Topics
اُس نے خط پڑھا۔ اُسے کچھ سمجھ نہ آئی کہ اس خط میں تحریر کردہ
باتوں کا وہ کیا مطلب لے۔ اُس نے خط کو بار بار پڑھا۔ کئی بار پڑھنے اور کئی دن سوچنے
کے بعد اُس کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ انہوں نے بلاکم و کاست ، بغیر کسی فلسفیانہ گھماؤپھراؤ
اور بلا کسی تمہید کے اُس کو سیدھے سبھاؤ ایک بات تو یہ سمجھائی ہے کہ روح کی ذمہ داریاں
روح ہی کو پوری کرنے دو۔۔۔اپنی ٹانگ بیچ میں مت اٹکاؤ اور دوسرے یہ کہ جن سہاروں پہ
تم تکیہ کئے ہو وہ فریب دینے کے پابند ہیں لہذا باز آجاؤ۔۔۔ ورنہ تو تمہارا اللہ ہی
نگہبان ہو۔
اس سے پیشتر
اُس نے محبت اور شفقت کو الفاظ کے پردے میں ملبوس ہی دیکھا تھا اور وہ ممتا کو بھی
شعور کی انہی محدود طرزوں میں ناپنے تولنے میں لگا رہتا تھا۔ اس خط میں انہوں نے اُس
کے لئے اپنے دل میں موجود پیار کے اظہار اور دعوے کی بجائے ایک باپ کی سی آن اور شفقت
پدری کے ساتھ اُس کو بالکل سامنے کی بات نہایت سلیس اور سادہ انداز میں تعلیم فرما
دی تھی۔ روح کے تقاضوں اور اُس کی ضروریات کے حوالے سےایک گہرا ادراک اُس کے اندر بیدار
کرنے اور مادی جسم کی طرف سے توجہ ہٹانے کو اُس کو محبت ، شفقت اور ممتا کا یہ ڈھنگ
دکھا کر انہوں نے یہ بات بھی تعلیم فرمائی کہ فریب خوردگی جس کا وہ بہت ہی شاکی تھا۔۔۔
اُس سے بچنا خود اُسی کا فریضہ ہے۔
اُس نے اس خط کو اتنی بار پڑھا کہ متن کے الفاظ اُسے حفظ ہوگئے۔ پھر وہ اس طرف متوجہ ہوا کہ جو کچھ انہوں نے فرمایا وہ اُس پہ کیسے عمل پیرا ہو اور کون سے عملی اقدام کرنا واجب ہے۔ اُن کی کہی ہوئی بات کے حسن و خوبی کو محض سراہنے سے تو وہ مقصد کسی طور حاصل نہیں ہو سکتا تھا جس مقصد کے لئے انہوں نے وہ مرقومہ اُن کو ارسال فرمایا تھا۔
جب وہ اس طرف متوجہ ہوا تو اُسے محسوس ہوا کہ بات اتنی بھی آسان
نہیں۔ اگر یہ بات اتنی ہی آسان اور سہل ہوتی تو انہیں اس کو کہنے کا اتنا اہتمام ہی
کیوں کرنا پڑتا کہ اُس کو خط لکھ کر اس طرف متوجہ کرتے۔ رفتہ رفتہ اُس کو یہ اندازہ
بھی ہونے لگا کہ انہوں نے اُسے ایک ایسی راہ پر ڈالنے کا اہتمام کیا ہے جو ادب و فلسفے
کی نظریاتی مباحث کے میدانوں کی بجائے عمل کی وادیوں کی طرف جاتی ہے ۔ اُس کے اندر
کا تن آسان اور سہل پسند انسان بدکا اور بھڑک اُٹھا ۔ اُس بھڑکے ہوئے راہوار کو بہلا
پھسلا کر وہ اتنا آمادہ کر سکا کہ چلو اتنا کرتے ہیں کہ جب بھی وہ کھانا کھائے تو یہ
سوچے کہ یہ تن کھا رہا ہے کوئی اور اُس کے مادی تن کو کھانا کھلا رہا ہے۔
یہ طے کر کے
جب وہ کھانے پہ بیٹھا اور یہ بات دھیان میں آئی اور اس نے سوچا تو محسوس کیا کہ کھانا
کھانے کا عمل سب غیر اختیاری طور پر ہو رہا ہے۔ بات کرتے کرتے وہ سوچ میں پڑ جاتا۔
یہ بات جو اُس نے کہی وہ اُس نے کہی یا کسی نے اُس سے کہلوائی۔ تو اُس کو اندازہ ہوا
