلے والوں کے لئے تو نہیں ہو سکتی۔

          فرمایا۔۔۔حضور قلندر بابا اولیا ؒ نے اپنے اُس خط میں بڑی باریک بات فرمائی ہے۔ مرید کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا ذہن اپنے پیر و مرشد کی طرف رکھے کیونکہ پیرو مرشد کی طرزِ فکر غیر جانبدار طرزِ فکر ہوتی ہےاور مرید کو وہی طرزِ فکر تو منتقل کیا جانا اصل مقصد ہوتا ہے اور یہ مقصد تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب مرید اپنا ذہن استعمال کرنے کی بجائے اپنے مرشد کی طرزِ فکر اپنانے کی طرف متوجہ رہے۔

          اُس نے نانا تاج الدین بابا اولیا ناگپوری ؒکے حوالے سے کہ جب انہوں نے پتے سے کیڑا بننے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔۔۔ جب زندگی زندگی سے گلے ملتی ہے تو جاندار اشیاء وجود میں آتی ہیں۔۔۔ پوچھا یہ زندگی زندگی سے کیسے گلے ملتی ہے؟

          اچھا سوال پوچھے جانے کی مسرت کا اظہار پورے چہرے پہ پھیلتی مسکراہٹ سے فرماتے ہوئے کہا۔ زندگی دو رخوں کا نام ہے اور یہ دونوں رخ مل کر ہی زندگی تشکیل دیتے ہیں۔ جب ایک رخ دوسے رخ سے ملتا ہے ۔۔۔اُس میں جذب ہو جاتا ہے تو زندگی وجود میں آتی ہے۔ جب حضور نانا صاحبؒ کی نگاہ پتے پر جم جاتی تھی تو اُن کی زندگی والا رخ پتے میں چھپی زندگی کے دوسرے رخ سے ہم آغوش ہو جاتا تھا اور یوں پتے میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی اور پتہ زندگی کی کوئی سی شکل و صورت اختیار کر لیتا۔

          اُس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے حضور نانا صاحب کے لنگڑے کی ٹانگ ٹھیک کرنے کے واقعہ میں کئے گئے الفاظ کہ جب انسان چھپ رہا ہوتا ہے اور اُس کی چھپائی میں گڑ بڑ ہو جائے تو لنگڑے لولے چھپنے لگتے ہیں۔۔ کی وضاحت کی درخواست کی۔

          فرمایا: دراصل انسان ہر آن چھپ رہا ہے ۔ یوں پرنٹنگ ہو رہی ہے اور ہر ہر حرکت ، ہر بار نئی تصویر کی صورت چھپ رہی ہے۔ اگر پرنٹنگ میں خرابی ہو تو ظاہر ہے کہ چھپنے والی تصویر خراب ہو جائے گی۔ یہ خرابی کاغذ پر سلوٹ پڑنے کی وجہ سے نہیں بلکہ ڈائی میں کسی حرف کے ٹوٹنے کی وجہ سے ہونے والی خرابی کی مانند ہوتی ہے اس لئے پرنٹنگ درست نہیں ہوتی۔ ہر تصویر کے لئے الگ سے کن کا ریکارڈ بجتا ہے تو وہ تصویر چھپتی ہے۔ عارف مشین کو روک کر وہ ٹوٹا ہوا حرف نکال کر وہاں صحیح حرف لگا کر پھرسے مشین چلا دیتا ہے۔اب جو پرنٹنگ ہوگی تو صحیح انسان چھپنا شروع ہو جائے گا۔

          مرید نے کن کے ریکارڈ کے بجنے کی بابت استفسار کیا تو فرمایا۔ یوں سمجھیں کہ ہر تصویر کو حرکت میں لانے کے لئے علیحدہ سے کن کہا جاتا ہے۔

          پھر ارشاد فرمایا ۔ حضور نانا صاحبؒ اگر کسی کو فکر معاش سے آزاد کرنا چاہتے تھے وہ کر سکتے تھے بلکہ کر بھی دیا کرتے تھے۔    پھر بڑے پیر صاحب شیخ عبدلقادر جیلانیؒ کی بابت بتانے لگے کہ یزید کے دور کے بعد اہل بیت یا تو قتل کر دیئے گئے یا پھر وہ چھپ گئے۔ انہوں نے جنگلوں بیابانوں کی راہ لی۔حضرت اعظم ؒ کے دور تک روحانی لوگ سامنے آنے سے کتراتے رہے۔ حضرت غوث اعظم ؒ نے خانقاہی نظام کو باقاعدہ جاری فرمایا اور یہی ۔۔۔'سب ولیوں کی گردن پر میرا قدم'۔۔۔۔کا اصل مفہوم ہے۔حضور غوث اعظم عبد القادر جیلانیؒ۔۔۔۔۔اب وزیر حضوری ہیں۔مولوی اگر کسی سے ڈرا ۔۔۔۔تو وہ حضورؒسے ہی ڈرا۔ بھئی وہ تو سزا دے دیا کرتے تھے۔ مثلاً درس کے دوران آسمان پر چیل نظر آئی اور اُس نے کوئی آواز نکالی۔ پہلے تو انگلی کے اشارے سے اُسے منع فرمایا۔ جب اُس نے دوبارہ آواز نکالی تو انگلی کے اشارے سے اُس کو یہ کہتے ہوئے کاٹ کر رکھ دیا۔۔۔تو پھر بولی۔۔۔

