Topics
واپس پشاور پہنچ کر گلبہار تھانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ اپنے گھر چلا گیا کہ صبح دیکھیں گے۔ کم از کم ضمانت وغیرہ کا بندوبست کر کے ہی جاؤں گا۔ صبح ہوئی تو وہ اپنے دفتر پہنچا ۔ ابھی وہ بیٹھا سوچ ہی رہا تھا کہ ضمانت کے لئے کس سے کہے کہ دو پولیس والے آن دھمکے۔ اُس سے اسی کی بابت پوچھا۔ کہ وہ کہاں ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ اسے گرفتار کرنے آئے ہیں۔ اُس نے بے بسی سے سوچا ابھی تک تو وہ کوئی بندوبست نہیں کر سکا تھا اب وہ کیا کرے۔ اُس نے اُن کے ساتھ جانے کی ہامی بھر لی اور ایک فون کرنے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے کہا۔ شوق سے۔
اب وہ سوچ میں پڑ گیا کس کو اطلاع دوں؟۔ گزشتہ رات سے اُس وقت
تک وہ کسی نتیجے پہ نہ پہنچ سکا تھا تو اب کیا پہنچتا۔ اُس نے سر کھجایا اور اپنی والدہ
کا نمبر ملا کر اُن سے بات کی۔ وہ کچھ عرصے سے اُن سے ناراض تھا اور اس ناراضگی کی
وجہ سے جب کبھی وہ بات کرنا چاہتی تھیں تو وہ کر لیا کرتا لیکن خود فون کر کے بات کئے
اُس کو اک مدت ہو گئی تھی۔شاید ماں کو دکھ دینا ہی چاہتا تھا۔ اُس نے جب انہیں اطلاع
دی کہ پولیس اُسے گرفتار کرنے آئی ہے تو ماں نے پوچھا کیوں؟ ہوا کیا ہے؟ اب کیا ہوگا؟
اُن کی آواز میں دکھ اور لہجے میں پریشانی سے اُس کو اُس گم گشتہ محبت اور ممتا کا
احساس ہوا جس کی کمی کا رونا رو کر وہ اُن سے ناراض تھا۔ اُس نے فون بند کیا تو ایک
پولیس والے نے اُس سے پوچھا۔ یہ آپ نے کس کو فون کیا؟
اُس نے بتایا
کہ اپنی ماں کو۔ انہوں نے کہا وہ تو ہمیں آپ کی باتوں سے اندازہ ہو گیا تھا لیکن ہم
آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ آپ کو پوری دنیا میں اور کوئی نہیں ملا تھا جس کو آپ یہ
اطلاع دیتے۔ بوڑھی ماں کو آپ نے دکھ دے کر اچھا نہیں کیا۔ اُس نے کہا۔ میں جس کسی کو
بھی اطلاع دیتا۔ بات میری ماں تک ضرور پہنچتی اور اُس کو زیادہ دکھ ہوتا کہ میں نے
خود اُس سے بات کیوں نہیں کی۔ اب اور کچھ ہو یا نہ۔۔۔ کم از کم وہ دعاگو تو ہوگی کہ
اللہ اُس کے بیٹے کی سختی معاف کرے۔ میں ایک ناکردہ گناہ کی پکڑ میں ہوں۔ اب میں نے
دوستی میں ضمانت دی اور حال یہ ہے کہ آج تک مجھے اپنی ضمانت کے لئے کوئی بندہ نظر نہیں
آرہا۔
اُس کی بات سُن کر حوالدا امیر اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ساتھی سے کہا آؤ چلیں۔ وہ اُٹھ کر اُن کے ساتھ روانہ ہونے لگا تو وہ دروازے پہ رُک کر بولا ۔ آپ نہیں۔آپ یہیں بیٹھیں۔ آپ شام کو تھانے آجانا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ کون دوست ہے جو اپنی جان بچانے کو اپنے محسن کو ذبح کرنا چاہتا ہے۔ پیسے اُس نے کھائے ہیں تو بھرنے بھی اُسی کو چاہیئں۔یہ تو کوئی انصاف نہ ہوا کہ کرے کوئی بھریں آپ۔ پھر وہ پلٹا او ر کہا۔ ہاں اپنی والدہ کو ابھی فون کر کے بتا دو کہ ہم نے اُن کی وجہ سے آپ کو گرفتار نہیں کیا۔
شام کو وہ تھانے
گیا۔ وہاں امیر محمد سے بات ہوئی۔ اُس نے بتایا کہ وہ ائندہ پیشی پہ عدالت چلا جائے۔
اتنی دیر میں وہ اصل قرض خواہ کو سمجھا کر وہاں لے آئیگا۔ جب اُس نے کہا کہ اُس کو
کوئی نہیں سمجھا سکتا تو حوالدار نے ترپ کر کہا۔ اللہ تو سمجھا سکتا ہے۔ میں اُس کو
کہہدوں گا کہ تم آجاؤ۔ میں ریڈر سے کہہ کر تمہیں قسطیں کروا دوں گا ورنہ میں یہ رقم
کسی اور سے بھروا کر اُس کو ایسا سبق سکھاؤں گا کہ وہ تو وہ اُس کی اولاد بھی یاد رکھے
گی۔ وہ اسی لئے کر رہا ہے کہ وہ آپ کو کمزور دیکھتا ہے۔ جب اُسے معلوم ہوگا کہ آپ کمزور
نہیں تو بات ضرور مانے گا۔ باقی اللہ مالک۔
وہ حیرت میں
ڈوبا۔ اپنے مُراد کی ہدایت کہ آپ تھانے ضرور جانا۔۔۔ پہ غور کرتا۔ گھر کو چل دیا۔ ایک
ہی ہلے میں وہ اپنی ماں سے راضی ہوا۔۔۔ مقدمے سے جان چھوٹی۔۔ دوست کے کئے کی سزا اور
کوفت سے بچا۔۔۔ اور ایک ایسا اچھا انسان دوست بن گیا جو کسی بے کس کے ساتھ مردوں کی
طرح کھڑا ہونا اپنا فرض سمجھ رہا تھا۔۔۔ اورتم اللہ کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُس
نے زندگی کو اس سے پیشتر کبھی اتنا سہل اور خوشگوار کہاں پایا تھا۔
ایک روز وہ
گھر پہ لیٹا چھت کو تک رہا تھا اور سوچ میں تھا کہ وہ اپنے مُراد کی خوشنودی کے حصول
