Topics

رب راضی تے سب راضی

          چند روز بعد جمعہ کے دن گھر میں اخبار” جنگ“ میں اپنے مراد کا کالم روحانی ڈاک دیکھ رہا تھا کہ ایک جملے نے مرید کی توجہ کو پوری طرح اپنے اندر جذب کر لیا۔ ایک خط میں لکھا تھا آپ اتنا کام کرتے ہیں۔ اتنے خطوں کے جواب دیتے ہیں اتنے لوگو ں کو مشورے دیتے ہیں اور پھر بھی آپ کا چہرہ کسی گلاب کی مانند کھلا رہتا ہے۔ اس بات کے جواب میں انہوں نے لکھا تھا۔” میں خوش رہتا ہوں کیونکہ میرا تعلق اللہ سے قائم اور جڑا ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہے۔“ اُس نے یہ جملہ پڑھا اور بار بار پڑھا۔ اُس کو لگا اُس کے اندر کوئی چیز پگھل رہی ہے۔ جیسے موم تپش


اور حرارت کو برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ یقین و ایمان کی اس حرارت کے سامنے پگھلا جا رہا تھا۔ اُس کے اندر تشکر و اطمینان کا شعلہ بھڑک رہا تھا۔ مرید نے خود سے کہا ۔ اللہ نے تم پہ کیسا انعام کیا ہے کہ تم کو اپنے ایک ایسے بندے تک لے گیا ہے جس سے وہ راضی ہے اور اُس بندے کو یقین ہے کہ اُس کا تعلق اللہ سے استوار ہے۔وہ کتنی ہی دیر اس کیف و سرور سے بھیگتا رہا۔ شام کو وہ پھر عازم سرجانی ٹاؤن تھا۔اُس کو معلوم تھا کہ آج وہاں مریض دیکھے جا رہے ہوں گے۔ درس ہو رہا ہوگا۔ اجتماعی مراقبہ ہوگا۔ وہ بھیڑ بھاڑ میں اپنے مراد سے کیسے ملے گا؟ چلیں اور کچھ نہیں تو اک جھلک دیکھنے کو ملے گی۔۔۔ یہ کہہ کر اُس نے خود کو تسلی دی۔

          مراقبہ ہال پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ اُن کے کمرے کے سامنے چند لوگ قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ دربانی پہ مامور اقبال صاحب باری باری ایک ایک آدمی کو اندر جانے کا اشارہ کرتے۔ جب وہ اندر سے تجویز کردہ علاج کی پرچی تھامے باہر نکلتا تو چق اُٹھا کر دوسرے مریض کو اندر جانے کی راہ دیتے۔ اُس نے جا کراقبال صاحب کو سلام کیا اور خاموشی سے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔اقبال صاحب نے چق اُٹھائی اوراُسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔ وہ سمجھا کسی اور سے کہہ رہے ہیں۔ وہ اپنی جگہ کھڑا رہا تو انہوں نے اُسے مخاطب کر کے کہا۔ آپ اندر تشریف لے جائیں۔ آپ یہاں کیوں کھڑے ہو گئے ؟ وہ گڑبڑا کر اس عنایت پہ شکریہ کہتا اندر داخل ہوا۔

          کمرے میں کھڑکی کے قریب دیوار کی طرف پشت کئے اس کا مراد سر جھکائے سامنے بیٹھے مریض کے لئے علاج لکھ رہا تھا۔ وہ دروازے میں ہی رک گیا۔ انہوں نے آنکھ اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔ آیئے آیئے ۔ وہ سلام کر کے فرش پہ بچھی سفید چاندنی پہ اُن کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔ انہوں نے لکھنا جاری رکھتے ہوئے کہا۔” بس یہ چند مریض دیکھ لوں“ اُس نے اس عزت افزائی کو اُن کی ذرہ نوازی پہ محمول کرتے ہوئے کہا ۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ آپ تسلی سے فارغ ہو لیں۔


