Topics
پشاور پہنچ کر اُس نے روز گار کے حصول کی کوششوں کا آغاز کیا
اور کچھ ہی عرصے میں وہ اپنے کاروبار کا ازسر نو آغاز کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ انہی
دنوں ایک پرانے جاننے والے صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے فرنیچر کے کارخانے کی
چابیاں اُسے دیتے ہوئے کہا۔ یہ کارخانہ آج سے آپ کا ہوا۔ اب اسے آپ ہی نے چلانا ہے۔
اُس نے اُن سے کہا کہ پہلے کی بات اور تھی۔ اُس وقت اپنے فیصلے میں خود ہی کیا کرتا
تھا ۔ اب صورتِ حال وہ نہیں ہے۔ میں نے ایک بندے کو اپنا باپ مان لیا ہے تو یہ غلط
ہوگا کہ میں اُن سے مشورہ نہ کروں۔ انہوں نے پوچھا آپ کب تک دریافت کر لیں گے؟ اُس
نے دو دن کی مہلت مانگ لی۔
اسی روز شام کو وہ پشاور مراقبہ ہال کے انچارج نیاز احمد عظیمی صاحب سے ملا اور انہیں اس آفر کی بابت بتا کر اُن سے درخواست کی کہ حضور مرشد کریم سےوہ اس پیشکش کی بابت بتا کر اُ ن سے دریافت کریں کہ اُس کو کیا کرنا چاہئے۔ نیاز صاحب بہت خوش ہوئے کہ اُس کو ایک کارخانہ دار بننے کا موقع مل رہا ہے۔ انہوں نے رات کو
بابا جی سے بات کرنے کا وعدہ کر لیا۔ صبح دفتر پہنچ کر جب اُس
نے اُن سے فون پہ رابطہ کیا اور پوچھا کہ بابا جی سے بات ہوئی کہ نہیں تو انہوں نے
بتایا۔ ہاں بات تو ہوئی لیکن انہوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔
اُس نے پوچھا۔”
پھر بھی کیا بات ہوئی؟“
اُنہوں نے بتایا
کہ پوری بات سُن کر بابا جی نے اُن سے پوچھا۔” کیا مقصود صاحب نے کبھی کرسی بنائی ہے؟“
اور پھر بات بدل دی۔
انہوں نے یہ
بھی کہا۔ ” میں تو کچھ سمجھا ہی نہیں۔“ اُس نے کہا ۔ ” میں سمجھ گیا۔“
اگلے روز جب
وہ صاحب آئے تو اُس نے انہیں کارخانے کی چابیاں واپس کرتے ہوئے کہا۔ اُس کے پیر و مرشد
نے اُس کام کا کوئی سابقہ تجربہ نہ ہونے کے سبب منع کر دیا ہے۔ بعد میں اُس کو معلوم
ہوا کہ فرنیچر کے کام کا تجربہ نہ ہو تو کاریگر سے لے کر گاہکوں تک سب ہی کس قدر پریشان
کرتے ہیں اور لکڑی کی پہچان سے لے کر ہنر مندی تک کتنے ہی مراحل ہیں جنہیں سیکھنے کے
لئے اک عمر درکار ہوتی ہے اور اسی قسم کی پریشانیوں سے تنگ آ کر وہ صاحب اپنی بلا اُس
کے گلے ڈالنا چاہ رہے تھے لیکن اُس کے مراد نے اس کو ہر طرح کی کٹھنائی سے صاف بچا
لیا تھا۔جس قدر وہ اس بات پہ غورکرتا اسی قدر اپنے مراد کے لئے تشکر و اطمینان کا احساس
فزوں تر ہوتا۔
وہ وہاں مراقبہ ہال جاتا اور مراقبہ ہال میں ہونے والی تقریبات میں حصہ لیتا پھر اُس کو معلوم ہوا کہ مرشد کریم پشاور کے دورے پہ آرہے ہیں۔ پہلے وہ راولپنڈی آئیں گے۔ وہاں سے کوہاٹ جائیں گے، جہاں آرمی میس میں خطاب کریں گے۔ وہاں پشاور آئیں گے پھر اُس کے بعد وہ سوات جائیں گے۔ وہاں سے واپس آ کر اٹک چلے جائیں گے۔ اقبال قریشی اور نیاز احمد صاحب انتظامات میں پیش پیش تھے۔ سلسلے میں داخلہ ملے
اُس کو ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ ہو چکا تھا لیکن پھر بھی یہ
سب کچھ اُس کے لئے نیا تھا۔ ابھی اُس کو بہت کچھ جاننا اور سیکھنا تھا۔
پروگرام یہ
بنا کہ پشاور سے چند اصحاب کوہاٹ جا کر خطاب سنیں اور پھر مرشد کریم کو اپنے ساتھ لے
کر پشاور آجائیں۔ قرعہ انتخاب اُس کے نام نکلا۔ کوہاٹ سے پشاور تک اُس کو اپنے
مرشد کریم کا وزیر مہمان داری مقرر کیا گیا۔ اس اعزاز کو اپنے لئے سعادت جانتے ہوئے
، وہ بیوی بچوں کو ساتھ لئے صبح سویرے کوہاٹ پہنچ گیا۔ اُس کا سسرال کوہاٹ ہی میں تھا۔
وہ بیوی بچوں کو وہاں چھوڑ کر عصر کے بعد چھاؤنی میں آفیسرز میس پہنچا۔
گاڑی کھڑی کر
کے ابھی وہ ادھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اُس نے کچھ لوگوں کو پارکنگ ایریا سے ملحق
سیڑھیاں چڑھتے دیکھا۔ چند افسروں کے درمیان اُس کو اپنا مُراد زمین سے ابھرتا اور اُس
کی نگاہوں کے افق کو بھرتا ہوا نظر آیا ۔ وہ سامنے ہوا کہ وہ اُس کو دیکھ لیں۔ اُس
پہ نگاہ پڑتے ہی اُن کی مسکراتی آنکھیں گویا ہنس دیں اور انہوں نے اپنی بانہیں پھیلا
دیں اور وہ اپنے مُراد کی پھیلی بانہوں کے درمیان اُن کے سینے سے جا لگا۔ یہ اُس کو
بے خود کرنے کو کافی تھا۔ سب اُسی کو دیکھ رہے تھے۔ یہ اعزاز عطا کر کے ، یہ سعادت
بخش کر انہوں نے اُسے اتنا سر فراز کر دیا تھا کہ وہ بے خودی کے ساتویں آسمان پہ پرواز