کہ اُس کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اب سے دو منٹ بعد وہ کیا کہے گا۔ لیکن وہ پھر بھی
بات جاری رکھتا۔
رفتہ رفتہ یہ بات اُس کا مشاہدہ بننے لگی کہ وہ جو کچھ کہتا، سنتا، دیکھتا اور کرتا ہے۔۔اُس کے کرنے میں اُس کا ہاتھ حصہ لے رہا ہوتا ہے اور وہ عمل اُس سے خود بخود سرزد ہو رہا ہوتا ہے۔ اب اُس کو مزہ آنے لگا۔ وہ کہیں جاتا اور راستے میں اچانک کوئی جاننے والا مل جاتا تو وہ پہلے کی طرح اُس کو اتفاق ماننے کی بجائے یہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگتا کہ وقت کی چلتی گراریوں میں وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کیسے آگئے۔ اگر وہ وہاں سے ایک منٹ پہلے یا بعد میں گزر رہا ہوتا تو اُس کو وہ صاحب کیسے ملتے ۔ اور اگر وہ وہاں سے ایک ساتھ گزرتے لیکن عین اُس لمحے وہ اُن کی طرف یا وہ اُس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تو وہ انہیں کیوں کر ملتا؟
ایک روز وہ اسی قسم کے خیالات کے بہاؤ کا لطف لیتا دفتر جا رہا
تھا کہ راستے میں اُس کو ایک صاحب مل گئے۔ وہ اُس کے کراچی جانے سے قبل اُس کے دفتر
ہی میں کام کرتے تھے۔ جب حالات نے کروٹ لی تھی وہ ہجرت کر کے کراچی چلا گیا تھا پھر
وہاں سے واپس آیا تو اس تمام مدت بعد آج اچانک اُن کو اپنے سامنے دیکھ کر اُسے اچھا
لگا۔اُس نے اپنے واپس آنے کی خبر اور اطلاع دینے کے بعد اُن کا حال احوال پوچھا۔ معلوم
ہوا کہ وہ کسی فیکٹری میں بطور جنرل منیجر کام کر رہے ہیں اور خوب ٹھاٹ میں ہیں۔ ایک
دوسرے کا پتہ لے کر وہ اپنی اپنی راہ ہو لئے۔
ایک روز وہ
اپنے کام کے سلسلے اُس کے دفتر آئے اور انہیں اپنی فیکٹری کا کام کرنے پہ آمادہ کیا۔
وہ اس کو منجانب اللہ انتظام سمجھ کر کام ملنے پہ خوش ہوتا۔۔۔ اُس کا کام کرتا رہا۔
کبھی کبھی وہ سوچتا کہ اُس روز اگر عین اُس لمحے جب وہ صاحب چلتی گاڑی میں
اُس کے پاس سے گزر رہے تھے، اُن کی نگاہ اُس پہ نہ پڑتی تو وہ
اُن کو علم ہی نہ ہوتا کہ وہ کراچی سے واپس آچکا ہے اور اُس کو ایسا کلائنٹ کیسے ملتا؟
پھر کام کے
سلسلے میں اُسے کراچی جانا پڑا۔ کراچی پہنچ کر کام نپٹانے میں مصروف رہ کر شام ڈھلے
وہ مراقبہ ہال پہنچ گیا۔ مراقبہ ہال پہنچ کر اُسے کچھ یوں محسوس ہوا گویا وہ اپنے گھر
پہنچ گیا ہے۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی اپنے کمرے کے باہر چارپائی پہ بیٹھے مراد نے
مرید کو دیکھا۔ اُسے اپنی چھتنار شفقت اور مسکراہٹ سے نوازتے۔۔۔ سر و قامت کھڑے ہو
کر اُسے اپنی آغوش میں لیا تو وہ بے خود ہو گیا۔
سب کا باری باری پوچھا۔ اُس کے گھر کی، کاروبار کی، بچوں کی، بیوی کی خیرو عافیت پوچھ کر نیاز صاحب قریشی صاحب اور دیگر سلسلے کے افراد کا پوچھا۔ اُس نے انہیں بتایا کہ ماشا ء اللہ وہ سب خیریت سے ہیں۔ اس طرح وہ کام کے سلسلے میں وہاں آیا ہے۔ اللہ نے کراچی آنے کا بہانہ بنا دیا سو وہ آگیا ہے۔