وہ مریض کو دیکھتے۔۔۔”جی فرمایئے“ کہتے۔ ادھر مریض کیفیت بیان کرنا شروع کرتا ادھر اُن کا قلم کاغذ پہ رواں ہو جاتا۔ جتنی دیر میں مریض اپنی بات ختم کرتا۔وہ علاج تجویز کر دیتے۔ اگر تسلی کو کچھ کہنا ہوتا ساتھ میں وہ بھی کہہ دیتے۔ اُس نے محسوس کیا جتنی بات وہ سننا چاہتے مریض اتنی ہی بات کہہ کر خاموش ہو جاتا۔ لکھنے کے دوران دائیں آنکھ قدرے زیادہ بند ہو جاتی اور کبھی کبھار آنکھوں کی پتلی اوپر کو اُٹھتی اور ساکت ہو جاتی۔ وہ انہیں تکتا رہا۔ ایک کے بعد دوسرا مریض دوسرے کے بعد تیسرا۔۔۔ آخری مریض فارغ ہونے کو تھا کہ اقبال صاحب نے سلیقے سے سجی چائے کی ٹرے لا کر اُن کے پاس رکھی اور ادب سے باہر چلے گئے۔ مریض کے جانے کے بعد اُس کے مُراد نے چائے کی پیالی اُس کی طرف بڑھائی۔ شکریہ کہہ کر اُس نے چائے کی پیالی تھامی اور کہا۔ آج صبح اخبار میں آپ کا کالم دیکھا۔ یہ پڑھ کر کہ میں جانتا ہوں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہے۔۔۔ ایک کیفیت طاری ہوگئی۔

          اُس کی بات سن کر مسکرائے اور ناگپور سے ایک مائی صاحبہ کی آمد کی بابت بتایا۔ کس طرح اُن کےآنے سے پورا گھر روشن ہو گیا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ درو دیوار سے روشنیاں پھوٹ رہی ہوں۔ اُن سے بہت سی باتیں ہوئیں۔ جب وہ جانے لگیں تو میں نے اُس نے عرض کیا کہ کوئی نصیحت فرمائیں۔ انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور انگلی اُٹھا کر کہا۔۔۔ رب راضی تے سب راضی۔۔۔ اور کہا۔۔ مزے کرو تم سے تمہارا رب راضی ہے۔

          فرمایا۔ جب بندے سے اُس کا رب راضی ہو تو وہ ناخوش کیسے رہ سکتا ہے۔ بھئی رب راضی ہو تو بندے کو مست ہی رہنا چاہئے۔۔۔۔۔بات سُن کر مرید کو اتنا اچھا لگا کہ وہ بے اختیار ہنس دیا اور کہا۔ آج مجھے یہ خیال آرہا تھا کہ ہمارے سلسلے کی مثال نظام شمسی کی سی ہے۔جیسے سورج میں روشنی عمل انشقاق و احتراق کے سبب ہوتی ہے اسی طرح حضور ﷺ اللہ کی تجلیات سے روشن اور منور ہیں اور جیسے سورج کی روشنی چاند کو روشن کرتی ہے اُس ہی طرح نورِ نبوت سے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ جگمگا رہے ہیں اور آپ اسی چاند کی چاندنی ہیں۔ مرید کی یہ بات سُن کر اُس کا مراد



ہنس دیا اور کہا آپ نے تو سورج چاند ستارے اپنے ہی گھر میں جمع کر لئے۔ مرید اپنے مراد کی ہنسی سے شہہ پا کر اور بھی شیر ہو گیا اور مزید وثوق سے کہا۔ میں تو کچھ ایسا ہی سمجھا ہوں۔ اس پہ انہوں نے بتایا کہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ سے ملنے کے بعد انہیں کبھی کوئی مرعوب نہیں کر سکا۔

          فرمایا۔ بھئی ہم اپنے مرشد کے سامنے اپنا ذہن استعمال نہیں کیا کرتے تھے۔ایک بار انہوں نے بازار سے کچھ لانے کو کہا اور بتایا کہ دو روپے میں آئے گی۔ ہم بازار گئے ۔ دکاندار نے پونے دو روپے طلب کئے۔ ہم وہ چیز لئے بنا ہی واپس آگئے کہ صاحب دو روپے کی نہیں ملتی ۔ وہ پونے دو کی دے رہا ہے۔۔۔ کیا حکم ہے؟ جب کہ لوگ وہی کرتے ہیں جو اُن کا دل چاہتا ہے ۔ مرید نے سوچا ہم پیر و مرشد کی باتوں میں سے اپنے لئے صرف وہی پسند کرتے ہیں جو ہمیں پسند ہوتی ہیں۔ ہم یہ خیال رکھنا سیکھ جائیں کہ اُن کو کیا پسند ہے تو ہمارا نصیب ہی نہ سنور جائے۔


 

 


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