کرنے لگا۔ اُن سے گلے مل کر ہٹا تو فخر کی بجائے عاجزی اور انکسار نے اُس کی پلکوں
کو اتنا بوجھل کر دیا تھا کہ وہ اُن کے ارد گرد موجود لوگوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھی
اُن کو دیکھنے کے لئے آنکھ نہیں اُٹھا پا رہا تھا۔
وہاں سے وہ سب ہال کی طرف بڑھے۔ کرنل منظور بخشی نے اپنے دوستوں سے اُس کے مُراد کی بابت نہایت اخلاص سے کسی زبان دانی کا سہارا لئے بغیر صاف صاف کہا۔ ایسی روحانی ہستیوں کی قربت کا ایک لمحہ سالوں کی بے ریا اطاعت سے افضل
ہے کیونکہ وہ بہت ہی گہرے تفکر کو ابھارنے کی کرامت جانتے ہیں
اور اس کا اظہار کرتے رہنا اُن کو خوب آتا ہے۔
اُس کے بعد
اُس کے مُراد نے وہاں جو بھی کہا اُس کا ایک ہی اثر ہوا۔ ہر بندہ خود کو اللہ سے قریب
تر محسوس کرتا رہا۔ وہ مرتبہء احسان کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اُن سب کو اللہ کے
دیکھنے کو محسوس کرنے کی دعوت دیتے ہوئے خود کو اللہ کو دیکھنے کی بابت فرما رہے تھے۔
ہماری روح نے ازل میں اللہ کو دیکھا ہے اور روح اللہ کو اب بھی دیکھ سکتی ہے۔ مادی
آنکھ کی اتنی مجال کہاں کہ وہ اللہ کو پا سکے لیکن اللہ کے لئے یہ امر کچھ بھی مشکل
نہیں کہ وہ خود کو روح کی آنکھ پہ آشکار کر دے۔بندہ خود بخود خواہش تو کرے لیکن ہم
تو یہ خواہش ہی نہیں رکھتے۔ حالانکہ کہنے کو ہم کہتے ہیں۔ ہمیں اللہ سے ملنا ہے۔ لیکن
ہم اس کا یقین نہیں رکھتے۔ اگر ہم خود میں یہ یقین پیدا کر لیں کہ ہم اللہ کو دیکھ
سکتے ہیں تو اللہ کے لئے یہ کچھ مشکل نہیں کہ وہ خود کو نہ دکھا سکے۔
اُس کے بعد
سوال جواب کی نشست ہوئی۔ محفل برخاست ہوئی اور وہ عاز م پشاور ہو لئے۔ میس سے باہر
آکر اُس نے ابا کو بتایا کہ اُس کے سسرال وہاں کوہاٹ میں ہیں۔ بیوی بچوں کو اُس نے
وہاں چھوڑا تھا۔ اگر اجازت ہو تو اُن کو ہمراہ لے لے۔ آپ نے نہایت شفقت سے کہا۔ ہاں
ہاں کیوں نہیں۔ ورنہ وہ محسوس کریں گی۔
اُس نے گاڑی گھر کے سامنے کھڑی کی اور اپنے آنے کی اطلاع کروائی۔ اُس کو اپنے مرشد کا باہر گاڑی میں بیٹھے رہنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ یہ سوچ کر اُس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے کہ وہ کیا سوچیں گے کہ یہ لوگ کتنے بد اخلاق ہیں کہ کوئی انہیں مدعو نہیں کر رہا۔۔ گھر کے اندر بلا کر بٹھائے۔۔۔ اُس کو اپنی بیوی پہ غصہ آنے لگا کہ اتنے عظیم بندے کو اُس کی وجہ سے باہر گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی تناؤ میں اُس نے ہارن بجا دیا تاکہ وہ جلدی سے باہر آئے ۔۔۔ اس پہ آپ نے فرمایا۔
یہ گھر اندر سے دیکھنا چاہئے۔ یہ کہا اور گاڑی سے اتر کر گھر
کے اندر چل دیئے۔ اُس کی ساس انہیں دیکھ کر ان کے استقبال کو آگے بڑھیں اور سلام کیا۔
وہاں صحن میں لگے انجیروں سے لدے درخت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔۔ بھئی واہ! یہ تو
جنت کا پھل ہے۔ اُس کی سالی نے ایک پلیٹ میں۔۔۔ پہلے سے توڑ کر فریج میں رکھے ہوئے۔۔۔
خوب پکے ہوئے انجیر پیش کئے۔ ایک دانہ لے کر کھایا اور فرمایا۔۔۔ کوہاٹ کا پانی میٹھا
ہے۔۔۔ سب نے اُن کی بات پر صاد کیا۔ وہ سب اُن کے بہت مشکور تھے کہ انہوں نے انہیں
سرفراز کیا ہے۔
اُس کی ساس
نے اُن کو اپنے یہاں رات رُکنے کی دعوت دی تو آپ نے انہیں کراچی آنے اور حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ کے عرس میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا۔” آپ وہاں آئیں تو میرے پاس
رہیں۔ وہاں سے روانہ ہوئے تو اُس نے محسوس کیا کہ وہ خوشی کا ایک تناور درخت وہاں لگا
کر جا رہے ہیں۔
آج بھی اُس
کی ساس اُن لمحات کا تذکرہ کرتی ہے اور لوگوں کو فخریہ بتاتی ہے کہ بابا جی اُس کے
گھر آئے تھے اور انہوں نے اُس کے گھر کے انجیر کھائے۔ یہ بات کہتے ہوئے اُس کی بوڑھی
آنکھیں چمک اُٹھتی ہیں اور یہ بتاتے ہوئے تو اُس کے چہرے پہ ایک نکھار چھا جاتا ہے
کہ انہوں نے کوہاٹ کے پانی کو میٹھا کہا تھا اور پھر وہ اپنے بچپن، لڑکپن، جوانی کے
زمانے میں کوہاٹ کے نواح میں چشموں پہ جانے اور وہاں کے پانی کے اوصاف کے حوالے سے
بتاتی ہیں کہ کوہاٹ کے امرودوں کا اسی لئے تو شہرہ ہے کہ وہاں کا پانی خاص ہے۔