کے ایسا کیا کر سکتا ہے جو اُنہیں اتنا اچھا لگے کہ وہ اُسے اپنے قریب کر لیں۔ اچانک
اُس ذہن میں ایک سرگوشی ابھری اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اُس کے دھیان میں اپنے مراد
کی ایک بات آئی۔ انہوں نے ایک بار فرمایا تھا کہ اخبارات میں مضامین آنے سے لوگوں کو
روحانی علوم کے حوالے سے آگاہی ہوگی تو اس سے سلسلے کو تقویت ملے گی ۔ اُس نے انہی
خطوط پہ سوچنا شروع کر دیا۔
اک مضمون لکھ ہی لیا اور اُسے ایک اخبار کو بھجوا دیا۔ اس کو
یقین نہ تھا کہ وہ مضمون چھپ جائے گا۔ پھر ایک دن جب دفتر سے گھر آیا تو اُس کے ایک
جاننے والے نے اُس کو اُس کا مضمون اخبار میں چھپنے کی مبارک باد دی تو اُسے بہت اچھا
لگا۔
اُس کا جی چاہا
کہ وہ مرشد کریم کو اس کی اطلاع دے لیکن وہ خود میں اتنا حوصلہ پیدا نہیں کر سکا تو
اُس نے نیاز صاحب کو فون کر کے اطلاع دی۔ انہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور پوچھا
کہ کیا اُس نے حضور بابا جی کو یہ بات بتا دی ہے۔ جب انہوں نے نفی میں جواب سُنا تو
کہا چلیں آپ فکر نہ کریں میں انہیں خود اطلاع دوں گا۔ پھر انہوں نے بتایا کہ لاہور
میں ایک روحانی کانفرنس کا اعلان کیا گیا ہے اور سلسلے کے سب افراد کو دعوت بھی دی
جا رہی ہے۔ چند ایک روز میں بابا جی بھی لاہور آجائیں گے۔
جب اُسے معلوم
ہوا کہ ابا حضور لاہور آچکے ہیں تو اُس سے رہا نہ گیا اور کانفرنس سے ایک دو روز قبل
ہی لاہور پہنچ گیا۔ لاہور بس اسٹینڈ سے قصور جانے والی بس پہ بیٹھ کر وہ آہلو روڈ پہ
لاہور مراقبہ ہال کا پتہ پوچھتا ہوا وہاں پہنچا۔ مراقبہ ہال کے وسیع میدان میں لگی
قناتوں کے اند ر بیٹھے وہ مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ جب وہ فارغ ہوئے تو وہ ملنے آگے
بڑھا۔ اُسے اپنی طرف آتا دیکھ کر اُٹھے۔ ابھی وہ اُٹھ ہی رہے تھے کہ منتظمین میں سے
کسی نے تعارف کرواتے ہوئے کہا۔ مقصود صاحب پشاور سے آئے ہیں۔
کے پیچھے پیچھے آرہے تھے نے اُس کو بازو سے پکڑ کر بے تکلفی
سے کمرے کے اندر جانے کا اشاراہ کیا۔ اندر داخل ہو کر حضور کمرے میں بچھے لکڑی کے تخت
پوش پہ بیٹھ گئے اور اس کے ہمراہ آنے والے دو تین افراد زمین پہ بچھی دری پہ بیٹھ گئے۔
اُس سے مخاطب
ہو کر فرمایا کہ فرنٹیئر پوسٹ میں آپ کے مضامین کا سلسلہ شروع ہوا نیاز صاحب نے بتایا
تو بہت اچھا لگا۔ مرید عرض گزار ہوا حضور میں تو آپ ہی کا لکھا اور کہا انگریزی میں
بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ فرمایا۔ ادب میں ایک آدمی کی چوری سرقہ اور دس بیس افراد
کے کاموں کو اپنے نام سے چھپوانا ریسرچ کہلاتا ہے۔ پھر بہت ہی نرم اور میٹھے سے لہجے
میں گویا ہوئے۔ چلیں اک چراغ اور جلا تو سہی۔ لہجے میں کچھ ایسی بات تھی کہ مرید کو
لگا کسی نے بہت سا کیف اُس کے اندر انڈیل دیا ہو۔ پہلے تو وہ سرقے اور ریسرچ کی اصطلاحات
کی شرح کا لطف لینے لگا لیکن یہ محسوس کر کے ششدر رہ گیا کہ انہوں نے اُس کے خانہ دل
کا چور پکڑ کر اُس کو اپنی نگارشات سے استفادے کی کھلی چھٹی دی ہے۔
پھر اگلی منزلوں
کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا۔ جب تک آپ اپنے قارئین کو involve نہیں
کریں گے وہ آپ کے مضامین پڑھ کر لطف تو لیں گے لیکن آپ کو خطوط نہیں لکھیں گے۔ بھئی
میں بھی پہلے آپ ہی کی طرح مضامین لکھا کرتا تھا اور یہ بات اسی تجربے کی روشنی میں
کہہ رہا ہوں۔ مرید ابھی پہلی بات کے سرور سے باہر نہیں نکلا کہ انہوں نے 'آپ کی طرح'
کہہ کر اُسے لطف و انبساط کی ایک آبشار کے نیچے کھڑا کر دیا۔
پھر دیکھنے
کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ہم بکری کو نہیں دیکھتے۔۔۔ بلکہ بکری کے دیکھنے
کو دیکھتے ہیں۔ ہم اپنے
رہتی ہے۔ وہاں جو بھی عکس ابھرتا ہے ہم اُسی کو دیکھتے ہیں خواہ
وہ کسی بیرونی مہیج کے زیر اثر بنے یا کسی باطنی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہو۔
ایک بات مزید
یہ ارشاد فرمائی کہ دنیا غلاظت ہے اور لوگوں کو نہ جانے کیوں سمجھ نہیں آتی۔ آیت الکرسی
پڑھتے ہیں تو دنیا کی طلب میں، قرآن کی آیا ت کی تلاوت کرتے ہیں تو دنیا کے مانگنے
کو اور اگر روحانیت سیکھنے آتے ہیں تو حصول دنیا کے لئے۔ خدا کے نور سے غلاظت سمیٹنے
پر لگے ہوئے ہیں۔
مرید کو لگا
انہوں نے اُس کی ننگی خواہشوں پہ اک تازیانہ رسید کیا ہے۔ وہ سہم گیا لیکن اُس کے اندر
