Topics
چہل قدمی کے بعد
وہ اپنے کمرے کے قریب آکر رُکے۔ ایک صاحب چارپائی اُٹھا لائے۔ پلاسٹک کی نوار نما پٹی
سے بُنی ہوئی لوہے کے فریم والی چارپائی بچھی۔ اُس نے سوچا آپ نے نہ تو کسی سے چارپائی
لانے کو کہا اور نہ ہی کوئی اشارہ کیا۔ یہ صاحب چارپائی کیوں اُٹھا لائے ہیں۔پھر یہ
سوچ کر اُس نے سر جھٹک دیا کہ ان کا معمول ہوگا۔ وہ چارپائی پہ بیٹھ گئے تو وہ بھی
کھسک کر قریب ہو کر زمین پہ بیٹھ گیا۔ غسل خانے کو دیکھتے ہوئے اُس کو ایک سوال سوجھا۔
اُس نے پوچھا کہ غسل جنابت کی فرضیت میں کیا حکمت ہے؟
انسان کو اس کی اصل اور غلیظ حالت کی طرف
متوجہ کرنا ہی اس کی اصل حکمت ہے۔کچھ توقف کے بعد فرمایا۔ ” حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام
بہت ہی بڑے ماہر نفسیات تھے۔ انہوں نے اس قوم کو نہانے پہ لگا دیا ورنہ یہ تو سالوں
بھی نہ نہاتے۔“
اس نے وضو کی بابت دریافت کیا کہ پیروں کے
مسح کی بجائے اُن کو دھونے پہ اصرار کیا قرآن حکیم کی تعلیمات میں تحریف کے مترادف
نہیں ہے؟
تکیےکے سہارے نیم دراز ہو کر ایک پاؤں کو گھٹنے پہ جماتے ہوئے انہوں نے کہا۔ قرآن پہ بس نہیں چلا لیکن ترجمے میں کسر بھی کوئی نہیں چھوڑی۔ اور پھر بتایا کہ پاؤں دھونے سے جب تلوے گیلے ہوتے ہیں تو زمین میں دور کرتا کرنٹ انسان میں داخل ہوتا ہے۔ جب کہ مسح کرنے سے آسمان سےآنے والی شعاعوں کے نتیجے میں انسان کے اندر بننے والا کرنٹ زمین میں ارتھ ہوتا ہے۔ اُس نے یہ بات پہلے نہ کبھی سنی تھی اور نہ پڑھی ۔ وہ چکرا کر رہ گیا۔ انہوں نے اپنے پیر کے تلوے کو ہاتھ لگاتے ہوئے اُسے پوچھا اگر میں تلوے گیلے کر کے ایسی جگہ کھڑا ہو جاؤں جہاں برقی کرنٹ دور کررہا ہوگا تو کیا ہوگا؟ اُس نے کہا وہ کرنٹ آپ کے پیروں کے راستے آپ کے جسم میں داخل ہوگا۔ اس پہ انہوں نے دوسرا سوال پوچھا۔ زمین کا کرنٹ زیادہ ہے یا انسان میں دور
کرنے والا کرنٹ؟
اس کا جواب تھا کہ زمین میں دور کرنے والا کرنٹ انسان میں دور کرنے والے کرنٹ سے زیادہ
ہے۔ تب انہوں نے بتایا کہ جب زمین کا کرنٹ انسان میں داخل ہوتا ہے تو انسانی جسم کے
اندر داخل ہو کر خالی جگہوں کو بھرتا ہے اور توند نکلنے اور گردن موٹی ہونے کی یہی
وجہ ہے کہ زمینی کرنٹ وہاں جمع ہوتا رہتا ہے ۔ اس نے پوچھا تو کیا یوگی اور سادھو اسی
لئے لکڑی کی کھڑاس استعمال کرتے ہیں؟ اس پہ انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا۔”
جی ہاں وہ آسمانی کرنٹ کی حفاظت کا شعور تو رکھتے ہیں۔“
آسمانی کرنٹ کی اصطلاح سے جانے کیسے اُس
کے ذہن میں صوتِ سرمدی کا خیال آگیا۔ اُس نے دریافت کیا۔ یہ صوت سرمدی کیا ہے؟
فرمایا ۔ ” اللہ کو دیکھنے والوں کی کمی
نہیں۔ جس کسی نے ایک بار وہ آواز سن لی پھر وہ زندگی بھر اسی کے چکر میں پڑا رہتا ہے
کہ کسی طور اُس کو دوبارہ سنے۔ سننے والے کم ہیں۔۔ دیکھنے والے زیادہ اور وہ خوش نصیب
تو بہت ہی کم ہیں جو اُسے مسلسل سنتے رہتے ہیں۔ اللہ کے کن کہنے سے جو صوت ابھری اُسے
بھی صوتِ سرمدی کہتے ہیں۔ وہ آواز آج بھی کائنات میں گردش کر رہی ہے۔ اس کے لئے کچھ
مراقبے مخصوص ہیں۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