پشاور روانگی کے لئے گاڑی میں بیٹھے تو اُس کی بیوی نے اپنے گھر سے متصل عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور کو بتایا۔ یہ سب میرے دادا کی جائیداد تھی جنہیں میرے والد نے بیچ دیا تھا۔ حضور نے دھیرے سے کہا۔ ”ایسا ہی ہوتا ہے۔ وہ نہ بیچتے تو اُن کی اولاد بیچ دیتی۔“
کوہاٹ سے نکل
کر چکردار پہاڑی راستہ طے کرتے ہوئے فرمایا۔” غصہ کی بابت قریشی صاحب نے ایک عجیب بات
کہی کہ جس زمین پہ آگ جلتی ہے وہاں کبھی کچھ نہیں اُگتا۔“ پھر فرمایا ۔” غصہ بھی تو
ایک آگ ہی ہے۔ جس ذہن میں غصہ آجائے وہاں روحانیت داخل نہیں ہو سکتی۔ غصہ کرنے سے منع
کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے اس سے دوسروں کی دل شکنی اور دل آزاری ہوتی ہے۔ اُس کو
چند لمحے پہلے اپنی بیوی پہ جو تاؤ آیا تھا۔ اُسی کے حوالے سے انہوں نے اُس کو یہ بات
تعلیم فرمائی تھی اور اس لطافت بھرے انداز میں کہ اُس کی بیوی کو کانوں کان خبر نہ
ہو سکی کہ وہ اُس کو کیا سمجھا رہے ہیں۔
پھر فرمایا۔
”سلسلے میں آنے والے لوگ مختلف زمینوں کی مانند ہوتے ہیں۔ کسان زمین کے مختلف ٹکڑوں
پہ توجہ کرتا ہے۔ جھاڑ جھنکار صاف کرتا ہے۔ ہل چلا کر بیج بوتا ہے انہیں پانی دیتا
ہے۔ جہاں کی زمین اچھی ہوتی ہے۔ وہاں زیادہ اچھی فصل ہوتی ہے اور جو زمین کمزور ہوتی
ہے وہاں کی فصل اتنی اچھی نہیں ہوتی لیکن کسان اُس زمین کو چھوڑنہیں دیتا۔ اپنی کوشش
میں لگا رہتا ہے۔ فقیر بھی بہت سے افراد اکٹھے کرتا ہے۔ اُن میں سے کچھ کو چھانٹ کر
اُن کی تربیت کرتا ہے۔ گھاس پھونس الگ کرتا ہے، پنیری تیار کرتا ہے۔ کام کے پودوں کو
مناسب جگہ لگاتا ہے۔ اُن کی دیکھ بھال کرتا ہے۔“
یہ بھی فرمایا کہ ” جو بندہ زیادہ آدمی جمع کر لیتا ہے اُس کو اُن میں سے انتخاب کرنا اتنا ہی دو بھر ہو جاتا ہے۔ پھر مثال دی کہ ایک آدمی کے پاس دس گھوڑے ہوں اور اُس کو ااُن میں سے ایک اچھے گھوڑے کا انتخاب کرنا ہو تو۔۔۔۔اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا سو گھوڑوں میں سے ایک اچھے گھوڑے کا انتخاب کرنا دشوار ہوتا ہے۔
راستے میں چرواہوں
کو بھیڑ بکریاں چراتے دیکھ کر مرید کا ذہن اس طرف مبذول ہو گیا کہ انبیاء علیہ السلام
نے بھیڑ بکریاں چرائیں ، تجارت کی، کھیتی باڑی کس نے کی؟
اُس کا مراد
گویا ہوا۔” حضرت آدم علیہ السلام پہلے کاشتکار تھے۔ فرشتے نے انہیں زمین دکھائی اور
کہا یہاں اس طرح کاشت کرنا۔ انہوں نے فرشتے سے کہا۔ ذرا اور آگے بڑھ کر نشان لگاؤ۔
فرشتے نے افسوس سے سر ہلایا۔ آپ اپنی اولاد میں لالچ کا بیج بو دیا۔ انہوں نے سوچا
ہی نہیں کہ اُن کے سوا وہاں اور کون ہے؟ وہ ساری زمین انہی کی تو تھی۔
ایک گھنٹے کا
راستہ اُس دن ڈیڑھ دو گھنٹے میں طے ہوا لیکن اُس کو لگا کہ وہ چند ساعتوں میں ہی پشاور
پہنچ گئے ہیں۔ شہر میں واپڈا گرڈسٹیشن کے ساتھ ایکسین کے بنگلے میں ہی مراقبہ ہال قائم
کیا گیا تھا۔ وہ وہاں پہنچے تو سلسلے کے د وستوں نے اپنی محبت اور خلوص کے ساتھ ساتھ
پھولوں کی پتیاں بھی اپنے مرشد پہ نچھاور کیں۔
جتنی دیر میں
وہ گاڑی پارک کر کے آیا ۔ اُس کو بتایا گیا کہ وہ آرام کر رہے ہیں۔ اگلے روز صبح محفلِ
مراقبہ میں شرکت کی سب کو اجازت ہے۔ جس کے بعد درس اور سوال جواب کی نشست ہوگی۔ پھر
سلسلے کے بہن بھائیوں کے مسئلے مسائل ہوں گے۔ شام کو لوگوں سے خطاب فرمائیں ۔ جو آنا
چاہے اس کو اذنِ عام ہے۔ مہمان داری کا استحقاق تمام ہوا اور اب وہ اپنی نشست پہ بیٹھ
کر میزبانی سے مستفیض ہو۔
نخواستہ ہٹ گئے اور کچھ وہاں ٹھہرنے کے حیلے تراشنے لگے اور
سب سے بڑا حیلہ یہی تھا کہ نیاز صاحب کوئی خدمت ہو تو فرمائیں۔
رات کھانے کے
بعد اُس کے مراد نے اُس سے دریافت کیا۔ آپ کا گھر کہاں ہے؟ جب اُس نے اپنے گھر کا پتہ
بتایا تو نیاز صاحب نے اپنے مرشد کی سوچ کو بھانپتے ہوئے کہا۔ کل ہم یونیورسٹی جائیں
گے تو واپسی پہ چائے ان کے یہاں پی لیں گے۔ مرشد کریم نے اثبات میں سر ہلا کر اپنی
منظوری سے نواز دیا۔۔
مراد بر آنے
پہ وہ خوشی کے اظہار کو ابھی مناسب الفاظ سوچ ہی رہا تھا کہ اُس کے مراد نے ہنستے ہوئے
کہا۔ اب آپ چل کر
چائے کا بندوبست کریں۔ وہ اسے محفل کی برخاستگی کا اشارہ سمجھ
کر کمرے سے باہر آگیا۔
اگلے روز جب
تین گاڑیوں کا مختصر قافلہ اُس کے گھر پہنچا تو اُس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ
کیا کہے۔ کیا کرے۔ انہیں کہاں بٹھائے۔ وہ انہیں لے کر کبھی ایک کمرے میں جاتا کبھی