          آپ دیکھ لیں انہیں آج تک گیارہویں والی سرکار اور غوث اعظم ؒ کہہ کر اُن کا تذکرہ کیا جاتا ہے خواہ وہ کسی روحانی مسلک کے لوگ ہوں یا متعصب مولوی ٹائپ کے ہوں۔

          پھر ایک واقعہ اُن کی بابت سُنا کر تخلیقی نظام میں اُن کی عملداری کی وضاحت فرمائی۔ ایک بار ایک عورت جس کے شوہر کو پھانسی کی سزا ہو چکی تھی اُن کے پاس آئی اور مدد کی درخواست کی۔ انہوں نے کہہ دیا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔تم گھر جاؤ۔ اب ہوا یہ کہ اُس کے شوہر نے پھانسی کی کوٹھری میں خواب میں دیکھا کہ اُس کو پھانسی دی جا رہی ہے اور پھانسی پانے کے بعد وہ مر گیا ہے ۔ اُس کی لاش اُس کے لواحقین کودی جا رہی ہے اور وہ رو رہے ہیں۔ غرضیکہ پھانسی کاپورا عمل خواب میں دیکھ کر وہ بیدار ہوا۔ کچھ دیر بعد بادشاہ کا حکم موصول ہوا کہ اُس کی سزا معاف کر دی گئی ہے اُس کو رہا کیاجاتا ہے۔ یہ واقعہ سُن کر مرید نے پس پردہ کام کرنے والے نظام اور طریقہ کار کی وضاحت کی درخواست کی تو فرمایا۔

          حضور غوث پاکؒ نے وہ سزا جو ااُس کا مقدر تھی۔۔۔۔اُس کو خواب میں لاگو کر دیا۔ یعنی اُس کو اُن سب مراحل سے بیداری کی بجائے خواب میں ہی گزار کر۔۔۔۔ اُس کی سزا بھی پوری کرا دی اور اُس کو بچا بھی لیا۔دراصل وہ کائناتی واقعات، معاملات کی ترتیب اور اُس کی ردل بدل پر قادر تھے۔ اس کی مثال فلم میں ایڈیٹنگ سے دی جا سکتی ہے۔اِدھر کا منظر اُدھر کر دیا۔ اُدھر کا ٹکڑا کاٹ کر ادھر لگا دیا اور وہ فلم دوبارہ وہیں سے چلا دی۔ بھئی یہ بہت ہی بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔۔۔آپ بھی کیا قصے لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔آئیں چلیں۔۔۔۔کہتے ہوئے اُٹھ گئے۔

          دروازے تک وہ اُس کے ساتھ آئے اور اُسے کہا۔ آپ باہر چلیں میں آتا ہوں۔ وہ گیٹ کے پاس پہنچ کر رک گیا اور ذہن میں آج کی نشست کی بابت سوچتا اپنے مراد کے باہر آنے کا منتظر رہا۔کچھ دیر بعد وقار بھائی جان حضور کے ہمراہ باہر آئے ۔ وہ کسی بات پہ جز بز ہو رہے تھے۔ حضور انہیں کچھ سمجھا رہے تھے۔روش پہ رک کر کچھ دیر بات کرنے کے بعد گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر انہوں نے اُس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ انہیں گاڑی چلاتا دیکھنا اُس کے لئے ایک خوشگوار حیرت تھی۔بھائی جان وہیں رُک کر انہیں گاڑی ریورس کرتے دیکھتے رہے جب گاڑی گیٹ باہر نکل گئی تو بھائی جان نے بڑھ کر سلام کرتے ہوئے گیٹ بند کر دیا تو حضور نے تبصرہ فرمایا۔

          یہ سارا سلسلہ ہی پرائیویسی کا ہے۔ ہمیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ ہم تو ہیں ہی ننگے۔۔۔کوئی ہمیں کیا ننگا کرے گا۔        شاید بھائی جان مہمانوں کے یوں بے دھڑک گھر کے اندر چلے آنے پر جزبز ہورہے تھے اُس نے اندازہ لگایا۔