کا گنہگار اور پاپی من اڑ گیا۔ اُس نے کہا ” حضور اب آپ کے سامنے کیسے عرض کروں کہ
یہ بات بھی تو ہمارے بزرگ ہی ہمیں بتاتے ہیں کہ اتنی مرتبہ آیت الکرسی پڑھو تو شادی
ہو جائے گی اور قرآن کی فلاں آیت اتنی بار اس اس وقت پڑھو تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا
اگر لوگ روحانیت سیکھنا چاہتے ہیں تو صرف اس لئے کہانہیں یہی بتایا جاتا ہے کہ روحانیت
سیکھنے سے ماورائی طاقتیں حاصل ہوتی ہیں، انسان کی دعائیں قبول ہوجاتی ہیں۔۔۔ وہ مٹی
کو سونا بنا سکتا ہے۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں ہم کریں تو کیا کریں۔
تک محض اس لئے آغاز کئے کہ لوگ کسی طور تو مائل ہوں۔ جب لوگ
مائل ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں دنیا سے ہٹا کر مالک کائنات کی طرف متوجہ کرنے لگ جاتے
ہیں۔ لیکن یہاں تو کچھ عجیب ہی ہوا اب لوگ اسی طرف ہی مائل ہوتے ہیں اللہ کی طرف توجہ
نہیں ہوتے۔ بھئی جس اللہ کے کلام کو پڑھ کے آپ کا مسئلہ حل ہوا اُس کو اللہ کی طرف
توجہ کرنا کتنا سود مند ہوگا۔ لیکن ہم تو دنیا کو ہی سب کچھ مان کر اُس کے کلام کو
حصول دنیا کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
مرید نے پہلے
تو دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ اُس کی گستاخی پہ اُس کی پکڑ کی بجائے انہوں
نے اتنی شفقت سے اُس کوسمجھایا کہ اب اس دنیا کی بجائے دنیا کے مالک کی طرف توجہ ہو
جانا چاہئے۔
پھر ایک حکایت
سنائی کہ ایک بار ایک بادشاہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ جس کا جو جی چاہے وہ اُس کمرے
میں موجود کوئی بھی ایک چیز اُٹھا لے۔ وہ اُس کی ہو جائے گی سب اِدھر اُدھر دوڑے۔ کسی
نے قالین لپیٹا، تو کوئی دربار میں رکھے سامانِ آرائش کی طرف لپکا، کسی نے سونےچاندی
کے ظروف اُٹھائے تو کسی نے شاہی شمع دان۔ لیکن ایک کنیز سب سے بچتے بچا تے بادشاہ کے
قریب ہوئی اور اُس نے بادشاہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ بادشاہ نے دریافت کیا۔۔۔یہ کیا؟
اُس کنیز نے
کہا۔ جہاں پناہ آپ نے اجازت دی کہ اس کمرے میں سے جو جی چاہے لے لو۔ سو میں آپ کی خواستگار
ہوں۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔
فرمایا اسی طرح ہم بھی اللہ کی بنائی چیزوں کی تو قیمت لگاتے ہیں اللہ کی قیمت نہیں لگاتے۔ اگر ہم اللہ کی قیمت لگائیں گے تو یہ دنیا تو خیر بہت ہی چھوٹی اور بے مایہ چیز ہے اللہ کی پوری کائنات ہمارے آگے سر نگوں ہوجائے گی۔
مرید نے سمجھ لیا کہ دنیا کو غلاظت کہہ کر انہوں نے انہیں یہی
سمجھایا ہے کہ دنیا کی بجائے دنیا اور کائنات کے خالق کی طرف متوجہ ہونے میں بھلائی
ہے۔
فرمایا اللہ
تعالیٰ نے ر آدمی کے disposal پہ بیس ہزار فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ اب جیسے کسی نالائق
افسر کے ماتحت بے کر رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں اس طرحجو لوگ اپنے فرشتوں سے کام لینا
نہیں جانتے وہ اُن کو بھی بے کار کر دیتے ہیں۔
جو لوگ اپنے
فرشتوں سے واقف نہیں وہ کتنے بھی بڑے ہو جائیں ، دنیا میں کتنے ہی بڑے نظر آئیں۔۔۔
در حقیقت اتنے بڑے ہوتے نہیں۔ اصل میں تو یہ بہت چھوٹے لوگ ہوتے ہیں۔ سیاسی لوگ تو
خاص طور پر بڑے پن سے خالی ہی دیکھے ہیں۔ بڑے لوگ اول تو سیاست میں آتے ہی نہیں اور
اگر کبھی انا بھی چاہیں تو کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب آپ مولانا طاہر القادری ہی کی مثال
لے لیں وہ ایک عالم آدمی ہیں۔۔۔ ایک عالم کے بیٹے ہیں۔۔۔ قرآن کے حوالے سے انہوں نے
بہت کام کیا۔۔۔ لیکن جب وہ سیاست میں آگئے تو اتنے مشہور ہونے کے باوجود کامیاب نہ
ہو سکے۔ بھئی لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک عالم آدمی ہے ہم اس کے پاس مسئلہ لے کر جائیں گے
تو یہ اُلٹا ہماری اصلاح کرنے بیٹھ جائے گا۔۔۔ اب ایسے کو کوئی ووٹ کیوں دے گا۔ اپنی
اصلاح تو کوئی کروانا ہ نہیں چاہتا۔ اس لئے کبھی کسی کی اصلاح کرنے کی کوشش بھی نہیں
کرنی چاہئے۔
میں ذاتی طور
پر یہ سمجھتا ہوں کہ آج پوری امت مسلمہ کا یہ مسئلہ کینسر کی صورت اختیار کر چکا ہے
کہ ہر آدمی دوسرے کی اصلاح کرنے پہ تلا ہوا ہے لیکن اپنی اصلاح سے بے خبر ہے۔ اللہ
ہم پہ رحم کرے۔