دوسرے۔ گھر میں ہر طرف لگی اپنی تصاویر دیکھ کر فرمایا۔ ” بھئی یہ کیا فوٹو گرافر کی
دکان بنا رکھی ہے۔ مرید کے اندر ایک جھماکا ہوا۔ اُس نے عرض کی۔ ” یہ سب تصاویر اُس
نے کراچی سے روانہ ہوتے وقت خود اُن کی اجازت سے اتاری تھیں۔
ہو کر نذر نیاز تک جا پہنچا۔ ان چکروں سے بچنا چاہئے ۔ بھئی
کام تو اللہ ہی کرتا ہے اور نام بندوں کا ہو جاتا ہے۔
شاید اُس کی
سوچ کی اسی ٹیڑھ اور کجی کو درست کرنے کے لئے انہوں نے اُس کے گھر آنے کا پروگرام بنایا
تھا۔
اُس کے بعد
قلندر شعور فاؤنڈیشن (سرحد) کے قیام کا حکم دیا اور اس کی کاغذی کاروائی مکمل کرنے
کے لئے نیاز صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ ایک ہی ہلے میں ذہنوں کی
کج ہوتی دیوار کو سنبھالا اور اسی ہلے میں ایک نیا پودا لگا کر وہ اپنی راہ کچھ اس
ادا سے چل دیئے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
اُس رات وہ نیاز صاحب کے گھر برآمدے میں بیٹھا اُس دروازے کو جس کے دوسری طرف اُس کا مُراد آرام فرما رہا تھا تکتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ لطافت خیال اور حسن عمل کا باہمی تعلق کس قدر گہرا اور اٹوٹ ہے۔ اگر حسن عمل میں کمی رہ جائے تو لطافت خیال کامل نہیں اور خیال میں کہیں رکاوٹ و کثافت کا شائبہ بھی ہو تو نتیجہ قباحت عمل کے سوا کچھ اور نہیں نکلتا۔ اگر اس کو مرشد کامل کی صحبت نصیب نہ ہوتی تو رات کے اس پہر یہاں برآمدے میں زمین پہ بیٹھ کر ایسی باتوں کا ادراک کیسے ہو سکتا تھا۔ وہ دیر تک وہاں بیٹھا ایسی باتیں سوچتا رہا جن کی بابت اس پیشتر کبھی اُس کے ذہن میں خیال تک نہ آیا تھا۔ وہ حیران تھا کہ ایسے خیالات اُس کے ذہن کی سطح پہ کیوں ابھر رہے ہیں جن سے وہ کبھی آشنا نہ تھا؟ لطافت خیال کے اجزائے ترکیبی پہ غور کیا تو ذہن رعنائی خیال کے لالچ میں اس راہ پہ ساتھ ہو لیا جو بے غرضی کے صدر دروازے سے شروع ہو کر استغنا کے محل سرا تک جاتی ہے اور ایثار اور محبت کے درخت کیف و سرور کی خوشبو بکھیرتے دور روبہ ایستادہ ہیں۔
اس راہ پہ سفر
اتنا کٹھن اور محال کیوں ہوتاہے؟۔۔۔ اُس نے تصور میں اپنے مراد سے سوال کیا۔ شعور اپنی
تن آسانی اور تساہل کے سبب ایسا مانتا ہے ورنہ تو کچھ بھی محال نہیں۔ تصور میں جھلملاتا
عکس گویا ہوا۔
”یہ بات حسنِ
عمل کے لئے تو درست ہو سکتی ہے لیکن لطافت اور رعنائی خیال کی بنیاد کیوں کر ہوئی؟
“ اُس نے بات کو بڑھایا۔
بات وہی ہے
شعور اپنی تربیت کروانے پہ آمادہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ تن آسانی اور سہل پسندی سدراہ کو
کچھ زیادہ ہی اونچا دکھاتے ہیں۔ بالکل جیسے رکاوٹوں والی دوڑ میں اپنی کمزوری رکاوٹوں
کو زیادہ ہی اونچا کر دیتی ہے۔
اُس کو ایک
آہٹ نے چونکا دیا۔ اُس نے گیٹ کی طرف دیکھا وہاں ایک سایہ سا لہرایا۔ وہ اُٹھ کر گیٹ
کی طرف گیا۔ زبیر عزیز بنگلے کے گیٹ پہ کھڑے اپنے مرشد کی موجودگی کے احساس سے کھیل
رہے تھے۔ وہ دونوں باتیں کرنے لگے۔ زبیر بھائی اپنی لاحاصل زیست میں مرشد کی صورت ہونے
والے انعام کو درست انداز میں برتنے کے لئے کچھ کرنے کی بات کر رہے تھے اور اس بات
کی تکرار کر رہے تھے کہ وہ اپنے مرشد کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ سلسلے کے لئے کیا کر
سکتے ہیں؟
پہلی بات کی بابت اُس کا خیال تھا کہ وہ مرشد کریم کے لئے ہی کیا کر سکتے ہیں۔ ابھی تو وہ بہت ہی چھوٹے بچے ہیں۔ دوسری بات البتہ قابلِ عمل محسوس ہو رہی تھی۔ وہ کافی دیر تک کچھ ایسی ہی باتیں کرتے رہے۔ بالآخر اُس نے زبیر سے یہ پوچھا کہ رات کے اس پہر کڑاہی میں یہ ابال کیسا؟ اُس نے ایک لحظہ سوچا اور کندھے اچکا کر کہا۔ وہی کچھ ایسا چاہ رہے ہوں گے۔ ورنہ اس سے پیشتر اُس نے ایسا کیوں نہیں سوچا۔ تو پھر ہمیں چاہئے کہ ہم اس خیال کو حرز جان بنا لیں اور کچھ کرنے کی بابت سوچیں اور نہ صرف سوچیں بلکہ کریں۔ دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا۔
صبح مراقبے اور درس کے بعد سیر سے واپسی پہ ایک ضعیف العمر بزرگ
گیٹ پہ منتظر تھے۔ سلام دُعا کے بعد انہوں نے اپنی صحت مندی کی دعا کے لئے کہا۔
مسکان گہری
ہوئی۔پوچھا۔ کیا آپ جوان ہونا چاہتے ہیں؟
وہ بھی خوب
تھے ڈٹ گئے اور کہا۔ جی ہاں!ْ
اب مسکان کھلکھلاتا
تبسم بن کر گویا ہوئی۔ جوان ہو کر شادی کریں گے؟
پورے تن سے
چھاتی چوڑی کر کے پورے زور سے اقرار کیا۔ جی ہاں!
