Topics

قلندر شعور سے مراد

اسی طرح تین چار ماہ گزر گئے۔ ایک روز نیاز صاحب سے معلوم ہوا کہ قلندر شعور کلاس کا اجرا لاہور میں طے پا گیا ہے اور جون میں کلاس شروع کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے اُس کو خاص طور پر کہا کہ وہ لاہور میں ہونے والی اس کلاس میں ضرور داخلہ لے کیونکہ ابا حضور بنفس نفیس اس کلاس کے طلبا کو پڑھایا کریں گے۔ اُس نے داخلے کا طریقہ کار دریافت کیا تو انہوں نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس کے لئے آپ کو تو ابا حضور سے خصوصی اجازت لینا ہوگی۔۔۔ وہ سر جھکا کر سوچنے لگا کہ کیا وہ فون پہ درخواست کرے یا کراچی جا کر بات کرے۔۔۔ ابھی وہ کچھ طے نہ کر پایا تھا نیاز صاحب نے کہا۔۔۔ آپ کیا سوچنے لگے؟ اگر آپ داخلہ لینا چاہتے ہیں تو مجھے بتا دیں میں آپ کا نام بھجوا دوں گا۔۔۔۔وہ اُن کے مزہ لینے کی اس ادا کو سمجھ گیا اور ڈھیلے پڑتے ہوئے کہا۔۔واہ نیاز بھائی۔۔آپ بھی کمال کرتے ہیں۔۔اگر کا کیا مطلب میں یقیناً داخلہ لینا چاہتا ہوں۔

          جون کا سب سے لمبا دن گزار کر پشاور سے کلاس میں شرکت کرنے والوں کے ہمراہ وہ رات کو بس میں بیٹھ کر صبح اذانوں کے وقت راوی کا پل عبور کر رہا تھا۔لاہور سٹیشن کے باہر سے انہوں نے کاہنہ جانے والی ویگن پکڑی اور آہلو روڈ کے کے سٹاپ پہ لگے مراقبہ ہال کے بورڈ کے قریب اتر کر مراقبہ ہال ڈھونڈنے لگے۔ سورج طلوع ہو چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ ابھی ڈیڑھ دو میل پیدل چلنا ہوا۔ رات بھر کے سفر کی تھکن اور صبح کی تازگی کا خمار حواس کا امتحان لے رہا تھا۔ کچھ دوستوں نے رائے دی کہ ناشتہ کر لیا جائے۔۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ ناشتہ کرنے کی بجائے لسی پی جائے۔ سڑک کنارے بنے کھوکھا نما ہوٹل کے ہاتھ بھر لمبے گلاس سے نپٹ کر۔۔۔بوجھل ڈگمگاتے قدموں سے میل بھر چلنے کے بعد۔۔۔انہیں ہاتھوں میں پکڑے سامان کا وزن بڑھتا محسوس ہونے لگا۔

          دور تک پھیلے کھیتوں کے بیچ گزرتی سڑک پہ اُس پر خمار حالت میں لڑھکتے گھسٹتے پولٹری فارمز اور چاول صاف کرنے کے کارخانے کے پاس سے گزر کر جب انہوں نے جامعہ عظیمی ( مراقبہ ہال) کے گیٹ کو دیکھا تو توانائی کی ایک لہر نے اُن کو اپنے قدموں پہ کھڑا کر دیا۔اپنے مراد کے حضور حاضری کے احساس نے گویا اُن کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔

          حضور مراقبہ ہال کے وسیع میدان نما لان میں میاں صاحب کے ہمراہ ٹہل رہے تھے۔ سب دوست وہیں ڈیوڑھی میں رُک گئے لیکن وہ بے تابانہ آگے بڑھا اور حضور نے دونوں بانہیں کھول کر اُسے سینے سے لگنے کی اجازت اور ادھیکار عطا فرمایا۔ خیر و عافیت دریافت کی پھر میاں صاحب سے مخاطب ہو کر کہا۔ ارے بھئی۔۔۔ ان کو ناشتہ کروایئے۔ ڈیوڑھی کے دائیں ہاتھ بنے وسیع و عریض ہال نما کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر پشاور کے دوستوں نے اُس کی تقلید کرتے ہوئے بڑھ کر حضور سے ملاقات کی۔

          ناشتے سے پہلے تک دیگر مراقبہ ہالز سے بھی قلندر شعور کلاس کے کئی طلبا پہنچ گئے۔ کچھ لوگ ہاتھ منہ دھو کر اور کچھ افراد نہا دھو کر تازہ دم ہو لئے۔ ناشتے کے بعد قلندر شعور کی کلاس کے لئے۔۔۔ڈیوڑھی کے بائیں ہاتھ ابا حضور کے کمرے کے ساتھ بنے ہال میں لگی کرسیوں پہ منتظر بیٹھے افراد اُس وقت احترام سے اُٹھ کھڑے ہوگئے جب حضور کمرے میں داخل ہوئے۔

          کرسی مدرس پہ براجمان ہونے کے بعد آپ نے فرمایا۔ سب سے پہلے میں آپ کو سلسلہ عظیمیہ کی ترویج اور اُس کے پھیلاؤ کی مختصر روداد سے آگاہ کروں گا تا کہ آپ ذہن میں یہ بات آجائے کہ جب اللہ تعالیٰ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو اُس کے لئے وسائل خود بخود ہی فراہم ہو جاتے ہیں۔

          میرا تعلق بنیادی طور پر ایک علمی اور دینی گھرانے سے ہے۔ جہاں اور بہت سی باتوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا وہاں روحانیت بھی کچھ ایسی ہی بات سمجھی جاتی تھی لیکن اللہ کو یہی منظو ر تھا کہ میں روحانی علوم کی ترویج کروں۔

          میری روحانی پیدائش لاہور یعنی پنجاب ہی کی ہے۔ اہلِ لاہور اور پنجاب سے میرا تعلق خاطر بہت پہلے سے ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ شمس آباد کے رہنے والے تھے تو اس وجہ سے بھی اس تعلق میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔۔۔ اگر چہ میں گزشتہ پچاس سال سے کراچی ہی رہا۔ وہاں ہم دو آدمی تھے ہم وقت کی پابندی کے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وسائل فراہم کئے اور آج دیکھ لیں کہ یہ سلسلہ کہاں پہنچ چکا ہے۔ میں نے وسائل میں دخل نہیں دیا یعنی یہ نہیں کیا کہ ایسا ہونا چاہئے یا ویسا ہونا چاہئے۔ ہم نے ناظم آباد سے آغاز کیا پھر نارتھ ناظم اباد پہنچے پھر اللہ نے سرجانی ٹاؤن میں جگہ دی۔ وہاں رکشہ ٹیکسی بھی نہیں جاتے تھے۔ جب ہم نے پہلی روحانی کانفرنس کی تو دو ڈھائی سو کرسیوں کا انتظام کیا۔۔وہ کم پڑ گئیں۔۔۔اللہ نے مجھ سے کہلوایا کہ میں ان شاء اللہ ایسا ماحول بنا دوں گا کہ ا سکول بنیں گے۔۔کالج بنے گے۔۔۔ میں بچوں کا قاعدہ بناؤں گا۔۔ اک مجذوب کی بڑ کی طرح یہ بھی کہہ دیا کہ بڑوں کے لئے یونیورسٹی بنے گی۔۔عظیمیہ سلسلے کی پہچان اُن کے علم سے ہوگی۔ میری زندگی میں اگر بیس پچیس ایکٹرز میں مل گئی تو روحانی یونیورسٹی بنا دوں گا۔۔ورنہ یہ کام میری روحانی اولاد کرے گی۔