اتنے میں دروازہ کھلا ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور دستر خوان بچھایا گیا وہ اُٹھ کر باہر جانے کو ہلا ہی تھا کہ میاں صاحب نے اُس کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ آپ کھانا ہمارے ساتھ یہیں کھایئے۔ اُس نے شکر گزاری سے دیکھا کہ انہوں نے اُس کو اپنے مراد کے ہمراہ دستر خوان پہ بیٹھنے کی سعادت ایک با مزید عطا کی۔
وہ اپنے مراد کے حضور سر جھکائے بیٹھا محسوس کر رہا تھا کہ اُس
کا مُراد اُس کو دیکھ رہا ہے۔ چند ساعتوں بعد اُس نے احساس کی تصدیق کو سر اُٹھائے
بغیر اُن کی جانب نگاہ کی۔ وہ واقعی اُسے دیکھ رہے تھے۔ اُن کی آنکھوں میں دیکھنے کا
اُس کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ نگاہ کو فوراً جھکانے کے باوجود وہ ممتا کی روشن لہروں کو
اپنے وجود کو بھرتے محسوس کر رہا تھا۔ کھانے کے بعد وہ وہاں ہٹ گیا۔
دوسرا دن کانفرنس
کی تیاریوں میں مصروف لوگوں کو دیکھتے ، ارد گرد کے علاقوں سے آئے سلسلے کے لوگوں سے
ملتے ملاتے اُن سے گپ شپ کرتے گزرا۔ اس دوران کبھی کھانے پہ تو کبھی سیر پہ جاتے اور
کبھی شام کو۔۔۔ جب سب اُن کے گرد جمع ہو کر اپنے مراد کی باتیں سنتے تو۔۔۔ وہ بھی ہجوم
عاشقاں کا حصہ بنا یہ سب دیکھتا اور سُنتا رہتا۔
تیسرے روز صبح
مراقبے کےآغاز پہ یا حی یا قیوم کا ذکر جہری کراتے ہوئے حضور نے کسی صاحب کو ٹوکا کہ
ناک سے آواز نکالنے پر جنجنھاہٹ پیدا ہوتی ہے اس لئے ناک سے آواز نہ نکالیں۔
مراقبے کے بعد خود درس دینے کے بجائے مرید سے کہا کہ وہ تصورِ شیخ پہ بات کرے۔ مرید نے مراقبے کی کیفیت کے زیرِ اثر موضوع کی بابت سوچنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے سامنے دیکھا۔ اتنا بڑا کمرہ لوگوں سے کچھا کھچ بھرا دیکھ کر اُس کو بہت اچھا لگا کہ اتنے بہت سے لوگوں کے سامنے اُس کو اپنے مراد کے کہنے پہ بات کرنے کا اعزاز ملا ہے۔ اُس نے بات کا آغاز کیا۔ دوستوں کے سامنے کسی موضوع پہ گھنٹوں اظہار خیال کرنا اور مرشد کریم کی موجودگی میں سینکڑوں افراد کے سامنے کچھ کہنے میں جو فرق ہے وہ آڑے آرہا تھا یا اعزاز کا افتخار سد راہ ہو رہا تھا۔۔۔ وہ چند ایک بے ربط ٹوٹے پھوٹے جملوں کے بعد ہی لڑکھڑا گیا تو انہوں نے خود ہی بات کا آغاز کر دیا۔
تصورِ شیخ کے بارے میں وضاحت سے بتایا کہ انسان میں معین مقداریں
کام کرتی ہیں۔ انسان ہی نہیں بلکہ ہر شے میں معین مقداریں کام کرتی ہیں اور یہ سب ایک
سسٹم کے تحت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آم کے درخت پہ صرف آم اور سیب کے درخت پہ صرف سیب
ہی لگتے ہیں۔ انسان میں تین باتیں ایسی ہیں جن کی بنا پر اُسے دوسروں پہ فضلیت حاصل
ہے۔ معین مقداروں کا علم رکھنا، انہیں استعمال کی صلاحیت رکھنا اور انہیں استعمال کر
سکنا۔ اچھائی برائی کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ سسٹم کو چلانے کا علم رکھنا اور صلاحیت
رکھنا۔ یہ سارا سسٹم لہروں پہ قائم ہے۔ تصورِ شیخ مرشد کے اندر کام کرنے والے انوار
یعنی لہروں کو اپنے اندر منتقل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس میں مرید کا ذہن اگر تصویر
کشی میں مصروف ہو جائے تو یہ درست نہیں بلکہ یہ ایک قسم کی بت پرستی ہو گئی۔ اس کا
درست طریقہ خود کو مرشد جیسا سمجھنا ، خود کو مرشد کی جگہ رکھ کر سوچنا ہے۔ مرشد کے
تصور میں مستغرق ہونے اور محض مرشد کی تصویر کو ذہن میں ابھارنے میں جو فرق ہے اُس
کو سمجھانے کو ماں کی طرزِ فکر کا بچے کو منتقل ہونے کی مثال دی۔ فرمایا کہ بچہ وہی
زبان بولتا ہے جو ماں بولتی ہے۔ بچہ انہی طرزوں میں سوچتا اور بات کرتا جن طرزوں کو
اپناتا ہے۔ اگر آپ اپنے مرشد سے متاثر ہو کر اُس کی طرزِ فکر کو اپناتے ہیں تو تصورِ
شیخ کے تقاضے پورے ہونے کی سبیل بن گئی۔
مراقبے کے بعد وہ تمام دن نادم اور خجل اِدھر اُدھر ہوتا رہا کہ وہ عین موقعے پہ بات کیوں نہیں کہہ پایا۔ وہ سب سے نظر چرائے پھرتا۔۔۔ خود کو کوستا رہا۔۔ شام کو حضور کچن کے پاس چارپائی پہ بیٹھے تھے کہ ڈاکٹر ممتاز اٹک سے پہنچ گئے۔ وہ مرشد کریم کے ساتھ چارپائی پرپائتنی کی طرف ادب سے نگاہ نیچی کئے بیٹھے تھے کہ اُ ن سے تصورِ شیخ کی بابت کچھ کہنے کو کہا۔ انہوں نے اس بارے میں کافی دیر بات کی کہ تصورِ شیخ سے مرید کو مرشد کی طرزِ فکر حاصل ہوتی ہے وہ مراقبہ تصور شیخ کے فوائد گنواتے رہے۔ جب آپ نے ہاتھ اُٹھایا تو وہ خاموش ہو گئے۔