سب ہی ہنس پڑے۔
آپ آگے بڑھے۔ وہ صاحب اتنے آسودہ اور مطمئن کہ انہوں نے ساتھ بڑھنے کی بجائے وہیں رُکنے
کو ترجیح دی۔
آپ نے برآمدے
میں بچھی کرسی پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔ شادی بھی عجیب شے ہے۔ بستر مرگ پہ لیٹے بوڑھے سے
پوچھو۔ شادی کرو گے؟ ایک بار تو وہ ضرور آنکھ کھول دے گا۔ کہتے ہوئے آنکھیں بند کر
کے۔۔۔ ایک آنکھ قدرے کھولتے ہوئے دکھا کر بتایا کہ یوں۔
شادی کی بابت
یہ فرمایا۔ ویسے لغت کے مطابق شادی کا مطلب خوشی ہے۔ لیکن یہاں شادی کر کے بھی لوگ
خوش نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمیں خوش ہونا ہی نہیں آتا۔
خوش ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خوشی کے مفہوم سے تو واقف ہوں۔ ہم جانتے تو ہوں کہ
خوشی ہوتی کیا ہے؟
مرید کے ذہن
میں پنجابی کا ایک شعر تازہ ہو گیا۔
خوشی جے آگئی اے تے اینوں کنج منا لیئے
ساڈے گھر تے اے وی رونا پے جاندا اے
(یعنی اگر ہمارے گھر کبھی خوشی آ بھی جائے تو
ہمارے یہاں یہی رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے کہ اس کو منایا کیسے جائے۔)
کسی نے اُن
سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی کہ خوشی کیا ہوتی ہے؟ خوشی کسے کہتے ہیں؟ اس کے
اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ اس کے حصول کی شرائط کیا ہیں؟ یہ جنس نایاب جس کی بابت وہ کہہ
رہے ہیں کہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ خوشی ہوتی کیا ہے۔۔۔۔ کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ وہ جس
کا تکیہ کلام ہی یہ ہے۔۔۔اللہ آپ کو خوش رکھے۔۔۔ کوئی اُن سے اتنی سی بات کہنے پہ آمادہ
و تیار نہیں کہ حضور آپ جانتے ہیں کہ ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ خوشی کیا ہوتی ہے ،
خوش کیسے ہونا چاہئے اور خوش کیسے رہا جا سکتا ہے۔۔۔ آپ ہی اس کی شرح فرما دیں۔
وہ خوشی و مسرت کو مفت تقسیم کرنے پہ تلے ہوئے ضرور ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ اُسے گندی نالیوں میں پھینک دیں۔ انہوں نے یہ دیکھ کر کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ وہاں موجود لوگوں کی دلچسپی و رجحان کی بات کہنے میں عافیت دیکھی اور فرمایا۔ ہمارے یہاں تو شادی سیکس کے لئے کی جاتی ہے اور جب تک سیکس بیچ میں رہتی ہے یہ بندھن بھی برقرار رہتا ہے اور جب سیکس ختم ہو جاتی ہے تو تعلق بھی ختم۔۔ پھر لڑنے جھگڑنے لگتے ہیں۔ ایک دوسرے سے لاتعلق ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر بوڑھا بوڑھی اگر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے اکٹھے گھومتے پھریں تو اچھے لگتے ہیں۔ مگر یہاں تو اجی پرے ہٹو۔۔۔ بچے جوان ہو گئے ہیں۔۔۔ کی دیوار بیچ میں آن پڑتی ہے۔ حالانکہ ماں باپ میں پیار ہو تو نہ صرف دیکھنے میں اچھا لگتا ہے بلکہ اولاد ذہنی طور پہ پُرسکون اور محبت کرنے والی ہوتی ہے۔ اولاد کی تربیت کے لئے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو چاہتے ہوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہوں۔ پھر ایک عجیب بات یہ ارشاد فرمائی کہ دنیا سے جانے کے بعد بہت کم جوڑے اوپر جا کر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کے والدین اوپر بھی اکٹھے ہیں۔
مرید نے سوچا بلا شبہ ایسے ہی والدین کی اولاد قلندر بننے کے
لائق ہوگی۔
اس کے بعد اشتہار
بازی کے طور طریقوں سے ہوتی ہوئی بات جنسی ادویات کے کھلے عام فروخت تک جا پہنچی۔ فرمایا۔”
امساک کی ادویہ دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی ادویہ ہیں۔ پھر حضور قلندر بابا
اولیا ء ؒ کا ایک نسخہ بتایا۔ جو اعصابی سکون و طاقت کے علاوہ امساک کے لئے بھی مفید
تھا۔ اُس میں افیون اور چھوہارے کو ایک خاص طریقے سے استعمال کرنا تھا۔ پھر اپنی تربیت
کے ایک مرحلے کا تذکرہ فرمایا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ مجھے تھوہر، سنکھیا اور
اسی قبیل کی انتہائی کڑوی جڑی بوٹیاں کھلایا کرتے تھے۔ مسکراتے ہوئے کہا۔ شاید وہ مجھے
دوزخ کی خوراک کا مزا چکھا رہے تھے۔ اُٹھتے ہوئے مسکرا کر دھیمے سے فرمایا۔ بھئی وصل
