Topics

جنت اور جہنم

گیٹ نیم وا تھا۔ پورچ میں دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ دو تین افراد پہلے سے موجود تھے اور کسی طرح کے انتظام میں مصروف تھے۔ وہ جوتے اتار کر دری پر بیٹھنے کی جگہ کا تعین کر ہی رہا تھا کہ پورچ کو گھر سے ملانے والی روش پہ وہ سامنے سےآتے دکھائی دیئے۔ اُس نے انہیں سہ پہر کو دیکھا تھا۔ اُس وقت اُس نے انہیں سر جھکائے چلتے دیکھا تھا۔ اس وقت وہ چلتے ہوئے دائیں بازو کو بلند کر کے بائیں ہاتھ سے آستین کو اوپر کھینچ رہے تھے۔ اگر اس لمحے تصویر لی جاتی تو وہ کسی کمان کو بانکپن سے کھینچتے تیر انداز محسوس ہوتے۔ روش سے نیچے اتر کر وہاں موجود لوگوں کے سلام کا جواب دیتے وہ ایک کونے میں سر جھکا کے بیٹھ گئے۔ وہ اُن کے سامنے بیٹھ گیا۔ چند لمحے سکوت رہا۔ اُس نے بات کا آغاز کرنے کو کہا۔ ' یہ شجر ممنوعہ کیا ہے؟'

          'نافرمانی کے درخت کو کہتے ہیں۔'

          حتمی سے لہجے میں دیا گیا جواب اُس کے بالکل پلے نہ پڑا۔ اُس نے دو ٹوک جواب کو انتہائی غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کہا۔

          ”لیکن قرآن  حکیم میں تو لفظ شجرۃ“ آیا ہے'۔


اُس کے ذہن میں تھا کہ وہ شجرہ کی مناسبت سے کچھ کہیں گے۔ اُس کی سوچ تھی کہ اِس کا سرا کسی نہ کسی طرح آدم کے بہکنے کی اصل وجہ۔۔۔۔۔ شیطان کی طرف سے ابدیت کا لالچ دیا جانا۔۔۔ سے جڑا تھا اور اس لالچ کا شکار ہو کر آدم نے نسل کشی کی ابتدا کی تاکہ وہ اپنی اولاد کی صورت اپنا وجود برقرار رکھ سکیں۔ اُس نے اُن سے یہ سوال اپنی سوچ کی تصدیق کے لئے کیا تھا۔ مگر انہوں نے اُس کے راہوار فکر کو ایک بالکل ہی نئی راہ پہ ڈالنے کی کوشش کی تھی اور اُس کے ذہن کا اڑیل گھوڑا وہیں الف ہو کر اپنی بات پہ مصر رہنا چاہتا تھا۔

          ' میں نے کہا نا کہ وہ نافرمانی کا ایک درخت تھا۔' انہوں نے قدرے اصرار اور دو ٹوک انداز میں کہہ کر بات ختم کر دی۔ اُس نے بات سے زیادہ لہجے کے فیصلے کن انداز کو توجہ دی اور اُن کی ناراضگی کے خوف سے کہا۔

          ' جی ہاں۔۔۔ خوب فرمایا۔۔۔ نافرمانی کا درخت۔۔۔واقعی ایک خوبصورت ترکیب ہے۔' کہہ کر اُس نے نہاں خانہِ دل میں سوچا یہ صاحب اپنی بزرگی کے سامنے کسی کی بھلا کیوں چلنے دیں گے۔ اُس کے بعد کافی دیر خاموشی رہی۔ پھر انہوں نے تبصرے کے سے انداز میں کہا۔

          ' لوگ تو اسے دانہ  گندم بھی بتاتے ہیں۔'

          اتنا کہہ کر وہ قدرے اُس کی طرف جھکے اور سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔ آپ شادی شدہ ہیں؟

          جی ہاں۔ کہہ کر اُس نے استعجاب سے اُن کو دیکھا کہ اس اچانک سوال کا کیا محل؟

          'نہ جانے وہ اس کا تعلق شجر ممنوعہ سے کیوں جوڑتے ہیں۔' انہوں نے مسکراتے ہوئے اُسی رازدرانہ انداز میں کہا۔