وہ موقع کی تاڑ میں تھا۔ اُس نے قریب ہو کر اپنی صبح کی ناکامی
کے حوالے سے معذرت کی۔ انہوں نے صرف اتنا فرمایا۔ کوئی بات نہیں ایسا ہو جاتا ہے۔ اگر
دھیان کو موضوع پہ رکھا جائے تو اللہ تعالیٰ ذہن میں بات ڈال دیتا ہے اور وہاں سے اُٹھ
کر وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیئے۔وہ ادب سے ایک طرف ہٹ کر کھڑا یہ سوچتا رہا کہ انہوں
نے ایک ہی جملے میں کس خوبصورتی سے نہ صرف اُس کو فنِ تقریر و خطابت کا ایک زرین اصول
تعلیم فرمایا بلکہ اُس کواحساس ندامت سے بھی
مکت کر دیا ہے۔
اگلے روز روحانی
کانفرنس میں پانچ چھ سو افراد کی شرکت کا منظر دیکھتے وہ شرکا کی تقاریر سے محظوظ ہونے
کی کوشش کرتا رہا لیکن اُس کو کوئی بھی متاثر نہیں کر رہا تھا۔ پھر جب انہوں نے مائک
سنبھالا تو وہاں سبھی لوگ اس قدر منہمک ہو گئے کہ کسی کو وقت گزرنے کا احساس تک نہ
رہا۔ روحانیت کا پھیلاؤ جس کا مشن ہو وہ اس کو محض ایک تقریر کا موضوع مان کر بات کرنے
والوں کی نسبت
کس قدر خلوص سے بات کرتا ہے۔ وہاں موجود سبھی اس فرق کو سمجھ
بھی رہے تھے اور اُس سے متاثر بھی ہو رہے تھے۔
بعد میں اُس
نے کئی افراد کو سلسلے میں شمولیت کے خواہش لئے داخلہ فارم بھرتے اور اس میں شامل ہونے
کی بابت دریافت کرتے دیکھا۔
لاہور سے واپسی
کے بعد بھی وہ خود کو ایک عجیب سے کیف و سرور کی کیفیت میں ڈوبا ہوا پاتا رہا۔ چند
روز اسی کیف اور سرور میں گزار کر وہ رفتہ رفتہ زندگی کے معمولات کی طرف لوٹتا چلا
گیا۔
رونمائی لندن میں طے ہونا پائی ہے۔ اُس نے بہت للچا کر پوچھا۔
اُس کو وہاں شرکت کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ خالد نیاز نے کہا وہ ابا حضور سے بات کر کے
بتائیں گے۔
پھر پیغام ملا
کہ وہ ویزے کے لئے درخواست دے دے۔ وہ اسلام آباد گیا۔ اُس کو ویزہ نہ ملا۔ دل گرفتہ
وہاں سے واپس لوٹتے ہوئے اُس نے خود کو تسلی دی کہ ابھی تم بہت چھوٹے ہو جب بڑے ہو
جاؤ گے تو پھر لندن بھی دیکھ لینا۔ خود کو تسلی دیتے دیتے وہ الجھ گیا۔ اگر ویزہ نہیں
لگ سکتا تھا تو وہ مجھے سیدھے سبھاؤ سے منع کر دیتے۔۔۔۔ اس کوفت اور تھکن سے تو بچا
سکتے تھے۔ کئی روز وہ یونہی خود سے الجھتا رہا۔ ایک روز سلسلے کے ایک بھائی ملنے آئے
۔ اُن سے باتوں کرتے ہوئے وہ پھٹ پڑا۔
کسی نے میری
خوشی کو کچھ نہ کیا۔ کتاب ترجمہ ہوئی اور جب وہ چھپ گئی تو اُس کو دیکھنے اور اُس کی
لانچنگ میں شرکت نسیب نہیں ہو سکی۔ وہاں کے عظیمی بھائیوں نے مناسب انداز میں سفارت
خانے کو اطلاع دی ہوتی تو میرا ویزا لگ جاتا۔ میں خود اپنا ٹکٹ لیتا، وہاں خود اپنی
رہائش کا بندوبست کرتا۔ اللہ نے مجھے یہ سعادت دی تھی۔ اس خوشی کو دیکھنے کا موقع دیا
لیکن سب آڑے آگئے۔ اُس کو سب پہ غصہ تھا، سفارت خانے کے لوگوں پہ بھی جنہوں نے اُس
کے خلوص اور جذبات کی بجائے اپنی مادی طرزوں میں سوچتے ہوئے اُس کی نیت پہ شبہ کیا
اور سب سے بڑھ کر وہ خود سے ناراض تھا کہ اُس نے ایسی خواہش کی ہی کیوں۔ انہوں نے اس
کو تسلی دینے کی بہت کوشش کی لیکن دلِ بے قرار کو رونے کا بہانہ چاہئے تھا اور وہ اس
بہانے سے پہلو تہی نہیں کر رہا تھا۔
دے رہا تھا کہ اس کتاب لوح وقلم نے مغرب میں روحانیت کا دروازہ
کھول دیا ہے۔ اُس نے اُن کی آواز سُنی لیکن سمجھا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اُس
کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ چھوٹے بچے کی طرح روہانسی آواز میں بولا۔ مجھے ویزا نہیں
ملا۔
فرمایا۔ اس
میں کوئی مصلحت ہوگی۔
اس نے اُن کی
بات پہ غور کرنے کی بجائے کہا۔ جی ہاں اللہ کے یہاں مصلحتیں بھی تو بہت ہوتی ہیں۔ انہوں
نے اُس کو ڈھارس دینے کو فرمایا۔ آپ کی کاوش کا حضور علیہ الصلوٰۃ ولسلام نے پسند فرمایا
ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو پسند کیا۔ وہ اُن کی بات سُن
کہاں رہا تھا وہ تو اپنے مراد کی آواز سُن کر اس قدر بے خود ہو چکا تھا کہ وہ اپنے
آپ میں نہیں تھا۔ جذبات سے رُندھی آواز میں وہ اتنا ہی کہہ سکا۔ انہوں نے مجھ سے تو
ایسا کچھ نہیں کہا۔ آپ کو بتایا ہے۔ مجھے تو آپ اپنی پسندگی اور قبولیت کی اطلاع فرمائیں۔
آپ کو کیسا لگا؟
اس پہ انہوں