تو جنت کی چیز تھی دنیا میں جانے کیسے آگئی۔
ابھی ناشتہ
ہی کر رہے تھے کہ اٹک مراقبہ ہال کے انچارج ڈاکٹر ممتاز اختر کچھ ساتھیوں کے ہمراہ
تشریف لے آئے ۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے ہمراہ اٹک لے جانےآئے تھے۔ اس نے اُن سے درخواست
کی کہ وہ حضور کے ہمراہ اٹک انا چاہتا ہے۔ انہوں نے فورا کہا۔ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ابا
تو خوش ہوں گے۔
ابا خوش ہوں گے۔ سُن کر پہلے تو وہ خود خوش ہو گیا۔ ممتاز بھائی نے کہا۔ ہم تو سوال سوچتے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اُن سے سوال کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا۔ آپ سوال پوچھتے ہیں تو آپ کے طفیل ہم بھی مستفیض ہو جاتے ہیں۔ تعریف سُن کر سر خوشی کی کیفیت دو آتشہ ہی تو ہو گئی۔ وہ سلسلے میں اُس سے کافی پہلے سے تھے اور مرشد کا ادب کرنا جانتے تھے۔ وہ چونکہ اُن سب کی نسبت نیا تھا اس لئے وہ اپنی جہالت اور لا علمی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ وہ سب اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ سلسلے میں نئے آنے والوں کو مختلف باتیں سمجھنے کی خاطر مرشد سے ہر طرح کے سوال جواب کی آزادی اور مواقع ملنا ضروری ہیں۔
سفر میں یوں بھی توجہ اپنے ہمراہی کی طرف رہنا ایک فطری سا عمل
ہوتا ہے۔ اس قربت سے وہ اس انداز سے فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا کہ ذہن میں آنے والے کسی
بھی سوال ، اشتباہ اور معاملے کو اُن کے ساتھ بے تکلفانہ دریافت کر سکتا تھا۔ ادھر
وہ اُس کی حوصلہ افزائی کو اُس کو کئی بار بتا چکے تھے کہ چھوٹی سے چھوٹی بات اپنے
مرشد سے دریافت کرنی چاہئے۔ اس سے مرشد کی طرزِ فکر اپنانے میں مدد ملتی ہے جب آدمی
زندگی سے متعلق چھوٹی سے چھوٹی بات اُ س طرح سوچنے لگتا ہے جس طرح اُس کا مرشد سوچتا
اور سمجھتا ہے تو اُس کے سوچنے اور سمجھنے کی طرزیں اپنے مرشد کی مانند ہو جاتی ہیں۔
وہ خود بھی
درس و تدریس سے مس رکھتا تھا۔ اُس کو اندازہ تھا کہ ایک استاد کے لئے اس سے بڑی خوشی
اور کچھ نہیں ہوتی کہ اُس کا شاگرد اتنا قابل ہو کہ وہ اُس پہ فخر کر سکے۔ نالائق تلامذہ
کے اساتذہ کو اُس نے کبھی سر بلند نہیں پایا۔ تلمیذ کتنا بھی مودب رہے اگر اُس کی وجہ
سے استاد کا سر فخر سے بلند نہیں ہوتا تو محض ادب اتنا بھی قابل فخر نہیں۔ اپنی نالائقی
اور جہالت کو چھپانے کی بجائے اُس کو دور کرنے کی کاوش بہر طور احسن اور قابل ستائش
ہے۔
احسن اور قابل ستائش تو یہ بھی ہے کہ جو مرشد کہے وہ سمجھو۔۔۔ جو وہ سمجھائے وہی سمجھو اور اتنا ہی سمجھو جتنا وہ سمجھائے۔ جو وہ کروائے وہی کرے اور جتنا کہے اتنا کر کے بس کرنے کی بجائے اُس پہ قائم ہونے کی کوشش کرو۔ مرشد جب مرید کو صاف ستھرا کرے تو وہ کم از کم اُس صفائی کی اتنی حفاظت تو کرے جتنی صاف کپڑوں کی جاتی ہے۔ ماں کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ یہ کپڑے شام تک میلے ہو جائیں گے لیکن اگر بچہ دس ہی منٹ میں کپڑوں کا حشر شام تک میلے ہونے والے کپڑوں سے بھی بدتر کر دے تو ماں کی کوفت فطری بھی ہے اور جائز بھی۔
اس کے مراد کا اپنے مریدوں کو سکھانے کا یوں تو ہر آن ہی ایک
انداز ، ایک نادر طریقہ اور کوئی اچھوتا زاویہ ہوتا ہے لیکن ان کے انداز تربیت کے چند
عمومی طریقے بھی ہیں اور بات کہنے، بات سمجھانے۔۔۔۔ اپنی اور لوگوں کی مثالیں دے کر
اُسے ذہن نشین کرنے کی سعی کے علاوہ مرید کو عملی تجربات سے گزارنے کااہتمام کرتے ہیں۔
کبھی کبھی تو اُسے محسوس ہوتا کہ یہ پوری دنیا ایک وسیع و عریض درسگاہ ہے اور زندگی
اس درسگاہ سے کچھ سیکھنے کی مہلت۔
اٹک جاتے ہوئے
راستے میں ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اٹک کے پل سے گزر رہے تھے تو دریائے سندھ
میں پانی کی رنگت اور بہاؤ کی مقدار پہ بات ہو رہی تھی کہ اٹک پہ چیک پوسٹ پہ رُکنا
پڑا۔ اپنی باری کے انتظار کے دوران ارشاد ہوا کہ چیک پوسٹیں اس لئے بنائی جاتی ہیں
تاکہ ہر کوئی یہ کام نہ کر سکے۔ صرف کرنے والے ہی کریں۔ مرید سمجھا اُن کا اشارہ سمگلرز
کی طرف ہے تو اس کی اصلا ح کو فرمایا۔ ایک طرف تو یہ امتناع عام کا حکم رکھتی ہے اور