          آپس سوچیں مجھے یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ میں بادشاہ بن جاؤں ۔۔۔ میں کوئی کاروبار کروں۔۔۔مجھے یہی خیال کیوں آتا ہے کہ روحانی یونیورسٹی بنے۔

          اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کو روحانی علوم کی ترویج کے لئے وقف کر دیا ہے۔ اس وقت تک ہم پینتالیس مراقبہ ہال اور ۷۲ روحانی لائبریریاں بنا چکے ہیں ویسے میرا ارادہ ہے کہ کم از کم پچاس ہوں۔

          مختصراً یہ کہ ہم نے سلسلے کا کام نہایت بے سروسامانی میں شروع کیا لیکن اللہ نے ہر طرح سے وسائل فراہم کئے۔ یہ بات یقین کو مستحکم کرتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے کام کے لئے منتخب کر لیتے ہیں تو وسائل بھی فراہم کر دیتے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ روحانی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم بھی حاصل کریں اور اپنی اولاد کو بھی وہی علم دیں تاکہ وہ ایک مکمل معلم بن سکیں۔ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو نہیں سنبھال سکتا تو وہ کسی کو باہر کیا سنبھالے گا؟ اگر کوئی اپنے گھر نہیں سنبھال سکتا تو باہر کسی کو کیا قائل کرے گا۔ آپ کو سب سے پہلے خود اپنی تربیت کرنا ہے۔

          جب شوہر بیوی کا کہنا مانے گا تو بیوی بھی اُس کا کہنا مانے گی۔۔۔ جب بیوی شوہر کے مزاج کے مطابق چلے گی تو شوہر کو بھی اُس کے مزاج کے مطابق چلنا چاہئے۔ جب بیوی کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ کچھ لو کچھ دو کا معاملہ ہے تو ساتھ دیتی ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی اقتدار کی رسہ کشی میں پھنس جائیں تو اولاد خراب ہو جاتی ہے۔

          روحانی علوم کی ان کلاسوں کے پڑھنے سے نہ تو آپ کو کہیں ملازمت ملے گی اور نہ ہی کوئی مالی منفعت ہوگی۔۔ روحانی علوم کا فائدہ یہ ہے کہ آپ محبت کا سمبل بن جائیں گے۔ انبیاء کرام کی طرز  فکر حاصل ہو جائے گی۔۔۔آپ ہر وقت اللہ کو اپنے اندر بیٹھا دیکھ سکیں گے۔۔۔ آسائش کے لئے آپ کو دنیاوی کام کرنا ہیں اور روحانی زندگی کے لئے خود کو علوم سے آراستہ کرنا ہے۔

          یہ دنیا ایک ترازو کی طرح ہے۔۔۔اس کا ایک پلڑا مادی علوم ہیں تو دوسرا پلڑا روحانی علوم ہیں۔ ہر آدمی کا دھیان دنیا کی طرف ہے اور آسائش و آرام کے انبار ہونے کے باوجود ہر آدمی پریشان ہے کیونکہ میزان قائم نہیں رکھا جا رہا۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ کی پوری زندگی محنت سے عبارت ہے۔۔۔ وہ چاہتے ہیں عظیمی بندہ اعتدال کے ساتھ روحانی اور مادی علوم حاصل کرے۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔۔۔۔یعنی اس آیت میں یہ بات واضح طور پر بتا دی گئی ہے کہ اگر دین اور دنیا میں اعتدال نہیں ہے اور دونوں بہتر نہیں ہیں تو عذاب سے نہیں بچا جا سکتا۔

          روحانیت میں لازم ہے کہ جو اپنے لئے پسند کریں وہی اپنے بھائی کے لئے بھی چاہیں۔

          روحانیت کا دوسرا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ آدمی میں شک نہ ہو۔ روحانیت کا علان ہے کہ اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کا ہے۔ انسان میں غصے کا اصل سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اُس کے اندر اقتدار کی خواہش ہے۔ اگر کسی میں بنیادی کمزوریوں یعنی خود غرضی، سیکس اور غصہ پر غلبہ نہیں ہے تو اُسے روحانیت سے ہٹ جانا چاہئے۔ ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم ان تینوں کمزوریوں سے لڑیں گے اور اُن کو خود پر غلبہ نہیں پانے دیں گے۔ہمیں جتنا بھی عرصہ لگے ہم جدوجہد کرتے رہیں گے ۔۔۔بات جدوجہد اور کوشش کی ہے۔

          یاد رکھیں انسان صرف دو طرح سے خوش رہ سکتا ہے اس کا کوئی تیسرا طریقہ نہیں ہے۔ پہلا ۔۔۔آپ جن سے وابستہ ہیں۔۔۔ انہیں اپنے مطابق ڈھال لیں اور اگر یہ نہیں ہو سکتا تو آپ خود کو اُن کے مطابق ڈھال لیں۔

          کسی علم سے آگاہ ہونا اور اُس علم میں داخل ہو جانا۔۔۔یہ دو بالکل الگ باتیں ہیں۔ آپ اپنے علم پہ قائم رہ کر روحانی علوم کی بابت جان سکتے ہیں لیکن روحانی علوم کو جاننے کی بنیادی شرط یہی ہے کہ آپ میں جتنی قابلیت ہو۔۔آپ اُس کو ایک طرف رکھ دیں۔۔آپ کو اُس سے صرف نظر کرنا پڑے گا۔۔۔ اُس سے کوئی سروکار نہ رکھ کر ہی آپ روحانی علوم سیکھ سکتے ہیں۔

          ایک آدمی جس نے انگریزی میں پی ایچ ڈی کی ہو اردو پڑھنے کے لئے۔۔۔۔الف بے پے ہی سے آغاز کرے گا ورنہ وہ اردو نہیں سیکھ سکتا۔۔۔ ماں باپ بچوں کو براہ راست نہ بھی پڑھائیں بچے تب بھی اُن ہی کی زبان بولتے ہیں۔ روحانی علوم کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