نے اُس کو دعا دی۔ اللہ آپ کو روحانی علوم عطا فرمائے۔ پھر کہا۔ فون کر کے خالد نیاز
کو بھی مبارک باد دے دیں۔ اُن کی کوششوں سے ہی یہ کتاب وقت پہ چھپ سکی ہے۔ پھر یہ بھی
بتایا کہ لندن میں انگریزی بولنے والوں کے لئے مراقبہ ہال قائم کر دیا ہے۔
تھا اور وہ دوبارہ ہشاش بشاش محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے خالد
نیاز کو دو چار بار اپنی کیفیات سُنا کر بتایا کہ وہ اتنا بھی نہیں رونے دیتے ہ بندہ
رو رو کر ہی ہلاک ہو جائے۔
جب اُسے معلوم
ہوا کہ ابا لندن سے واپس آگئے ہیں تو کراچی جا پہنچا۔ انہوں نے اُسے گلے لگایا۔ اُس
کا ماتھا چوما۔ جب بیٹھ گئے تو فرمایا۔ بھئی آپ وہاں نہ آ سکے۔ اس کا مجھے افسوس ہے۔
وہاں سب نے آپ کی کمی محسوس کی۔
اُس نے کوئی
ایسی ویسی بات کہنے کی بجائے انہی کی کہی بات کی آڑ لیتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں اس
میں کوئی مصلحت ہوگی۔
فرمایا۔ ہاں
شاید ابھی حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ آپ کو سامنے نہیں لانا چاہتے۔
اس سے رہا نہیں
گیا اور اُس نے پھٹ سے کہہ دیا۔ جی ہاں کیونکہ ابھی میں بہت چھوٹا ہوں نا۔
اُس کا مُراد
اُس کے احساس کمتری اور کم مائیگی کو قبول کرنے پہ آمادہ نہیں تھا۔ یک دم تیزی سے کہا۔
اجی چھوٹا ووٹا کچھ نہیں ہوتا۔ تلسی داس کہہ گئے ہیں۔ مورکے پنکھ چتھے چتھائے ہوتے
ہیں۔
مرید نے دریافت
کیا۔ یہ چتھے چتھائے کیا ہوتے ہیں؟
فرمایا مور
کے پروں پر اُن کے اُگنے کے بعد ٹھپا نہیں لگایا جاتا بلکہ اُن کے رنگ اور ڈیزائن مور
کے خون میں لہروں کی شکل میں شروع سے ہی گردش کرتے ہیں۔ پر کی ایک ہڈی سی اگتی ہے۔۔۔
جب خون گردش کرتا ہوا اُس میں داخل ہوتا ہے تو رنگوں کی لہروں کا تانا بانا پروں پر
اپنے مخصوص پیٹرن میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔
ہو۔کسی قسم کا ملال یا کدورت دل میں رہے تو وہ جونک کی طرح اندر
ہی اندر بندے کی خوشیوں کا خون چوستے رہتے ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں مرشدِ کامل مرید
کے نفس کی مہار تھام لیتا ہے اور اُسے زیست کی ان کٹھنائیوں بھری راہ سے ایک ماہر سا
ربان کی طرح یوں بچاتے ہوئے گزار دیتا ہے کہ اُسے اُس وقت یہ خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ
کیسی عمیق کھائیوں میں گرنے کو تھا۔بہت بعد میں جب شعور ترقی کر کے اس قابل ہوتا کہ
وہ محسوس کر سکے کہ اُس پہ کتنا کرم ہوا تھاتو روح سرشار ہو جاتی ہے۔
مرید اپنے مراد
سے اُن کے دورہ انگلینڈ اور کتاب کے حوالے سے اُن کو مبارک باد دی تو وہاں کی گئی تقریر
کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے تقریر اردو میں کی اور انگریز حاضرین کے لئے اُس کا
ترجمہ انگریزی میں ساتھ ساتھ کیا گیا۔ فرمایا۔ مترجم کو اتنی اردو آنی چاہئے جتنی مقرر
کو آتی ہے اور پھر اُس کو اتنی ہی انگلش آنی چاہئے جتنی سامعین کو آتی ہے اور پھر اُسے
موضوع اور مضمون کے مفہوم کی اتنی ہی آگاہی ہو جتنی مقرر کو ہے یعنی مترجم میں تین
صلاحیتیں ہوں تو وہ ایک اچھا مترجم کہلائے گا۔
پھر بتایا کہ
وہاں ایک صاحب نے اُن سے انٹرویو لیا۔ مترجم کے ذریعے آواگوان کے بارے میں بہت دیر
بات ہوئی۔ لیکن وہ مطمئن نہ ہو سکے تھے۔ فرمایا۔ دیکھیں نا میں نے کہا۔ چار جمع چار
آٹھ ہوتے ہیں۔ اب اس کا ترجمہ بھی ایک ہی جملے میں ہونا چاہئے۔ یہ تو نہیں کہ آپ ترجمہ
کچھ یوں کریں کہ دو جمع دو۔۔۔۔ چار ہوئے ۔۔۔چار میں دو دفعہ دو جمع کریں تو آٹھ ہوں
گے۔ یہ تو بات ہی بدل گئی۔ مترجم کو بات کی تشریح تو کرنا نہیں۔ اُس کو تو صرف ترجمہ
کرنا چاہئے۔
مکھیوں کی بہتات
دیکھ کر فرمایا۔ ذمہ دار اداروں سے بات کرو تو جواب ملتا ہے ، کیا کریں جی۔۔۔سیزن ہے۔
پھر ارشاد ہوا۔ ہم بھی کیا اذیت پسند ہیں۔ بھئی یہ اذیت پسندی
ہی تو ہے کہ اتنی گرمی میں گھر بار چھوڑے یہاں آ بیٹھے ہیں۔ گرمی ستا رہی ہے۔۔ مکھیاں
پریشان کر رہی ہیں۔۔۔ مچھر رات بھر سونے نہیں دیتے۔۔ پھر بھی یہاں پڑے ہیں۔
پھر تبسم ریز
لہجے میں فرمایا۔مجھے تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آدمی جنت میں ستر ستر حوریں کیسے
سنبھالے گا۔ یہاں ستر مکھیاں لپٹ جائیں تو آدمی بلبلا اُٹھتا ہے۔ شاید مسلمان اسی لئے
مکھیوں کو سہنے کی پریکٹس کرتے ہیں کہ وہاں دشواری نہ ہو۔