تبسم ریز لہجے
میں کہا۔ جی ہاں۔ جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے۔
کراچی مراقبہ
ہال میں مسجد کی تعمیر کے مراحل میں داخل ہو چکی تھی۔ ساتھ میں مراقبہ ہال کی عمارت
کی تعمیر بھی آغاز ہو چکی تھی۔اُس نے مبارک باد دی کہ تعمیر کا کام ماشاء اللہ تیزی
سے ہو رہا ہے۔
”آپ نے دیکھا۔۔۔۔اللہ
نے کرم کیا۔۔۔۔کام ہو رہا ہے۔۔۔۔قرضہ لینا پڑ گیا ہے۔“ مراد نے جواب دیا تو مرید نے
اپنے تجربات کی روشنی میں از راہ تبصرہ کہا۔ واقعی قرضہ کا بوجھ ہوتا ہے۔
ایک جھٹکے سے
فرمایا۔ اجی بوجھ ہوگا اللہ پر۔۔۔ مجھ پر کاہے کا بوجھ؟ اُس کا کام ہے۔۔۔وہ جانے قرضہ
جانے۔۔۔۔بھئی ہمیں کام دیا ہے۔۔۔وسائل دیئے۔۔۔۔جب کام مکمل ہو جائے گا تو لوگ کہیں
گے عظیمی صاحب نے کیا۔ کرتا اللہ ہے نام بندے کا کر دیتا ہے۔ بھئی وسائل اللہ ہی دیتا
ہے۔ حضور ﷺ تک نے ادھار لیا۔ اپنے لئے نہیں لیا۔ اللہ کے کسی کام کے لئے لیا۔ اللہ
نے اُسے چکا دیا۔ اب جیسے بھی وہ چاہے۔
پھر نرمی اور
پیار بھرے لہجے میں قرض کے حوالے سے بتایا کہ اللہ نہ اپنے ذمے کبھی کوئی قرض چھوڑتا
ہے نہ فقیر کے۔۔۔۔ نہ اچھا نہ بُرا۔۔۔۔ایک پورا نظام قائم ہے اس کے لئے۔ اللہ کے بندے
بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اللہ اُن کے ذمے بھی کبھی کوئی قرض نہیں چھوڑتا۔ نہ اچھا
نہ بُرا۔ لیکن ہم اللہ پہ چھوڑیں تو سہی۔ ہم اللہ پہ چھوڑتے نہیں تو وہ بھی کہہ دیتا
ہے ۔ چلو ٹھیک ہے جیسے تم راضی۔
یہ بات بھی
فرمائی کہ قرض لینا نہیں چاہئے۔۔۔۔ اس سے یقین متاثر ہوتا ہے لیکن یہ گھر کا سودا سلف
وقتی طور پر ادھار آنا قرض کی تعریف میں نہیں آتا۔
ہوئیں۔ حضرت لوطؑ اور افرا سیاب اور دونوں کا طریقہ یہ تھا کہ
اگر خبر ملتی کہ بیٹا ہوا ہے تو کہتے یہ کون سی بڑی بات ہے، سب ہی مخلوق کی اولاد ہوتی
ہے اور اگر کہا جاتا کہ بیٹا مر گیا تو کہتے یہ کون سی بڑی بات ہے ۔ سب ہی کی اولاد
مرتی ہے۔ یعنی وہ ہر حال میں جذباتی طور پر لاتعلق اور Indifferent رہتے
تھے۔
بات کو جاری
رکھتے ہوئے کہا۔ انسان میں بارہ کھرب خلیات ہوتے ہیں۔ جن میں سے دو کھرب صرف ذہن سے
متعلق ہوتے ہیں۔ ایک عام آدمی میں ان میں سے ڈیڑھ دو سو سیلز ہی چارج ہوتے ہیں جینس
(نابغہ) لوگوں میں یہ تعداد سوا دو سو تک ہوجاتی ہے۔ روحانی لوگوں میں یہ تعداد کروڑوں
اربوں میں ہوتی ہے۔ صرف ایک ہستی حضور ﷺ کی ذات اقدس کے تماسیل چارج تھے۔
مرید نے پوچھا
کہ زیادہ سے زیادہ سیلوں کو چارج کرنے کی ترکیب کیا ہے؟
فرمایا۔ ان
کاموں سے بچیں جن سے سیل ڈسچارج ہوتے ہیں۔ غصہ اور شک روشنیوں کو ضائع کر دیتے ہیں