          آپ یہاں سے جو کچھ پڑھ کر جائیں اُسے گھر جا کر ضرور دہرائیں۔۔۔جو عملی کام بتایا جائے وہ کریں۔ روحانی علوم میں اب تک پریکٹیکل ہی پریکٹیکل تھا۔۔۔۔۔جنگل میں بھجوا دیا۔۔۔ مزار پہ بیٹھا دیا۔۔۔ ان سب باتوں کا ایک ہی مقصد تھا۔۔۔ تاکہ ذہن مادیت سے بیزار ہو کر اُس ایجنسی کی طرف پلٹ جائے جو انسان کی اصل ہے۔حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے وہ علم جو اللہ نے آدم کو فرشتوں کے سامنے عطا کیا۔۔اُس کو پہلے تھیوری بنا دیا اور پھر پریکٹیکل کروایا۔

          اس وقت نوع انسانی کا شعور بہت زیادہ بالغ ہے۔۔ اب سے پچاس سال پہلے کا شعور ایسا تھا۔۔۔ میں آپ کو اپنی مثال دیتا ہوں۔۔۔۔ میرے خالو ایک ریڈیو لے آئے ۔ ہم پریشان کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ پہلے ہم سمجھے کہ اس کے اندر آدمی بند ہے۔۔۔پھر میری خالہ نے بتایا کہ یہ آواز تاروں کے ذریعے دہلی سے آرہی ہے۔ میرے جذبے میں مرکزیت پیدا ہوئی اور میں دہلی پہنچ گیا تو وہاں ریڈیو اسٹیشن میں تاروں کو دیکھ کر میں نے زور سے کہا۔ خالہ اماں میں یہاں پہنچ گیا ہوں۔

          بالغ شعور میں کوئی آدمی آنکھیں بند کر کے نہیں چل سکتا۔ پہلے زمانے میں جو باتیں خرق عادات اور کرامت کے زمرے میں آتی تھیں وہ آج کے معمولات ہیں۔

          مجھ سے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے یہ بات فرمائی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام چاہتے ہیں کہ روحانیت عام ہو۔ ابن عربی نے لکھا ہے کہ جو علوم میں پیش کر رہا ہوں اُن کے بارے میں کوئی نہیں سمجھ سکتا لیکن میرے بعد ایک ایسا آدمی آئے گا جو اس کو سمجھائے گا۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ اُن کی پیشگوئی حضور قلندر بابا اولیا ءؒ ہی کے بارے میں ہو۔

          آپ کو یہ علم اس طرح سیکھنا ہے کہ آپ کے سامنے صرف آپ کی اپنی ذات نہ ہو۔۔۔۔آپ کو اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرنا ہے کہ وہ روحانی علوم سیکھیں۔۔۔آپ کا اخلاق ایسا ہو کہ لوگ دیکھ کر بتا سکیں کہ آپ کا تعلق عظیمیہ سلسلے سے ہے۔

          یہ جو روحانی کلاسز بنائی گئی ہیں یہ سب علم لدنی کے زمرے میں آتی ہیں۔۔۔جو بندہ بھی علم لدنی سیکھنے کی طرف قدم بڑھاتا ہے اُ پر اللہ کی خاص رحمت ہوتی ہے۔۔۔ اس علم کے سیکھنے میں ہمارا مقصد اللہ کے سوا اور کچھ نہیں ہونا چاہئے۔

          لیکچر ختم کیا اور اُٹھ کر ہال سے باہر چل دیئے۔ نہ جانے کیوں کسی کو جرات نہ ہوسکی کہ اُن کے ہمراہ باہر نکلتا۔ دروازے پہ میاں صاحب اُن کے ہمراہ ہو کر اُن کے ساتھ کمرے میں چلے گئے۔

          دوپہر کا کھانا آنے میں ابھی وقت کچھ لوگ وہیں کرسیوں پہ ڈھیر ہو گئے اور کچھ دوسرے کمرے میں جا کر چٹائیوں پہ لیٹ گئے۔ گرمیوں کی دوپہر ، رات بھر کا سفر، تھکن، لسی کا خمار اور اب حضور مرشد کریم کے لیکچر کی نورانیت۔۔۔ سب کے حواس لرز رہے تھے۔ وہ کہنا کچھ چاہتے تھے اور منہ کچھ اور تھا۔ ۔۔۔ ڈاکٹر اکمل ، فاروق اور اسلم صاحب سے باتیں کرتے اُس کی آنکھیں مُندگئیں اور وہ وہیں چٹائی پر ڈھیر ہو گیا۔

          آہٹ ہوئی تو دیکھا کہ کھانے کے لئے دستر خوان بچھ رہا ہے۔۔۔مدہوشی میں چنے کی دال کا پلاؤ کھاتے ہوئے۔۔۔ناصر بھائی کو اس بات پہ جز بز ہوتے دیکھ رہا تھا کہ چاول بالٹیوں میں کیوں تقسیم ہو رہے ہیں۔۔۔۔آُس نے سوچا کہ اِس میں الجھنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ یہاں اس ویرانے میں کیا یہی کم ہے کہ چاول پک ہیں اور اس سے فرق ہی کیا پڑتا ہے کہ وہ ڈش میں آئیں یا بالٹی میں۔۔۔۔لیکن بات بڑھ گئی اور انہوں نے کھانا کھانے سے ا نکار کر دیا۔۔۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ بالٹیاں ہٹا لی گئیں اور چاول پراتوں میں لائے گئے۔ ناصر صاحب بتا رہے تھے حضور نے کئی بار کہا ہے کہ انسان خود کو جہاں چاہے ایڈ جسٹ کر لے۔۔۔۔آپ نے نوٹس نہیں لیا۔۔۔۔میں نے نوٹس لے لیا۔۔۔ورنہ یہ یونہی چلتا رہتا بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اس بات کو سند بنا لیتے کہ حضور اباجی کے ہوتے بالٹیوں میں لا لا کر چاول تقسیم ہوتے رہے اور انہوں نے منع نہیں فرمایا لہذا سلسلہ عظیمیہ میں لنگر بالٹیوں ہی میں بٹنا ضروری ہے ۔

آپ دیکھ لیں۔۔۔ اب یہ پراتیں کہاں سے نکل آئیں۔

           اگلے ہفتے وہ دوبارہ اسی طرح حاضر تھے۔ انتظامات میں قدرے نکھار تھا۔ میاں صاحب اور اُن کی ٹیم کے افراد مستعدی کے نئے زاویے دکھا رہے تھے۔ کلاس میں پانی کا چھڑکاؤ بھی کیا گیا تھا اوردو زائد پنکھے بھی لگا دیئے گئے تھے۔ مرشد کریم نے لیکچر کا آغاز کیا پہلے کتاب کے نام کی شرح فرماتے ہوئے کہا۔قلندر شعور نام یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر آدمی کے اندر ایک شعور۔۔۔ایک طرزِ فکر کام کرتی ہے۔۔۔شعور ایک ایسی ایجنسی ہے جو آنے والے خیالات کو ملحوظ  مطلب معانی پہناتی ہے۔ ایک ایسی ایجنسی جو نیوٹرل نہیں ہوتی یعنی اس کا جھکاؤ کسی نہ کسی طرف ضرور ہوتا ہے۔