دوسری جانب خاص لوگوں کے مفاد کے تحفظ کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ اس سے اشیائے ممنوعہ
کی عام ترسیل کو روک کر اُس کی قیمت بڑھائی جاتی ہے۔ ان کا عملہ تو اپنے ذاتی مفاد
کے چکر میں پڑ کر چند ایک کو راہ دے دیتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ چیک پوسٹیں ہی کیا بیشتر
تعزیری قوانین کے پس پردہ یہی حکمت کار فرما ہے۔ ایک وقت تھا کہ حکومتیں سگریٹ نوشی
کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں تاکہ اُس کی آمدن پہ ٹیکس لگا سکیں اب بھی تو یہی مقصد ہے
لیکن اب اس کی ممانعت کر کے اس کی قیمت میں اضافہ کر کے پہلے سے زیادہ ٹیکس وصول کیا
جاتا ہے۔
ہی نہیں رہے تھے۔ جب اُس نے کہا۔ وہ تو نہیں ہے تو وہ افسری
پہ اتر آیا ۔ گاڑی سائڈ پر لگا لیں۔نیچے۔ صاحب سے بات کریں۔ بے بسی سے اُن گاڑیوں کو
اپنے پاس سے گزرتے دیکھ کر جو اُن صاحب کے اشارے کے باوجود وہاں رکے بغیر بڑھ رہی تھیں۔۔اس
نے بحث میں پڑنے سے بہتر یہ سمجھا کہ وہ اتر کر جا کر اُس کے صاحب کے پاس جائے۔ اُن
صاحب نے اُس کا نام پوچھا گاڑی کا نمبر لکھا اور لائسنس بنا کر اُسے تھماتے ہوئے فیس
بتائی۔ اُس نے سوچا بس اتنی سی بات۔ واہ یہ تو خیر ہوگئی۔ وہ تو سمجھا تھا کہ وہ اپنے
مراد کے ہمراہ ہے تو شاید قانون سے ہی بالا ہو گیا ہے۔ انہوں نے لاتعلقی کا اظہار کر
کے اُس کو سبق دیا کہ اپنے معاملات کو خود ہی درست رکھنا سیکھو۔ سبق کا دوسرا حصہ یہ
بنا کہ قانون کسی کو کھاتا نہیں۔ اس کی پاسداری میں ہی عافیت ہے۔
وہ گاڑی میں
آکر بیٹھاتو انہوں نے دریافت کیا۔۔۔ کیا ہوا؟ جو ہوا تھا وہ اُس نے بتایا تو فرمایا۔
چلیں اچھا ہوا۔ اب آئندہ کبھی کوئی دوبارہ روکے گا تو نہیں۔ جب اُس نے دیکھا کہ انہیں
اس انتظار پہ کوئی کوفت نہیں ہوئی تو وہ مطمئن ہو گیا۔ ورنہ اپنی کوتاہی اُسے کھائے
جاتی۔
کچھ دور چل
کر اُس نے بات کا سرا وہیں سے جوڑنے کو کہا۔ یہ ٹیکس کے لئے اتنی گھما کر ناک پکڑنے
کی کیا تُک ہے؟
کو تو وہ فیکٹری دکھائی نہیں دی ۔ اگر وہ اسلام کا اتنا ہی شیدائی
تھا یا اُس کو لوگوں کی صحت کا اتنا ہی پاس تھا تو کیا وہ اسے بند نہیں کرواسکتا تھا؟
فقیر جس بھی
موضوع پہ بات کرے اپنی فراست کے نور سے سننے والے کے ذہن کو منور کر دیتا ہے۔ اتنا
کتابی علم ہونے کے باوجود وہ آج تک اتنی سیدھی اور سامنے کی بات نہیں سمجھا تھا تو
وہ اور کیا جان سکتا تھا۔
اُس نے سوچا
کہ وہ اپنا ایک مسئلہ اپنے مراد کو تائے گا۔ کل کو اگر کچھ الٹا ہو گیا تو وہ کہیں
گے آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا۔ اُص نے کھنکار کر بات شروع کی۔ حضور میری گرفتاری کے
وارنٹ لے کر پولیس مجھے پکڑنے آئی تھی۔ میں آپ کے پاس تھا۔ آج کل میں وہ دوبارہ ائیں
گے۔ مجھے کیا کرنا چاہئے؟
انہوں نے چونکے
بغیر کہا۔ ہوا کیا تھا؟
اُس نے بتایا
کہ اُس نے کسی دوست کو بنک سے قرض لے کر دینے میں اُس کی ضمانت دی تھی۔ اب وہ دوست
غائب ہے۔ جب وہ کراچی میں تھا اُس وقت سمن وغیرہ آتے رہے پھر اُس کی غیر موجودگی میں
کیس عدالت میں چلا گیا اب عدالت نے اُس کے وارنٹ جاری کر دیئے ہیں۔
انہوں نے کہا۔
آپ تھانے چلے جائیں۔
تھانے خود چلا گیا تو وہ مجھے گرفتار کر لیں گے اور ضمانت ہونے تک حوالات میں رہنا ہوگا۔ وہ سوچ کر الجھ گیا کہ اسی تماشے سے بچنے کے لئے تو اُس نے اُن سے بات کی تھی اور اب وہی فرمارہے ہیں کہ تھانے چلے جائیں۔ لیکن وہ خاموش رہا۔ کچھ توقف کے بعد دوبارہ فرمایا۔ آپ تھانے تک ضرور جائیں۔
اٹک پہنچے تو وہاں کا پرو گرام بھی آرمی میس ہی میں تھا۔ بریگیڈیر
رفیق میزبان تھے۔ بریگیڈیر صاحب نے فوجی وردی میں عکسری کروفر کے ساتھ استقبال کیا۔
ہال میں خطاب لئے جانے سے پیشتر حضور کو ایککمرے میں آرام کرنے کی دعوت دی گئی۔ جس
کو انہوں نے یہ کہہ کر جزوی طور پر قبول کیا کہ ٹھیک ہے اتنی سیر میں لوگ اپنی نشستیں
سنبھال لیں گے۔
انہیں کمرے
میں بٹھا کر میزبان باہر نکلے تو آپ نے ڈاکٹر ممتاز اختر سے مخاطب ہو کر فرمایا۔” اللہ
تعالیٰ اس طرح مجھے فوجی طرزِ فکر سے روشناس کروانا چاہتے ہوں گے۔یعنی فوجیوں سے بات
ہوگی تو اُن کے اندازِ فکر اور زاویہ نظر کا