جن سے سیل چارج ہوتے ہیں۔ کبر اور خواہش اقتدار غصہ کی بنیادی وجوہ ہیں۔ برسوں کی ریاضت
ایک بار غصہ کرنے سے ضائع ہو جاتی ہے۔ جب غصہ آتا ہے تو آدمی کے اندر سے اللہ نکل جاتا
شیطان داخل ہو جاتا ہے۔
زیادہ سونے
سے بھی یہ سیل چارج نہیں ہوتے۔ اسی لئے کہتے ہیں ڈھائی پونے تین گھنٹے سے زیادہ سونے
والا مومن ہو ہی نہیں سکتا۔
مرید نے دریافت
کیا اور یہ یَاحَیُّ یَاقَوّْم کے ورد سے بھی اس ضمن میں کوئی فائدہ ہوتا ہے۔
کہ مجھے اس کی اتنی عادت ہو گئی تھی کہ بیت الخلا جاتا تو منہ
پہ کپڑا باندھتا کہ وہاں پڑھنے سے باز رہوں۔
اتنے میں نماز
کا وقت ہو گیا تو اُٹھ کر نماز کے لئے چل دیئے۔ مرید ہمراہ ہی تھا۔ ۔۔ مرید نے دریافت
کیا۔۔۔۔ یہ حوریں ہوتی کیسی ہیں؟
فرمایا۔ ان
کی آنکھیں نیلی ہوتی ہیں اُن کی پتلی کے گرد سرخ ڈورا ہوتا ہے۔ اُن میں اتنی کشش ہوتی
ہے کہ عام آدمی تو اُن کی نگاہوں کی تاب ہی نہیں لا سکتا۔ جب میں نے پہلی بار دیکھا
تھا تو مجھے بھی زور کاجھٹکا لگا تھا اور میں لڑکھڑا گیا تھا۔
نماز کے بعد
مراقبہ۔ مراقبے سے فارغ ہو کر سیر کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ مرید ساتھ چلتے ہوئے انجانے
میں قدرے آگے نکل گیا تو فرمایا۔کبھی مرشد سے آگے نہیں چلتے، مرشد کے بائیں طرف نہیں
چلتے۔ ہمیشہ پیچھے چلتے ہیں یا دائیں طرف رہ کر چلتے ہیں۔ مرید نے اس کی حکمت جاننا
چاہی تو فرمایا۔ بائیں طرف دل ہوتا ہے اور فرشتوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔
اس کے بعد کافی
دیر خاموش رہے۔ مرید کو بالآخر ایک سوال سوجھ ہی گیا۔ اُس نے دریافت کیا کہ حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ صابن سے ہاتھ کیوں نہیں دھوتے تھے۔
فرمایا۔ اُن
کی طبیعت میں نفاست بہت تھی۔ چربی ہوتی ہے اور وہ بھی جانے کس کس جانور کی۔ وہ گرم
پانی سے ہاتھ دھو کر تولیے سے پونچھ لیتے تھے۔ ہاتھ بھی کافی دیر تک دھوتے تھے۔ انہیں
اچھا لگتا تھا۔۔۔ ہاتھوں کو دھونا۔
ذہن میں اترتی چلی گئی۔ اُس کو کئی لوگوں کا خیال آیا جنہیں
فوجی تربیت گاہ کاکول سے کامیاب ہونے کے باوجود نوکری سے نکلنا پڑا تھا، کئی لوگ یاد
آئے جن کا چلتا کاروبار ، چلتی ہوئی فیکٹریاں بیٹھ گئی تھیں۔، وکیلوں کا خیال آیا جو
ہفتوں مہینوں سائلوں کا انتظار کرتے وقت گزارتے تھے۔
واپس مراقبہ
ہال پہنچنے تک پھر مزید کوئی بات نہ ہوئی۔ گیٹ کے قریب لگے سرس کے سُرخ پھولوں سے لدے
درخت کو دیکھ کر فرمایا۔ یہ استقبال کر رہے ہیں۔ یہ گلدستے لئے انتظار میں رہتے ہیں۔
ذہن میں خیال گزرا کہ یہ سب حضور ہی کے منتظر رہتے
ہوں گے ورنہ مریضوں، ضرورتمندوں اور حاجت مندوں کا کوئی استقبال
کہاں کرتا ہے۔ اُن کا انتظار تو بالکل نہیں ہوتا۔
جائے گا اور سیدھے ہو کر پیچھے ہو تکیے سے ٹیک لگا لی۔ اُس خاتون