اُن کی یہ بات سُن کر وہ خوش ہو گیا۔ اُس کے ذہن سے جیسے کوئی جالا اتر سا گیا۔ اُس نے سوچا۔۔۔ کہنے کی تو بات ہے۔ کون جانے حقیقت کیا ہے؟ جیسے دانہ گندم کی بات اُس کو قبول نہیں اسی طرح اُس کی بات اُن کے نزدیک قابلِ اعتنا نہیں۔ اُس کو چاہئے کہ وہ اُن کی بات پہ غور کرکے دیکھے۔ اس خیال سے زیادہ اُن کے اپنائیت بھرے انداز نے اُس کو ڈھارس دی اور اُس نے ایک بار پھر کمر ہمت باندھی اور مطلب کی بات زبان پہ لے آیا ۔' یہ کتاب لوح و قلم تو سمجھ آ کے بھی سمجھ نہیں آتی۔۔۔' اُس نے یہ بات اس جذبے سے کی کہ وہ اُس کو کوئی ایسا طریقہ بتائیں گے جس سے اُس کتاب کا متن اُس کے ذہن کی گرفت میں لانا آسان ہو جائے۔ اُس کتاب کو سمجھنے کی خواہش ہی کےہاتھوں تو وہ وہاں آیا تھا۔

          'جی ہاں۔۔۔۔ اس کتاب میں بہت گہرائی ہے۔' اس بار اُن کے لہجے میں کچھ ایسی بات تھی کہ اُس کا ذہن گہرائی میں اترتا چلا گیا۔ اُس نے کیفیت کو اپنے اوپر طاری ہونے دیا۔ اس کے بعد وہ کچھ نہیں بولا۔ وہاں کئی اور لوگ بھی آئے ۔ وہ آتے اور آکر ادب سے بیٹھ جاتے۔ اتنے میں ایک صاحب آئے تو آپ اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ دونوں بانہیں پھیلا کر انہوں نے اُن صاحب کو سینے سے لگا لیا۔ وہ السلام علیکم ابا حضور ! کہہ کر لپٹ گئے۔رشتوں کا ترسا ہوا وہ اُس منظر پہ سلگ کر رہ گیا۔ اپنی محرومیوں پہ کڑھ کر رہ گیا۔ رشک نے اُس کے دل میں طلب کی ایک لہر اچھالی۔ مجھے بھی۔۔۔ لیکن اُس نے خود کو ڈانٹ دیا۔ کہاں تم کہاں وہ۔

          معانقہ کے بعد وہ صاحب دو زانو بیٹھ گئے۔ کچھ دیر خاموشی رہی پھر انہوں نے کہا۔' اب حضور ایک الجھن ہے۔'

          اُنہوں نے جھکے سر کو اُٹھائے بغیر اُن صاحب کی طرف دیکھا اور کہا ۔ جی اقبال بھائی ۔۔۔ فرمایئے کیا الجھن ہے؟



' جب ہم کہتے ہیں کہ انسان مجبور ہے، بے بس ہے اور بے اختیار ہے تو یہ جہنم کا کیا سلسلہ ہے؟ اقبال صاحب نے بغیر کسی تمہید کے سوال داغ دیا۔ اوروں کا تو کچھ نہیں کہا جا سکتا وہ آگے جھک کر۔۔۔ اُن کا جواب سننے لپکا۔ اُن کی طرف سے جواب کا آغاز ہونے کے اُس مختصر سے وقفے میں فلسفہ جبر و قدر پہ پڑھی ہر بات اُس کے ذہن نے لہرائی۔ اُس نے اس مسئلے پہ خود بھی بہت سوچا تھا لیکن وہ کسی بھی جواب سے، کسی بھی نظریئے سے کما حقہ مطمئن نہیں تھا۔ ہر فلسفہ ، ہر نظریہ اُس کی تنقید کی کڑی کسوٹی پہ پورا اترنے سے قاصر رہ جاتا تھا۔ دیکھیں فقیر اس ضمن میں کیا کہتا ہے؟ توجہ کی شت جمائے ، کاسہ ، سماعت کو اُن کی طرف پھیلائے۔۔ ہم تن گوش ہوتے ۔۔۔ادراک کو حاضر رکھتے۔۔۔اُس نے سُنا۔