پتہ چلے گا اور شاید یہ بھی کہ اُن کا ڈسپلن قریب سے دیکھ ر اپنے سلسلے کے دوستوں کی
تربیت کا نظام بہتر ہو سکے گا۔
ہال کی طرف
چلے تو میزبان نے بر آمدے میں ایک میز پر مہمانوں کے تاثرات کے لئے سلیقے سے رکھے ایک
رجسٹر میں اپنے تاثرات قلم بند کرنے کی فرمائش کی۔ آپ نے کیا لکھا وہ پوری طرح نہ دیکھ
سکا۔ البتہ جب وہ لکھ کر ہٹے تو اُس کی نظر اُن کے جانے پہچانے دستخط اور اُس کے نیچے
لکھے چیف ایڈیٹر ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ کراچی کے الفاظ ہی دیکھ سکی۔
ہال میں کرسیوں پر نظم و ضبط سے بیٹھے افراد نے کھڑے ہو کر استقبال کیا۔ آپ نے بات کا آغاز کرنے سے پہلے اپنے مخصوص دھیمے اور کومل سروں میں تلاوت کلام پاک سے نوازا۔ پھر پھر خواب اور اُن کی روحانی تشریح و توضیح فرمائی۔ جب آپ نے بات شروع کی تو کسی نے کہا کہ آواز بلند ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھی نے انگریزی میں کہا۔” وہ بہت نرم گفتار ہیں تمہی کو توجہ دینا ہوگی۔“ یہ بات کہنے والا بلند آہنگ کی فرمائش کرنے والے سے شاید عہدے میں بڑا تھا اس لئے وہ فورا کرسی پہ آگے ہو بیٹھا اور پوری توجہ سے بات کو سننے کی کوشش میں لگ گیا۔
نرم لہجے میں بات آغاز ہو کر رفتہ رفتہ بلند ہوتی چلی گئی۔ خواب
کو خیال و خواب ماننے والوں کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروا کر کہ یہ روح کی تحریکات
کے سوا کچھ نہیں جنہیں ہمارا لاشعور ہمارے شعور کو اُس وقت مہیا کرتا ہے جب وہ نیند
کی آغوش میں ہوتا ہے ۔ لاشعور کی دی گئی ان اطلاعات کو شعور اپنی ساخت اور طرزوں کے
مطابق تصویری صورت دے دیتا ہے۔ اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خواب دراصل روح کے پیغامات
ہوتے ہیں جنہیں روح اپنی زبان میں ادا کرتی ہے اور اُن کی تعبیر و تشریح ایسے ہی لوگ
کر سکتے ہیں جو روح کی زبان جانتے ہوں۔
اس کے بعد آپ
نے قرآن حکیم میں مذکورہ خوابوں کا شرح و بسط سے ذکر کر کے اپنی بات کی وضاحت فرمائی۔
سوال و جواب کے ایک مختصر دور کے بعد محفل اپنے اختتام کو پہنچی۔ میزبان انہیں لے کر
کھانے کی وسیع و عریض میز کی طرف بڑھا۔ مرید کو میزبان نے مہمان خصوصی کے بالکل سامنے اونچی پشت والی نشست پر اپنے
بائیں ہاتھ بیٹھنے کو کہا تو وہ گھبرا گیا۔ وہ خود کو اپنے مرشد کے مقابل بیٹھنے کا
اہل کہاں سمجھتا تھا۔ جب میزبان نے سالن کی رکاب اُس کی طرف نہایت تمیز اور سلیقے سے
بڑھا کر اُسے کھانا نکالنے کو کہا تو اُس نے اپنے مُراد کی طرف نظر کی جن کے قریب کے
سبب اُس کو وہاں بیٹھنے کی سعادت ملی تھی۔
اوپر ڈھے رہی ہے۔ کھانے کے دوران وہاں کیا کیا باتیں ہوئیں۔
میزبان نے کس کس طرح اُس کے مراد کی تواضح کی۔۔۔ اُن کو رجھایا۔۔۔وہ دیکھ تو رہا تھا
لیکن جیسے کوئی بہت دور سے دیکھ رہا ہو۔ اُس نے اپنے اندر ہوتی ٹوٹ پھوٹ اور گرتے ملبے
کی دھول سے بھیگتی پلکوں کو کئی بار پونچھا۔
شکر گزاری میں
حقیقت شانسی کی آمیزش ہو جائے تو انکسار صورت ابھرتی ہے۔ لیکن اُس کی آنکھوں کی کمزوری
اُس کے آڑے آ رہی تھی جو جھکائے رکھنے کے باوجود اُس کے اندر کی اڑتی دھول پہ برستی
بوچھاڑ کے چھینٹوں کو باہر نکلنے سے روکنے میں ناکام تھیں۔
کھانے کے بعد
قہوے کا دور چلا۔ پھر عمارت کے بیرونی برآمدے میں گروپ فوٹو ہوئے۔ دوبارہ آنے کی درخواست
ہوئی۔ نہایت تپاک سے رخصت کئے جانے کے بعد وہ اٹک مراقبہ ہال کی طرف چل دیئے۔ فوجی
نظم و ضبط کے صاف ستھرے ماحول سے باہر آ کر۔۔۔ سڑک پہ اڑتی دھول کو پیچھے چھوڑتے۔۔۔وہ
اٹک کے بازاروں کی بے ہنگم ٹریفک میں راستہ بناتے۔۔۔بازار میں دکانوں کے اوپر بنے۔۔۔
تین کمروں کے ایک فلیٹ کے سامنے رکے۔
سلسلے کے پُر
جوش نوجوان دوستوں نے والہانہ استقبال کیا۔سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئے اور ملاقتوں ، مسئلے
مسائل کا دور شروع ہوا۔ پھر معلوم ہوا کہ رات کو حضور پنڈی تشریف لے جائیں گے۔ راولپنڈی
مراقبہ ہال سے لوگ آئیںگے اور وہ اپنے مرشد کو اپنے ہمراہ لے جائیں گے ۔ پشاور کی ٹیم
اب واپس جا سکتی ہے۔ مرشد کریم سے الوداع ملاقات کر کے وہ واپس روانہ ہوئے تو نو شہرہ
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