          کراچی کی شاہراہوں کی بے ہنگم ٹریفک میں انہیں اتنے سکون سے گاڑی چلاتے دیکھ کر اُسے وہ گھبراہٹ نہیں ہو رہی تھی جو ایک ڈرائیور کو پسنجر سیٹ میں بیٹھ کر عموماً ہوتی ہے۔ نارتھ ناظم آباد سے ناگن چونگی کی سیدھی سڑک پہ جہاں ہر گاڑی انہیں اوور ٹیک کرتی گزر رہی تھی۔ کچھ دیر تو خاموشی رہی پھر فرمایا۔ ایک بار مجھےخیال آیا کہ مجھے بلدیہ کراچی کا چیرمین بن جانا چاہئے۔ اب میں اس سوچ میں لگ گیا کہ آخر یہ خیال کیوں آیا ؟ دراصل ہر خیال کی کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ جب بہت سوچا تو عقدہ کھلا کہ اب مجھ میں اتنی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ میں ایک کروڑ لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھ سکوں۔۔۔ اس صلاحیت نے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ہی یہ خیال مجھ میں پیدا کیا تھا۔

          اسی دوران ایک گاڑی جو ہم سے آگے جا رہی تھی اُس نے اشارہ دیئے بغیر یوٹرن لینے کے لئے گاڑی موڑ دی۔ آپ نے ہارن بجایا۔۔ اُس گاڑی والے نے پلٹ کر بڑی تند نگاہوں سے ہمیں دیکھا تو فرمایا۔ آپ نے دیکھا اُس نے کیسی زہریلی نطروں سے ہمیں دیکھا۔

          پھر بات کو اسی نہج پہ بڑھاتے ہوئے فرمایا۔ لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھتے ہیں تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ دیکھنے سے زور پڑتا ہے۔اگر دس افراد آپ کو دیکھ رہے ہوں تو آپ کو گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔

          پھر بتایا کہ جب وہ ارتکازکی مشقیں یعنی شمع بینی وغیرہ کیا کرتے تھے تو نگاہ کی طاقت سے کاغذ کو زمین سے اتنا اُٹھا لیتے تھے۔ ہاتھ سے ایک فٹ کے قریب بلندی کا اشارہ کرتے ہوئے ۔ آپ اس سے اندازہ کریں کہ آنکھوں سے اتنی طاقتور لہریں خارج ہوتی ہیں۔ یہ ایکس ریز کیا ہیں۔۔۔۔ یہی تو ہیں۔۔۔آدمی کے آر پار ہو جاتی ہیں اور جب پچاس آدمی بیٹھے آپ کو گھور رہے ہوں تو آپ ہی بتائیں کیا حشر ہو گا۔

          پھر فرمایا ۔ فقیر کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی روشنی ہوتی ہے۔ایک چمک سی ہوتی ہے جس میں نیلاہٹ ہوتی ہے۔       مراقبہ ہال قریب آیا تو فرمایا ۔ اگر یہاں پانی نہ نکلتا تو میں لاہور جانے اور وہاں شفٹ ہونے کا تہیہ کر چکا تھا۔ ویسے بھی لاہور ایک علمی پسِ منظر رکھتا ہے۔

          پھر بتانے لگے کہ اب یہاں سے کوچز چلنا شروع ہو رہی ہیں۔ ایک تو عمارت بننے اور اب ٹریفک کا شور ہونے سے یہاں کی کیفیات میں فرق پڑ گیا ہے۔ وہ پہلے والی بات نہیں رہی۔

          پھر بجلی کے کھمبے دکھا کر کہا۔ ان لوگوں نے بہت ہی تعاون کیا۔ ورنہ یہاں بجلی آنے میں ابھی بہت وقت لگتا۔

          مراقبہ ہال پہنچ کر گاڑی سے اتر کر اُسے مخاطب ہو کر کہا۔ اب آپ چل کر ان درختوں اور پودوں سے ملیں۔ وہ اُن کا بیگ اُٹھائے کمرے تک ساتھ آیا ۔ کمرے میں تخت پوش پر بیگ رکھ کر باہر جا رہا تھا تو دریافت کیا۔ آپ کب تک یہاں رُکیں گے؟

          اُس نے اُن کے انگلینڈ کے پروگرام کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کہا۔ جب تک آپ یہاں ہیں۔۔۔۔۔ مسکرا کر سر ہلایا اور کمرے میں رکھے فائلوں کے بستے کی طرف متوجہ ہو گئے۔