طنز میں مزاح
کی ایسی لطافت ۔۔۔ اور مزاح میں طنز کی ایسی کاٹ۔۔۔ وہ عش عش کر اُٹھا۔
دریافت کیا
۔ حضور جنت میں کون کون سے پرندے اور جانور ہوں گے۔
فرمایا۔ بھئی
پرندے تو ہوں گے جانوروں کی بابت سعیدہ باجی سے دریافت کریں وہ دیکھ چکی ہیں۔ بعد میں
باجی سعیدہ نے دریافت کرنے پر بتایا کہ مور اور دیگر خوبصورت پرندے تو میں نے وہاں
دیکھے ہیں البتہ کوئی جانور نہیں دیکھا۔
جہاں چیزیں بے ترتیب ہوں، بہت سی ہوں اور شور ہو۔ اسی لئےفقیر
شور سے دور جنگلوں میں نکل جاتے ہیں اور کم از کم اشیا ہمراہ رکھتے ہیں۔
مرید نے سوچا
قرآن حکیم کے اس فرمان کہ وہ ایک آواز سے بجھ کر رہ گئے۔۔ کی اصل بھی تو یہی ہے کہ
وہ آواز اتنی تیز اور بلند آہنگ ہوگی کہ انسان کی ساری انرجی یک لخت ہی ختم ہو جائے
گی۔ صورِ اسرافیل بھی تو ایک آواز ہی ہوگی۔ اس کو خیال آیا ۔۔۔ کن بھی تو ایک آوا ہی
ہے لیکن وہ عطائے زندگی کا سبب۔۔۔ اور یہ شور اور صور خاتم حیات و موجودات۔۔۔ یہ ہونا
نہ ہونا۔۔ سب اک آواز ہی کا تو کھیل ہے۔۔ اک آواز سُن کر بندہ عدم سے وجود میں آتا
ہے اور دوسری آواز سے موجود معدوم ہو جاتے ہیں۔ یہ بقا و فنا اتنے قریب ہیں تو پھر
مابین کیا ہے؟
مراد گویا ہوا۔
بھئی یہاں کی زندگی تو اصل زندگی کی تیاری ہے۔ جو مرنے کے بعد شروع ہوگی۔ یہاں جو انرجی
ملی ہے وہ محدود ہے۔ آپ کتنا زندہ رہ لیں گے۔ ستر سال، اسی سال یا سو سال۔ اگر وہاں
کوئی مصروفیت نہ مل سکی تو زندگی جو لامتنا ہی ہے۔ اُس کو گزارنا تو عذاب ہی ہو جائے
گا۔
پوچھا کہ وہاں
مصروفیت ملنے سے کیا مراد ؟
فرمایا: بھئی
کوئی بھی کام جو دوسروں کے لئے کیا جا سکے۔
مرید نے جانا
کہ وہ تکوینی ڈیوٹی ملنے کی بات فرما رہے ہیں اُس نے چاہا کہ وہ منتخب ہونے کا طریقہ
پوچھے۔ اُس کے ذہن سے گزرا کہ یہ صلاحیت و طلب کی بنا پہ تو ہوتا نہیں۔ وہ ڈھیلے سے
لہجے میں بولا۔ یہ تو عطا کی بات ہوئی نا۔
بات کا رُخ دوبارہ دورہ انگلینڈ کی طرف ہوا تو علی اصغر کی بابت
پیار سے کہا وہ بھی کیا مسخرے ہیں ۔ پوچھا وہ کیسے؟
فرمایا۔ انگلینڈ
میں کافی دیر گھومتے پھرتے رہے میں نے اُن سے ایک دو مرتبہ چائے کا کہا مگر وہ جی بہتر
کہہ کر گول کر گئے تو میں نے کہا بھئی پانی ہی پلوا دو۔۔۔ تو کہنے لگے وہ دراصل یہاں
کے ہوٹلوں کے برتنوں کاکچھ ٹھیک سے پتہ نہیں کیونکہ یہاں لوگ اُن میں اُلٹی سیدھی چیزیں
استعمال رتے ہیں اور ہمیں یہ گوارا نہیں کہ آپ ان کے برتن برتیں۔ احتیاط کے چکر میں
وہ مجھے پیاسا رکھنے پر ہی تلے ہوئے تھے۔
اگلے روز جمعہ
تھا۔ صبح سوریرے ہی لوگ انا شروع ہوگئے۔ مراقبے سے فارغ ہو کر جب وہ ناشتہ کر چکے تو
وہ زیرِ تعمیر مسجد کی طرف جانے لگا۔ گیٹ پر جو بھائی ڈیوٹی دے رہے تھے ۔ وہ برے تپاک
سے ملے۔ اُن سے کافی دفعہ مل چکا تھا۔ انہوں نے اُس سے اپنی جگہ کھڑے ہونے کو کہا کہ
انہیں کسی کام سے جانا ہے وہ ایک دو گھنٹے م،یں لوٹ آئیں گے۔ ۔ وہ اُن کی جگہ گیٹ کیپنگ
کرنے لگا۔نماز کے لئے جاتے ہوئے۔۔۔ اُس کے پاس سے گزرتے۔۔۔ اُس کا مراد اُسے وہاں کھے
دیکھ کر مسکرایا اور فرمایا۔ تو آج آپ ڈیوٹی کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز چپراسی
کی ڈیوٹی ملنے والی بات اُس کے ذہن میں لہرا کر رہ گئی۔
مراقبہ ہال
میں کچھ وقت گزار کر جب سرشاری کا کیف دینے لگا تو مراد نے اُس کی توجہ اس جانب مبذول
کرنے کہا۔ یہاں وسوسے نہیں آتے؟ آپ 4-K کے سٹاپ تک چلے جائیں اور کسی چائے خانے بیٹھ کر آدھ
گھنٹہ گزاریں پھر دیکھیں۔
میں بیٹھ کر درجنوں پیالایں چائے پیتا اور بیسیوں سگریٹوں کا
دھواں اُڑاتے ادبی و شعری گفتگو میں مگن رہ کر گزارا کرتا تھا۔
مراد نے اُسے
اپنی نظر کی گہرائی کی بابت مطلع کرنے کو بتایا کہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ بہت
گہری نظر رکھتے تھے۔ میری ۱۹۴۸ء کی ایک تصویر دیکھ کر فرمایا خواجہ صاحب اس میں تو
سُرخ بالوں والی بسی ہوئی ہے۔ بتا کر فرمایا۔ سُن کر میرے تو پسینے آگئے۔ بھئی حضور
کی نظر بہت ہی گہری تھی۔
مرید نے اپنے
چھوٹتے پسینے کو پونچھتے ہوئے دل ہی دل میں سوچا آپ کی نظر کون سی کم گہری ہے۔ مراد
نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا۔
ہماری بیعت
کی شرائط میں یہ بات شامل تھی کہ کسی کے اندر جھانکیں گے نہیں۔ اسلحہ نہیں رکھیں گے۔