نے اپنی بات جاری رکھی ۔ فرمایا۔ بس اب آپ جائیں اور ویسا ہی کریں جیسا میں نے کہا
ہے۔
اتنے میں ایک
صاحب نے جگہ بنائی اور کھسک کر قریب ہو گئے۔ حضور دوبارہ سیدھے ہوئے اُن کی طرف جھکے،
بات سُنی ، مشورہ دیا، انہوں نے کچھ اور پوچھا سمجھایا۔ وہ پیچھے ہٹے تو ایک اور۔ وہ
پیچھے ہوئے تو ایک اور۔۔۔ اور یوں سلسلہ دراز ہوتے ہوئے عشاء کی اذان ہونے تک جاری
رہا۔
اذان ختم ہوئی
تو فرمایا۔ تاج الدین بابا اولیا ناگپوری جب کسی کو نماز پڑھتے دیکھتے تو کہتے جھوٹا
ہے۔ یعنی بن دیکھے گواہی دے رہا ہے۔ وہ اکثر اذان اور نماز کی بابت فرمایا کرتے تھے
کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ بھئی جب تم نے اللہ کو نہیں دیکھا ۔ اُس نے رسول ﷺ کو نہیں
دیکھا تو گواہی کیسے دے رہے ہو؟
مرید نے سوچا
کہ اب اللہ کو دیکھنا تو تبھی ممکن ہے جب بندے کی باطنی نگاہ کام کرتی ہو اور جب بندے
کو دکھتا ہوگا تبھی تو وہ دیکھے گا۔ پھر دوسرا خیال اُس کو یہ آیا کہ حضور نے یہ جو
کہا تھا کہ اُن کی بیعت کی شرائط میں یہ بات شامل تھی کہ کسی کے اندر نہیں جھانکنا۔
اس نے سوچا۔ اب دکھتا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بندہ نہ دیکھے۔ سوچ گہری ہوئی اور الفاظ
کا جامہ پہن کر سوال بن گئی کہ جب ایک چیز نظر آرہی ہو تو اُسے کیسے نہ دیکھیں۔
اپنے داہنی طرف ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے دریافت کیا۔ آپ یہ درخت دیکھ رہے ہیں؟ مرید نے اُس درخت کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں جواب دیا۔ تو اُسے دکھاتے ہوئے۔۔۔اُس درخت کی طرف منہ موڑ کر اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔ کیا اب وہ درخت انہیں نظر آرہا ہے؟ مرید نے نفی میں سر ہلایا تو فرمایا۔ اسی طرح آپ بھی مت دیکھیں۔۔۔ نظر ہٹا لیں۔۔قصداً مت دیکھیں۔ اگر نظر پڑ جائے تو ہٹا لیں۔
کچھ توقف کے بعد فرمایا بھئی کیا دیکھیں گے؟ یہی نا کہ لوگ آپ
کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں۔ شوہر کے پاس بیٹھی بیوی۔۔۔شوہر کو کوس رہی ہے، بچے دل ہی
دل میں باپ کو بُرا کہہ رہے ہیں، ملنے جلنے والے بظاہر کچھ کہہ رہے ہیں اور اندر بالکل
ہی کچھ اور۔ آدمی یہ سب کب تک دیکھے گا۔ وہ تو پاگل ہو جائے گا۔
مرید کو گہرا
چر کا لگتے دیکھ کر مرہم لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ بھئی ایک پردہ ہے اللہ کی صفتِ ستار
العیوبی کا سو پڑا ہی رہے تو بہتر ہے۔
پھر فرمایا
کہ میں ذوقی شاہ ؒ کے ایک جملے کا بہت معترف ہوں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کامل مرشد وہ
ہے جو مرید کو ساری کائنات کی سیر کروا دے مگر دیکھنے کچھ نہ دے۔ پھر چند ساعت بعد
فرمایا۔ دیکھنے صرف اُس وقت دے جب وقت آ چکا ہو۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