          علوم کے تین دائرے ہیں۔۔ طبعیات، نفسیات اور روحانیت۔موجودہ علوم کی روشنی میں طبعیات اور نفسیات علم کے وہ دو دائرے ہیں جن کے بغیر کوئی آدمی دنیاوی زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔ طبعیات کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوق ایک مخصوص دائرہ عمل میں زندگی گزارے۔۔۔اس دائرے میں دو مخلوق۔۔انسان اور حیوانات کا کردار زیادہ اہم ہے۔ انسان کا یہ دعویٰ کہ وہ حیوانِ ناطق ہے یعنی بولنے والا حیوان ہے۔ یہ دعویٰ نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ محض ایک مفروضہ ہے کیونکہ سبھی حیوانات بولتے بھی ہیں اور آپس میں بات چیت بھی کرتے ہیں۔۔۔۔ خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ شیر آجائے تو بندر پیٹ پیٹ کر شور کر کے ایک دوسرے کو خبردار بھی کرتے ہیں۔

          جتنے بھی چوپائے ہیں اُن کی آوازیں الگ الگ ہیں۔۔مرغی اُس وقت ایک مخصوص آواز نکالتی ہے جب اُس کے چوزوں کو کوئی خطرہ لا حق ہو یعنی مرغی کے بچے نہ صرف مرغی کی آواز سنتے ہیں بلکہ سمجھتے بھی ہیں کیونکہ وہ فوراً دوڑ کر ماں کے پروں کی پناہ لے لیتے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ انسان ہی حیوان ناطق ہے ایک خود فریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

          انسان کا دوسرا دعویٰ کہ وہ باشعور ہے اور عقل کا استعمال جانتا ہے۔۔۔ بھی غلط ہے ۔ آپ ایک حقیر سے کیڑے شہد کی مکھی سے زیادہ عقل نہیں رکھتے۔۔شہد کی مکھی کو وحی کی جاتی ہے لیکن انسانوں میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو یہ سعادت حاصل ہوئی؟

          طبیعات کے دائرے میں رہتے ہوئے نفسیاتی تقاضے تو مختلف ہو سکتے ہیں لیکن مادی تقاضوں میں سب مخلوقات ایک اشتراک رکھتی ہے۔ آدم و حوا سے لے کر آج تک۔۔۔۔انسانی ارتقا کے باوجود کوئی انسان حیوانات سے ممتاز ہونے کی سند پیش نہیں کر سکتا۔ انسان کا شعور محدود ہے وہ آج تک کوئی ایسی ایجاد نہیں کر سکا جو اُس نے شعوری حدوں سے باہر کی ہو۔۔۔ اُس میں وسائل کی پابندی نہ ہو۔ پرندوں کو اُڑتے دیکھ کر انسان نے اُڑنے کے وسائل کھوجے پرندوں کے گھونسلے اور چوہوں کے بل دیکھ کر یعنی انسانی عقل حیوانی عقل کے تابع ہو کر ایجادات کرتی ہے اپنے لئے گھر اور رہنے کی جگہیں بناتی ہے۔ چیونٹی پہ قرآن کی ایک سورۃ کا نام سورہ نمل ہے۔ انسان کے پاس اپنے ممتاز ہونے کی کوئی سند نہیں ہے۔

          ہمارا شعور ہمیں محدود کرتا ہے اور ہم اس محدودیت کو آزادی کا نام دے کر خود کو دھوکا دیتے ہیں۔۔۔ ایک طرف وہ آزاد ہونا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ خود کو چار دیواری میں مقید رکھتا ہے اور اس کو تحفظ کا نام دیتا ہے۔ دراصل شعور محدودیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اب تک انسانی شعور کا صرف پانچ فی صد حصہ ہی بیدار ہو سکا ہے۔ باقی کب ہو یہ کوئی نہیں جانتا۔ ویسے انسان کے شرف کا انسان کے شعوری ارتقا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

          انسان دوسری مخلوقات سے اللہ کے حکم کے مطابق ممتاز ہے لیکن یہ شرف کسی بھی طور شعور کی بنیاد پر نہیں ہے۔ انسان کے فرمان کے مطابق یہ شرف اُس علم کی بدولت ہے جو فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔ لیکن یہاں یہ حال ہے کہ انسان جرم کرتا ہے اور مجرم کو پکڑنے کے لئے انسان کتوں کا محتاج ہے۔۔یہ کیسا شرف ہے؟

          پھر فرمایا کہ ایک شعور وہ ہے جو ہمیں ہر قدم پہ پابند رکھتا ہے۔۔۔ اس شعور کے تحت ہر حس ۔۔۔خواہ وہ بولنے کی حس ہو ، سننے کی حس ہو، دیکھنے، سونگھنے اور چھونے کی حس ہو۔۔۔شعوری طور پر پابند ہے۔۔۔ا س کا ایک تعین ہے۔

          انسان جبلی طور پر حیوانات سے قدرے آگے ہے۔ جانوروں کی طبیعات پہ غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہ جبلت کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ بھوک کے بارے میں بکری کی جبلت ہے کہ وہ گھاس کھاتی ہے۔۔۔شیر کی جبلت گوشت کھانے کی ہے۔۔۔انسان سبھی کچھ کھاتا ہے۔۔ گوشت بھی، پتے بھی، مٹی اور پتھر بھی۔۔۔کھانے پینے کے بارے میں انسان کو پابند نہیں کر سکتے۔ لیکن دیگر جبلی تقاضوں میں انسان میں اور حیوانات میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محض اس فرق کی وجہ سے وہ حیوانات سے ممتاز ہو گیا ہے۔ جبلت کے اس فرق کی وجہ سے وہ ممتاز نہیں ہو سکتا۔ انسان کا شرف اس بات کو ضروری بنا دیتا ہے کہ وہ حیوانات سے ممتاز ہو کر اپنا شرف ثابت کرے۔ انسان گوشت کو پکا کر کھانے کے باوجود پیٹ کے امراض میں مبتلا ہوتا ہے جب کہ جانور کچا گوشت کھا کر بھی بیمار نہیں ہوتے۔

          پھر آپ نے لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ثم ردونہ اسفل سافلین والی آیت پڑھ کر فرمایا۔ انسان تو جانوروں سے بھی کم تر ہے۔ جبلت کے حوالے سے انسان اور حیوان برابر نہیں ہیں۔ جب بھی انسان نے عقل کا استعمال کیا۔۔۔ جینئس لوگ زیادہ ہو گئے۔۔۔ انہوں نے فساد برپا کیا۔۔ جانوروں نے کبھی فساد نہیں کیا۔