اپنے نام پر زمین نہیں لیں گے۔ سودی پیسوں سے کاروبار نہیں کریں گے، کسی کو جانی نقصان
نہیں پہنچائیں گے۔ اولاد کو نوکری نہیں کروائیں گے۔
لیکن آپ نے
تو ہم پہ تو ایسی ویسی کوئی شرط عائد نہیں کی۔ مرید نے دریافت کیا۔
جی ہاں! یہ
شرائط صرف میرے لئے ہیں۔ آپ کے لئے سلسلے کے قوائد و ضوابط ہیں نا۔ وہی آپ کی بیعت
کی شرائط ہیں۔
بھئی ہمیں دیگر سلاسل میں بھی بیعت کیا گیا تھا۔ شکر ہے کہ ابھی
تک ان شرائط پہ پورا اترا ہوں۔
احتراز کی حد تک ہی سمجھا تھا۔ انہوں نے ایک بار پھر اُسے اپنی
چھتنا اور شفقت کا احساس دلایا تھا۔
وہ اُسے ڈانٹ
کے یہ بھی تو کہہ سکتے تھے: میں بتا کیا رہا ہوں اور آپ سُن کیا رہے ہیں ۔۔۔اور اگر
یہ نہیں تو اتنا تو کہہ ہی سکتے تھے: کیا آپ کسی کے اندر جھانکنا آتا ہے جو آپ پہ کوئی
شرط عائد کی جائے؟ جب جھانکنا آجائے گا تو پھر کوئی شرط بھی عائد کر دی جائے گی۔
اُس نے سوچا
جو بات نہیں کہی جاتی بعض اوقات اُس کی اہمیت اور وزن کہی ہوئی بات سے بھی بڑھا ہوتا
لیکن اُسے تولے کون؟ جو لوگ کہی ہوئی بات ہی کو سُن رہے ہوں اُن سے ان کہی کے سننے
کی توقع رکھنا۔ ۔۔۔ ہوا میں مچھلی پکڑنے کے لئے کانٹا لگانے ہی کے برابر ہے۔
فرمایا: میری
تجویز ہے کہ سلسلے کے حوالے سے آئندہ پچاس سال کی پلاننگ کر دی جائے۔ اُس میں دس دس
سال کے پانچ دور ہوں اور ہر دور پانچ پانچ سال کے دو حصوں پہ مشتمل ہو۔ ایک وقت میں
صرف ایک حصے کے پلان کو نافذ کیا جائے۔ جب وہ پورا ہو جائے تو دوسرے حصے کو لے کر اُسے
نافذ کیا جائے۔ جب تک ایک حصہ پوری طرح نافذ نہ ہو جائے اُس وقت تک دوسرے حصے کو محفوظ
رہنے دیا جائے۔
اگلے روز مراقبہ
ہال کی اصل حدود دکھاتے ہوئے فرمایا یہ جگہ چھوٹی پڑ گئی ہے۔ اب مسجد کی تعمیر جلد
مکمل ہو جانی چاہئے۔ وہاں سے مسجد کی طرف چلے۔ وہاں وہ سلطان بابا اور خالد تارڑ سے
بات کر رہے تھے کہ اس اثنا میں اُس نے ایک ستون پہ ہاتھ رکھ کر جانے کیا سوچتے ہوئے
زور لگایا تو متبسم ہو کر پوچھا۔ ہلتا تو نہیں نا؟
چھت کو پانی دینے لگا۔تارڑ صاحب بنا کچھ کہے نیچے اترے۔۔۔ دیکھا
کہ حضور تشریف لائے ہیں۔ اُسے دیکھ کر فرمایا۔ چلیں مسجد کی تعمیر میں آپ کا بھی ہاتھ
لگ گیا۔
رات کھانے کے
بعد وہ مراقبہ ہال میں اپنے مراد کے ساتھ ٹہل رہا تھا۔ دس ساڑھے دس بج رہے تھے۔ اتنے
میں رکشے کی آواز آئی۔ دیکھا امی حضور تشریف لائی ہیں۔ وہ کچھ دیر قیام کے بعد واپس
گھر جانے لگیں تو آپ نے ناراضگی سے فرمایا۔ آپ اتنی رات گئے رکشے میں آئیں کیوں اور
اب واپس جانے کی کیا ضرورت ہے صبح چلی جائیں۔ جب انہیں بضد دیکھا تو رات کی ڈیوٹی پر
مامور ایک صاحب سے کہا انہیں گھر چھوڑ کر آئیں ۔ جب وہ چلی گئیں تو فرمایا۔ اس وقت
میری اتنی اچھی روحانی کیفیت تھی۔ شیطان کا اور کچھ بس نہیں چلا تو ان کے کان میں پھونک
مار دی اور یہ مجھے پریشان کرنے دوڑی چلی آئیں۔
پھر ایک پیر
صاحب کی بابت بتایا کہ ایک دن انہوں نے اپنے پٹھان مرید سے کہا کہ سودا سلف اُن کے
گھر دے آئے ۔ وہ عقیدت سے سامان اُٹھائے اپنے پیر و مرشد کے گھر پہنچا۔ وہاں ایک خاتون
نے اُن کا ستقبال کیا۔ چیزیں جو وہ لے کر آیا تھا۔ انہیں دیکھ کر بہت شور کیا۔ یہ بھیجا
ہے اُس مردودے نے۔ اُس کو کچھ پہچان نہیں کہ کیسی چیز خریدی جاتی ہے۔ اُس بڈھے کو جانے
کب عقل آئے گی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ میرے مرشد کی بیوی ہیں اور بہت نک چڑھی۔ اس لئے خاموش
ہو رہا لیکن جب وہ واپس اپنے مرشد کے پاس آیا تو تلملایا ہوا۔۔ لال بھبوکا ہو کر کہنے
لگا۔ وہاں آپ کے گھر پہ ایک عورت نے آپ کے لئے گندی گندی بات بولا۔ اگر اجازت ہو تو
میں اُس کا گلا دبا دوں۔ پیر صاحب ہنس دیئے اور کہا۔ ارے بھائی تو کیوں میری ولائت
کے پیچھے پڑتا ہے۔ آج مجھے یہ مقام اسی نیک بخت کو برداشت کرنے کے سبب ہی تو ملا ہے۔
کہ وہ ہر وقت دور بین لگائے مریدوں کو دیکھتا رہتا ہے۔۔۔ درست
نہیں۔۔ مرشد نہ ہوا کوک شاستر ہو گیا۔
مرید نے عرض
کی لیکن آپ نے تو ایک جگہ خود فرمایا ہے کہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ آپ پہ نظر
رکھتے تھے اور آپ کی نگرانی فرماتے تھے۔
فرمایا: تربیتی
پروگرام کے دوران ضرورت ہو تو خصوصی نگرانی کی جاتی ہے ہمہ وقت والی بات تو نہ ہوئی
نہ۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