          وہ لگ بھگ دس روز وہاں مراقبہ ہال رہا۔ صبح مراقبہ کے بعد درس میں شامل ہوتا۔ اب مراقبہ آستانے کی بجائے مسجد میں ہونا شروع ہو چکا تھا۔ نماز فجر کے بعد باجماعت مراقبہ ہوتا۔ شام کو نماز مغرب کے بعد مراقبہ ہوتا اور کبھی اس کو نماز عشاء کے بعد کیا جاتا۔ جمعہ کو مریض دیکھے جاتے۔ اتوار کو قلندر شعور کی کلاسیں ہوتیں۔

          اب جمعہ کو صبح سویرے نماز کے فوراً بعد ٹوکن تقسیم ہوتے۔ پہلے آیئے۔ ۔۔۔پہلے پایئے کی بنیاد پر پچاس ٹوکن مردوں کو اور بعد از جمعہ اتنے ہی خواتین میں تقسیم کئے جاتے۔ ٹوکن پانے والے خواتین و حضرات کو حضور خود دیکھتے ۔ جن لوگوں کو ٹوکن نہ ملتے اُن کو انعام صاحب اور حضور کے دیگر معاونین دیکھتے۔ جن لوگوں کو حضور دیکھ کر علاج تجویز کر دیتے اُن کی راہنمائی کے لئے اُن کے تجویز کردہ علاج کی تشریح کے لئے سلسلے کے بھائی بہن۔۔۔ خواتین کے لئے خواتین اور مردوں کے لئے مرد رضا کار۔۔۔ موجود رہتے۔

          روحانی ڈائجسٹ اور اخبارات سے آنے والی ڈاک کے سینکڑوں لفافے روزانہ کھول کر انہیں فائل میں لگا کر مرشد کریم کے ملاحظہ کے لئے رکھنے کے کام میں بھی رضا کار مستعدی سے تعاون کرتے۔ اب حضور خطوط کا جواب خود لکھنے کے بجائے خطوط پڑھ کر اُن پر مختصر جواب دیتے اور دفتر کے معاونین میں عادل اسماعیل اور اُن کے ساتھی ان کی ہدایات کی روشنی میں مفصل جواب لکھتے، اُن کو متعلقہ لفافوں میں بند کر کے حوالہ ڈاک کر دیتے۔ اُن دنوں اوسطاً تین سو خطوط روزانہ نمٹائے جا رہے تھے یعنی نو سے دس ہزار پریشان لوگوں کے دکھوں کا مداوا سالانہ کرنے کا ایک انتظام تو یہ تھا۔

          سلسلے کے بہن بھائیوں کے خطوط اور پیغامات اس کے علاوہ ہوتے۔ کامران باسط اپنی ٹیم کے ساتھ دفتر کے امور کو احسن طور پر چلانے کے ساتھ مراقبہ ہال کے تمام امور کے نگران بھی ہیں۔ اُن کو تمام شعبوں کے مابین ہم آہنگی کو یقینی بنانے کا فریضہ بھی سونپا گیا ہے۔ مہمانوں کی رہائش اور دورانِ قیام ان کی دیکھ بھال بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ ملکی اور بیرونِ ملکی مراقبہ ہالوں سے مرکزی مراقبہ ہال کا رابطہ رکھنا۔۔۔۔ اُن کی طرف سے موصولہ رپورٹوں اور دیگر امور کو حضور کو پیش کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ مرکزی مراقبہ ہال کے مالی امور کی انجام دہی حضور کے کہنے کے مطابق کرنا بھی انہی کے ذمے ہے۔ تعمیراتی کاموں میں درکار سامان کی فراہمی سے لے کر لنگر کے لئے درکار سودا سلف تک سبھی کچھ انہی کے حوالے ہے۔

          شعبہ نشر و اشاعت میں حامد بھائی اور اُن کی ٹیم سرگرم عمل ہیں۔مراقبہ ہال میں کتب کے اسٹال لگوانا ۔۔۔۔وہاں سلسلے کی کتب کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ اب اُن کو روحانی لائبریریوں کے امور کی دیکھ بھال کا فریضہ بھی حوالہ ہو چکا ہے۔ وہ ابا حضور کے لیکچرز اور تقاریر کی کیسٹیں بھی تیار کروا رہے ہیں۔

          ٹیلیفون کے ذریعے جانے کتنے لوگوں کو راہنمائی اور دستگیری سے نوازا جاتا ہے۔ جب حضور موجود ہوں تولوگوں کا رش لگا رہتا۔ جب حضور موجود نہ ہوں تو استقبالیہ کاؤنٹر پہ پیغامات موصول کر کے ان پہ حضور کی رائے اور حکم کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔

          


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