          ” اگر کوئی بچہ چوری کرے تو کیا آپ حد جاری کر کے اُس کے ہاتھ کاٹ دیں گے؟“

انہوں نے جواب دینے کی بجائے ایک سوال پوچھا۔

          وہاں بیٹھے سب ہی افراد کے سر نفی میں ہلے۔

          سوال کو سماعتوں میں تہہ نشین ہونے کا موقع دینے کے بعد انہوں نے سوال پوچھنے والے صاحب کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

          ” اللہ کے بچے بن جائیں۔۔۔۔ آپ پہ بھی کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔“

          بات سماعت کے راستے شعور میں داخل ہوئی اور ادراک میں جا کر پلجھڑی بن گئی۔ آگہی کا اجالا وجدان کی لذت بنتا ہے۔ اک دیرینہ الجھن حل ہوئی۔ اللہ کے بچے بن جائیں۔۔۔ بچہ بننے کی بات زیادہ اُس جہنم سے نجات کا اتنا آسان راستہ سمجھ آنے کی مسرت ابھری۔ اُس کے ذہن نے ایک کلکاری ماری۔۔۔۔لطف و انسباط کی لہر نے اُس کو اتنے زور سے جھلایا کہ بے ساختہ اُس کے منہ سے قہقہ نکل گیا۔ وہاں بیٹھے سبھی


افراد نے پلٹ کر اُسے دیکھا۔ کسی کی آنکھوں میں اُس کے لئے سرزنش نہ تھی۔ کسی نے بُرا نہیں منایا تھا۔ وہ اپنے انبساط کو ادب کی حدود میں رکھنے پر قادر تھے۔ اُس کو اس کا سلیقہ نہ تھا۔ اس گستاخانہ انداز مسرت پہ وہ خود ہی خفیف سا ہو کر رہ گیا۔

          اتنے میں ایک صاحب نے رحل  مدرس لا کر اُن کے سامنے رکھ دی اور کہا۔ لوح وقلم کی کلاس شروع ہونے کو ہے غیر متعلق اصحاب کا وقت ختم ہوا۔۔۔۔ ان سے درخواست ہے وہ وہاں سے ہٹ جائیں۔ لوح و قلم کی کلاس شروع ہونے کو ہے۔۔۔ وہ وہاں اور کس لیے آیا تھا۔۔۔ اس موقع کو وہ کھونا نہیں چاہتا تھا۔ اُس نے وہاں سے نہ ہٹنے کا فیصلہ کر لیا اور ڈٹ کر بیٹھ گیا۔ اُن صاحب نے دوبارہ اعلان کیا۔ کلاس کے طلبا کے علاوہ باقی لوگ وہاں سے چلے جائیں۔ اُس نے اعلان سُن کر بڑی لجاجت اور منت بھری نگاہوں سے اُن کی طرف دیکھا کہ وہ اس کو وہاں بیٹھنے کی اجازت دے دیں۔ انہوں نے اپنے سامنے موجود کاغذات سے نظر اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا اور نظر ہٹا لی۔

          وہ اس کا کیا مطلب لے؟ کیا انہوں نے اُس کو وہاں بیٹھنے کی اجازت دے دی ہے یا انہوں نے اُس کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ لوح و قلم کو سمجھ سکے۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اُس کا دل وہاں سے ہٹنے پر آمادہ نہیں تھا۔ ابھی وہ الجھ ہی رہا تھا کہ کسی نے اُس کا نام لے کر پکارا۔ وہ چونکا اور دیکھا کہ اُسے گیٹ کی طرف بلایا گیا ہے ۔ وہاں اُس کے لئے پیغام تھا کہ وہ فوراً گھر پہنچے۔ کوئی ایمرجنسی ہو گئی ہے۔ اُس نے پلٹ کر اندر دیکھا اور باہر آگیا۔ 


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