          انسان نے رفتار کو زیادہ سے زیادہ کر کے وقت کو کم کر لیا اس کے ثمرات بھی ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوئے۔ ایک سپر پاور ایک ہتھیار بنا کر دعویٰ کرتی ہے کہ اب ایک منٹ میں ایک لاکھ آدمی مر جائیں گے دوسرے نے پانچ لاکھ آدمی مارنے کا بندو بست کر ڈالا۔۔۔ تیسرا اس سے زیادہ افراد کو لقمہ اجل بنانے کا دعویٰ کر رہا ہے۔۔آپ اس کو ترقی کہتے ہیں۔ اس تمام ترقی کے پیچھے تخریب، مالی منفعت اور لالچ کے سوا کچھ نہیں۔

          موجودہ دور شعور، ترقی اور محیرالعقول ایجادات کا دور کہلاتا ہے۔۔ہر شخص جانتا ہے کہ ان ایجادات کے ثمرات بلڈ پریشر، کینسر جیسے موذی امراض ہیں اور ان کا علاج اول تو ہے نہیں اور اگر ہے بھی تو اس مہنگا کوئی دوسرا علاج نہیں۔ عقل و شعور کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک مخصوص گروہ نے وسائل پہ اپنا تصرف قائم کرنے کے لئے یہ سب ہتھکنڈے ایجاد کئے ہیں۔ وہ دوسروں کے شعور کو اجاگر اپنا باجگزار بنانے کو ہی ترقی مانتے ہیں۔

          اس شعور سے۔۔۔اس پابند شعور سے نکلنے کے لئے غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو وہ نہ صرف اپنی ذات سے دور ہو گیا ہے بلکہ اپنے خالق سے بھی دور ہٹا ہوا ہے۔ شعوری ارتقا ہوا تو ہے لیکن اُس کی سمت درست نہیں رہی۔۔ اس شعوری ارتقا کے پیچھے ایک شعور دائرہ بن گیا ہے۔ قلندر سے مراد غیر جانبدار زاویے سے سمجھنے والا۔۔۔ایک آزاد طرزِ فکر رکھنے والا۔۔محدودیت میں رہتے ہوئے لامحدودیت میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھنے والا بندہ ہے۔

          محدود شعور کو متحرک کرنے کا طریقہ کم ہی لوگ جانتے ہیں مثلاً کوئی نہیں جانتی کہ وہ کیوں زندہ ہے۔۔۔ کس وجہ سے زندہ ہے؟ ایک آدمی مرتا ہے تو اُس کے آس پاس ہزاروں آدمی ہوتے ہیں تو صرف ایک کیوں دم توڑ دیتا ہے۔

          یہ ایک سوال ہے کہ اگر آدمی آکسیجن پر زندہ ہے۔۔۔پانی پر زندہ ہے۔۔۔تو کیا اُس ایک بندے کے لئے ہوا یا پانی ختم ہو جاتے ہیں؟ نہیں۔۔۔وہ تو اُس کے مرنے کے بعد بھی اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ ہمارے دانشور آج تک یہ ثابت نہیں کر سکے کہ ہم تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی کیوں مر جاتے ہیں؟

                   ہمارا محدود شعور اس بات سے واقف نہیں کہ ہم کیوں زندہ ہیں۔۔۔ مر کیوں جاتے ہیں۔۔۔ زندگی کی توانائی کہاں سے آتی ہے؟

          کیلوریز کا فلسفہ بھی اس وقت غلط ثابت ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک جیسی خوراک کھانے والے دو افراد کے وزن یکساں نہیں ہوتے۔

          قلندر شعور سے مراد ہے ایک ایسا شعور جو زندگی کی Equation سے واقف ہو، جن فارمولوں پہ زندگی کا قیام ہے وہ اُن فارمولوں سے آگاہ ہو۔۔۔ جو یہ جانتا ہو کہ انسان پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا۔۔۔۔اور مرنے کے بعد کہاں چلا جاتا ہے۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے وہ کن حالات میں تھا اور کن حالات سے گزر کر یہاں پہنچا ہے اور یہاں سے جانے کے بعد وہ کن حالات سے گزرے گا۔

          قلندر شعور کا نام رکھتے وقت میرے پیشِ نظر میرے مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ تھے جن کی آزاد طرز فکر سے میں اس کتاب کو لکھنے کے قابل ہوا۔آزاد طرزِ فکر سے واقف ہوئے بغیر انسان اپنا شرف تلاش نہیں کر سکتا۔ قلندر شعور کے مطابق اگر کوئی انسان محدود شعور سے نکل جائے تو وہ یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ اس دنیا سے باہر کیا ہے؟ عالم جنات کیا ہے؟ عالم ملکوت کیا ہے؟ عالم جبروت ولا ہوت کیا ہیں؟ قرآن میں جس کو"سلطان" کہا گیا ہے وہ ایک ایسا علم اور ایک ایسی طرزِ فکر ہے جو زمیں و آسمان کے کناروں سے نکل سکتا ہے۔۔ورنہ تو انسان مقید اور محبوس ہی ہے۔

          زمین نام ہی ایک ایسے شعور کا ہے جو محدود ہے اور اللہ نے اسی محدودیت سے نکلنے کا راستہ بتانے کو ہمیں اس طرف متوجہ کیا ہے کہ سلطان کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

          انسان جب تک زمینی شعور سے آراستہ رہتا ہے وہ یہ تک نہیں جانتا کہ زمین کے اندر کیا ہے؟ بالکل ویسے ہی جیسے انسانی جسم کے اندر گوشت پوست اور خون کی ترسیل ہے۔۔۔کوئی سائنسدان یہ نہیں بتا سکتا کہ دل کیوں دھڑکتا ہے؟ ڈیڑھ لاکھ کلو میٹر طویل شریانوں اور وریدوں میں کون سی توانائی خون کو گردش میں رکھے ہوئے ہے۔ جن چیزوں کی بنیاد پر وہ زندہ ہے وہ اصل میں کیا ہیں؟

          اس محدود شعور کا نام زمین ہے۔آسمان بھی شعور کی محدودیت کے مختلف درجے ہی ہیں۔ وہ صلاحیت جو ہمیں اس محدود شعور سے نکال کر لامحدود شعور سے آشنا کر سکتی ہے اس کا نام قلندر شعور ہے۔

          ساری ریسرچ رفتار پر استوار ہے۔ اگر شعور کی رفتار بڑھا کر اتنی زیادہ کر دی جائے کہ وہ شعور ہی نہ رہے تو اُس کو اس محدودیت سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ ہمارا شعور ٹھس بیل ہے۔ آرام طلب ہے۔۔ذاتی مفاد کے علاوہ وہ کام ہی نہیں کرتا۔ اس عادت کے خلاف جب انسان اپنی ذات سے ہٹ کت نوع انسانی کے لئے خدمت  خلق کا شعبہ قائم کرتا ہے۔۔تو اس شعور کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔

          انسان میں لچک بہت ہے۔ جب وہ پیدال چلتا ہے تو اُس کو چلانے والی ایجنسی اتنی سُست ہو جاتی ہے کہ وہ ایک گھنٹے میں دو تین میل ہی چل سکتا ہے ۔ جب وہ گاڑی میں سفر کرتا ہے تو وہ ساٹھ ستر میل فی گھنٹہ سفر کر لیتا ہے اور جب وہ ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے تو یہ رفتار ہزار پانچ سو فی میل گھنٹہ تک ہو جاتی ہے۔ اس ایجنسی یعنی اس صلاحیت میں یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ ہر طرح کے حالات سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے ورنہ پیدل چلنے والی ایجنسی کی رفتار اگر جہاز کی رفتار کے مطابق پھیل نہ سکے تو اُس کا دماغ پھٹ جائے۔

          اس کے بعد آپ نے کتاب قلندر شعور پہ بات کا آغاز فرمایا اور کہا۔ اس کتاب کی شروعات اللہ کے ذہن سے نکلے ہوئے لفظ'کن' سے ہوتی ہے۔ جب کچھ نہ تھا تو ایک ذات تھی۔ اُس ذات نے ایک پروگرام کو پورے خدوخال کے ساتھ۔۔نقش و نگار کے ساتھ۔۔معین مقداروں کے ساتھ۔۔۔درجہ بندی کے ساتھ تشکیل دینے کے بعد۔۔۔حکم دیا۔۔۔ہو جا۔۔۔یعنی حرکت میں آنے کے لئے تیار ہو جا۔

          ایک کتاب المبین کہہ کر شعور کو خبردار کیا جا رہا ہے۔۔اس پر ضرب لگائی جا رہی ہے۔ شعور ایک سے بھی واقف ہے اور کتاب سے بھی۔۔۔اور مبین سے بھی۔۔۔یعنی ایک ایسی کتاب جو روشنیوں سے بھری ہوئی ہے۔ گویا ایک طرح سے شعور کو مادیت سے نکال کر روشنیوں کی طرف دھکیلا گیا ہے۔۔اُس کو محدودیت سے لامحدودیت کی طرف دھکیلا گیا ہے۔

          کتاب کہہ کر شعور کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ کتاب میں صفحات ہیں۔۔یعنی اُسے ایک دستاویز کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے۔۔ ایک کتاب المبین۔۔۔یعنی ایک ایسی دستاویز جس پر نورانی تحریر نقش ہے۔۔ایک ایسی کتاب جس کا تعلق الفاظ سطروں اور صفحات سے تو ہے لیکن یہ سب نور کے غلاف میں ملفوف ہیں۔۔۔ وہ روشن تحریر جس روشنی سے لکھی گئی ہے وہ سب کا سب نور ہے اور اُس نور میں اللہ کا وہ پروگرام ہے جو کن سے پہلے اللہ کے ذہن میں تھا۔۔۔یعنی شعور کی سطح کو بلند کرتے ہوئے اُسے زمینی شعور سے نکال کر آفاقی سطح میں داخل کر دیا گیا ہے۔ کن کے مظہر بننے میں پہلی بات ایک دستاویز کا بننا ہے۔ جب آپ کن اور کتاب المبین پہ غور کریں گے تو یہ باتیں آپ کی سمجھ میں آجائیں گی۔۔رفتہ رفتہ سہی لیکن آئیں گی ضرور۔

          پھر آپ نے سب کو۔۔۔کتاب المبین کائنات یکجائی پروگرام ہے۔۔۔ہوم ورک کے طور پر سوچنے اور حاصل غورو فکر کو تحریر کرنے کا حکم دیا۔ ساتھ میں شعور کی محدودیت اور کتاب المبین کی بابت جو کچھ بتایا گیا ہے اُس کو اپنے الفاظ میں مختصراً لکھ کر لانے کا بھی کہا۔

          اسی طرح ایک کلاس سے پہلے مرید کو بتایا کہ اللہ نے نزولِ وحی کے وقت وحی کو یاد کرنے سے حضور ﷺ کو منع فرمایا کہ آپ یادداشست پہ زور نہ دیں۔۔۔ ہم آپﷺ کو خود یاد کرا دیں گے۔۔۔آپ ﷺ صرف متوجہ رہا کریں۔۔۔ انسان کو کچھ بھی یاد نہیں ہوتا اُس کو تو صرف متوجہ رہنا آنا چاہئے۔

          فرمایا پانی جب تک گلاس میں ہے اُس کی ایک شکل ہے۔۔ایک صورت ہے ایک عکس ہے۔۔اُس میں ٹھہراؤ ہے۔ آپ اُس گلاس کو دیوار پہ دے ماریں۔۔۔پانی میں انتشار آگیا۔ منتشر ہونے سے پہلے اُس ٹھہراؤ میں ایک ہی صورت تھی۔۔۔ایک نام تھا۔۔۔انتشار کے سبب دیوار پر کئی طرح کی صورتوں اور ناموں میں ڈھل گیا۔

          ناخن پہ پٹی لگا رہے تھے۔۔۔دریافت کیا تو فرمایا۔ ناخن پھٹ گیا ہے۔۔۔پھر مسکراتے ہوئے اپنی مخصوص ظرافت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔۔۔ اس کے لئے کوئی جوڑنے والا سلوشن ہوتا تو وہ لگا لیتے۔

          مرید نے بقراطی جھاڑی کہ ناخنوں پہ بکری کا دودھ لگانے سے وہ پھٹتے نہیں ہیں۔

          فرمایا۔ جی ہاں بکری کے دودھ کے اور بھی بہت فائدے ہیں۔۔بکری کو ٹی بی کے مریض کے قریب باندھنے سے۔۔۔۔بکری کی بو سے ٹی بی کے مرض میں افاقہ ہوتا ہے۔۔اس کا مزاج سرد تر ہے اور گرمی میں فائدہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے فائدے ہیں۔ انبیا نے بکریاں چرائیں۔۔۔سلسلے میں چھ ماہ کا یہ ٹریننگ پروگرام ہونا چاہئے کہ سلسلے کے لوگ چھ ماہ تک بکریاں چرایا کریں۔

          اسی طرح کلاسیں ہوتی رہیں۔ پھر گرمی کا زور ٹوٹتا چلا گیا۔ اب شام کو مراقبہ ہال کی کھلی فضا میں سردی کا احساس ہونا شروع ہو چکا تھا۔ پھر ایک روز وہ اپنے مرشد کریم کے ہمراہ لاہور ہائی کورٹ بار جا رہا تھا۔ وہاں وکلا حضرات نے اُن کا لیکچر سنا۔۔سوال جواب کی نشست ہوئی۔

          آپ نے لیکچر کا آغاز اس بات سے کیا کہ جب بھی ہم انسان اور اُس کی صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو ساتھ ساتھ زمین پہ پھیلی ہوئی دوسری لاتعداد مخلوقات کا بھی تذکرہ آتا ہے۔ جس طرح تخلیقی مراحل سے گزر کر انسان اس دنیا میں آتا ہے اس طرح دیگر تمام مخلوقات بھی تخلیقی مراحل سے گزرتے ہیں۔۔پیدا ہونا۔۔۔جوان ہونا۔۔۔بوڑھا ہونا اور مر جانا۔

          آج ہم اس بات پہ غور کریں گے کہ سب کچھ یکساں ہوتے ہوئے انسان کا شرف کیا ہے؟ انسان بیدار رہتا ہے پھر تھک کر سو جاتا ہے۔۔یہ مجبوری حیوانات میں بھی ہے۔ انسان عقل استعمال کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔۔بہت سارے جانور ایسے ہیں جو عقل میں انسان سے برتر ہیں۔

          پھر آپ نے اس ضمن میں چند ایک مثالیں دینے کے بعد فرمایا کہ انسان میں ایک ایسی ایجنسی ہے جو اُس کو علم سکھانے میں معاون ہے۔۔یہی علم اور یہی ایجنسی وہ ہے جس کی بنا پر انسان کو شرف حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم سکھایا۔۔ان علوم کو اللہ نے علم الاسما کہا ہے۔۔ اسی علم کی بنیاد پر فرشتوں نے آدم کی برتری کو قبول کیا۔۔۔ اور آدم کو سجدہ کیا۔ اب وہ علم کیا ہے جس کی بنا پر انسان کو شرف حاصل ہے؟

          اب ایک علم یہ ہے جو ہم سیکھتے ہیں۔۔۔ اس کو سیکھ کر کوئی ڈاکٹر بن جاتا ہے۔۔ کوئی وکیل بن جاتا ہے اور کوئی سائنسدان۔ اسی طرح ایک علم وہ ہے جو ہمیں اُن دنیاؤں کے بارے میں بتاتا ہے جو انسان کے عام مشاہدے میں نہیں ہیں۔

          اس علم کے مطابق خیال کا انا۔۔ایک اطلاع ہے۔ ہم پانی پیتے ہیں۔۔اگر خیال نہ آئے تو ہم پانی نہیں پی سکتے۔اسی طرح ہم دفتر جاتے ہیں ، سوتے ہیں روح دیتی ہے۔ ہماری روح ہی اصل انسان ہے۔ اگر انسان کے اندر روح نہیں تو وہ کوئی کام نہیں کر سکتا۔۔ انسان کے اندر اگر روح ہے تو اس کے اندر حرکت ہے۔ موت کے بعد یعنی جب روح اس جسم کو چھوڑ دیتی ہے تو سب اعضاء ہونے کے باوجود انسان کسی بھی قسم کی کوئی حرکت نہیں کر سکتا۔

          اس لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو انسان اور دیگر مخلوقات میں کوئی فرق نہیں۔۔اس ضمن میں وہ بھی ایسی ہی صورت  حال سے دو چار ہیں۔۔۔ اس بات کو اب مزید دھیان سے سمجھنا چاہئے۔

          ہر انسان لباس پہنتا ہے۔ لباس کو جسم انسانی سے الگ کر کے۔۔اُس کو حرکت نہیں دی جا سکتی۔ ہمارا مادی جسم ہمارے لباس کی مانند ہے۔ یہ ہماری روح کا لباس ہے۔ جب تک ہماری روح اس لباس کو پہنے رہتی ہے۔۔اس کو سنبھالے رکھتی ہے۔۔۔ یہ جسم حرکت کرتا ہے۔

          اب یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ روح کیا ہے؟ روح میرے رب کے امر سےہے۔ روح اللہ کا امر ہے۔۔۔روح کی بابت علم قلیل ہے۔ اللہ کا علم لامحدود ہے۔۔۔ تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور تمام درخت قلم بن جائیں تو بھی اللہ کی باتوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لامحدود علم کا جزو اور قلیل بھی لامحدود ہی ہوتا ہے۔

          روح امر رب ہے۔۔۔اور امر رب یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کن کہہ کر اُس کو وجود بخش دیتا ہے۔ جب اللہ نے کن کہا تو روح بنی۔۔۔اور فیکون کی صورت میں اُس کا مظاہرہ ہوا۔ اللہ نے عالم ارواح میں پوچھا کیا نہیں ہوں میں تمہارا رب۔۔۔تو روحوں نے اقرار کیا اور کہا جی ہاں۔۔۔آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ روح جو ہماری اصل ہے۔۔۔وہ روح اللہ کی ربوبیت کا اقرار بھی کر چکی ہے۔۔۔ اُس کو دیکھ بھی چکی ہے۔ ہمارا مادی جسم اسی روح کے تابع ہے۔ انسان کا مادی جسم دو نمبر ہے روح ہی ایک نمبر جسم ہے۔ جب آدم کو علم الاسما سکھائے تو آدم علیہ السلام کو منتقل ہونے والے علوم، خصوصیات اور نقوش اُس کی نسل کو بھی منتقل ہو رہے ہیں اور یہ وہی علوم ہیں جن کی بنیاد پر انسان کو فرشتوں نے سجدہ کیا۔

          آج کا سائنسدان اگر روح نہیں۔۔۔۔اگر اُس میں حرکت نہیں۔۔۔اگر اُس میں اوپر سے آنے والی انسپائریشن کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں تو وہ ایجاد کیسے کر سکتا ہے؟ سائنسدان جو کچھ بھی کرتا ہے اسی روح ہی کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اب وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے یا یہ ایک الگ بات ہے۔

          قرآن  پاک میں معاد۔۔۔علم غیب۔۔۔۔یعنی غیب کی دنیا کو جاننے کے لئے غورو فکر کو لازمی قرار دیتا ہے۔ اللہ کی نشانیوں پر تفکر کرنا اسلامی تعلیمات کا جزو اعظم ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات پہ گہرائی میں غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ سب انتظام ہمیں اپنی روح سے واقف کروانے کے لئے کیا گیا ہے۔ مثلاً جب ہم نماز قائم کرتے ہیں اور اُس میں ہمیں یکسوئی حاصل ہو جائے تو ہم اپنی روح کے قریب ہو جاتے ہیں۔ جب تک آپ کی ذہنی صلاحیت ایک نکتے پر مرکوز نہ ہو جائے آپ کوئی بھی کام نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کا دھیان اور توجہ کیس پہ نہ ہو تو آپ کیس کی تیاری نہیں کر سکتے، اپنے موکل کے دفاع کا کوئی نکتہ آپ کے ذہن میں نہیں آ سکتا۔ اگر کوئی جج توجہ سے آپ کی بات سُن رہا ہو تو وہ درست فیصلے پہ نہیں پہنچ سکتا۔

          ایک طریقہ اسلامی تعلیمات پر غور و فکر کر کے روح سے آشنائی پیدا کرنا ہے اور دوسرا طریقہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کا اتباع کر کے اپنی روح سے واقف ہونا ہے۔ آپ ﷺ نے تین سال تک غارِ حرا میں اللہ کی نشانیوں پہ غور و فکر کیا۔۔۔ اتنا عرصہ ذہن ایک ہی نکتے پہ مرکوز رہا تو اللہ نے گروہ ملائے اعلیٰ کے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ اسلام کو حضورﷺ کے پاس بھیجا اور وہ اقرا بسم ربک الذی خلق کا پیغام لے کر آپ کے پاس آئے ۔

          ہم نے اس بات کو بنیاد بناتے ہوئے غوروفکر کرنے کے نظام مراقبہ پہ کام کیا ہے۔ اس کے باقاعدہ سلپس مرتب کئے ہیں۔ مراقبہ یعنی (Meditation) کی باقاعدہ کلاسیں منعقد کر کے انسان کو اپنی روح کا کھوج لگانے کا طریقہ سکھا رہے ہیں ۔ انسان کے اندر کھوج ہو تو وہ ہر چیز کو تلاش کر لیتا ہے۔

          آپ ایک جگہ اور وقت متعین کر کے اس بات پہ غور و فکر کریں گے کہ کیا ہمارے جسمانی مادی وجود کی کوئی اصل ہے؟ اگر ہے تو وہ ہوا ہے، پانی ہے ، غذا ہے۔۔۔تو ہم اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ اس مادی وجود کی اصل یہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک طاقت ہے۔۔۔ایک توانائی ہے۔۔۔یہ طاقت یا توانائی ہمیں ہماری روح مہیا کرتی ہے۔ اس طاقت اور توانائی کی اصل روح ہے۔ یہ سب روح ہے۔ انسان روح سے اُس کی حرکت سے واقف نہیں ہے تو وہ بے سکون رہتا ہے۔۔۔۔مال و دولت کے باوجود وہ بے سکون اور بے آرام رہتا ہے۔ اگر انسان کی زندگی میں سکون نہیں ہوگا تو وہ بیمار ہوگا۔۔۔ خوش رہنے والے بندے کی صحت اچھی رہتی ہے۔ ہم سب کچھ ہونے کے باوجود بے سکون اور بے چین کیوں ہیں کیونکہ ہم اپنی اصل روح سے واقف نہیں ہیں۔

          اگر ہم عرفان حاصل کرنے کی جدو جہد نہیں کریں گے تو سکون اور خوشی حاصل نہیں ہوگی۔۔۔روح کا ادراک حاصل کریں تو اللہ سے دوستی ہو جاتی ہے۔۔۔ذکر کرنے سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے۔ خانقاہی نظام کے تحت مادی وجود کی نفی کر کے اصل وجود سے واقف اور آگاہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ انسان اپنے اندر جاری روحانی تحریکات سے مسلسل اور مستقل طور پر آگاہ رہ سکے۔

          اللہ کو پہچاننے اور اللہ سے دوستی کرنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ غور کریں۔۔جس قدر انہماک ہو گا اُسی مناسبت سے روح کے علوم آپ پر آشکار ہوں گے۔ ہم سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ سورج تو سبھی مخلوقات کو روشنی فراہم کرتا ہے۔ وہ کسی کو اپنی ضیا پاشیوں سے استفادہ کرنے سے منع نہیں کرتا۔۔۔ایسا نہیں ہے تو پھر تو سورج کا بنی آدم کے لئے مسخر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اگر ہم غور کر کے ۔۔۔تفکر کر کے ۔۔۔ آدم کے اس ورثے کو حاصل کریں گے تو سورج سے متعلق تمام علوم ہم پر واضح ہو جائیں گے۔

مسلمان جیسے جیسے غور و فکر سے دور ہوتے گئے۔۔اُن پر علوم کے دروازے بند ہوتے چلے گئے اور وہ دنیا میں پست ہوتے چلے گئے۔ اب اگر وہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں آدم کے ورثے کو کھوجنے کے لئے غور و فکر کرنا ہی ہوگا۔

          اپنی روح سے۔۔۔۔اپنے رب۔۔۔۔اپنے اللہ سے واقفیت پیدا کرنے کے سفر کے آغاز کرنے کو آپ نے انہیں نیلی روشنی کا مراقبہ کرنے کا طریقہ بتا کر اپنے خطاب کو سمیٹ دیا۔

          سوال جواب کی اجازت ملنے پر کئی وکلا نے سوال دریافت کئے۔ ایک صاحب نے پوچھا۔ کیا روح کا کوئی تشخص ہوتا ہے اور کیا وہ تشخص قائم رہتا ہے اور کیا اُس سے کوئی رابطہ کیا جا سکتا ہے؟

          اس کے جواب میں آپ نے وضاحت فرمائی کہ روح کا ایک تشخص ہوتا ہے اور اُس کی بنیاد اللہ کی صفات ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے کہ میں نے انسان کو اپنی صورت پہ پیدا کیا ہے۔ یعنی انسان میں اپنی صفات کا عکس پیدا کیا ہے۔ اسی لئے اللہ کی صفات کو جاننے اور کھوجنے کا حکم بار بار دیا گیا ہے تاکہ انسان اپنی روح کی خفتہ صلاحیتوں سے واقف اور آگاہ ہو سکے۔ جہاں تک روح کے تشخص سے رابطے کا تعلق ہے تو وہ اسی بات سے ثابت ہے کہ اہلِ قبور کو سلام کہنے کا حکم حدیث شریف سے ثابت ہے۔ پھر یہ بات بھی بتائی کہ خواب کا جسم یعنی انسان کا وہ جسم جو حالت خواب میں متحرک ہوتا۔ وہ روح سے بہت قریب۔

          ایک اور سوال یہ پوچھا گیا کہ نارمل حالات میں روح کو خوش گوار بنانے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ اس پہ آپ نے سوال میں غلطی کی نشاندہی کرنے کی بجائے اُس کو اپنی مخصوص مسکراہٹ کی اوٹ میں لیتے ہوئے فرمایا۔ روح کو خوش کرنے کا طریقہ بہت آسان ہے۔ روح ہر اُس چیز سے خوش ہوتی ہے جس سے اللہ خوش ہوتا۔

          ایک اور وکیل صاحب نے جرح کی۔اگر انسان جبلت کے تحت زندگی گزار رہا ہے تو پھر انبیا علیہ السلام کی تعلیمات کس کے لئے ہیں؟

          آپ نے بُرا منائے بغیر فرمایا۔ اگر چہ انسان جبلت کے ہاتھوں پابند ہے تو اللہ تعالیٰ نے اُس کو جبلت پہ کنٹرول کا اختیار بھی تو دیا ہے ۔ پھر اس کی دلیل یہ ارشاد فرمائی کہ غصہ بھی ایک جبلت ہے لیکن انبیا نے غصہ نہیں کیا۔

          ایک اور بہت دلچسپ سوال یہ دریافت کیا گیا۔ روح کا ایمان سے کیا تعلق ہے؟

          اس کے جواب میں آپ نے اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ بتائی کہ انبیا کرام کے علوم کے مطابق زندگی ہونا ہی ایمان

ہے۔ زندگی نہ ہو تو ایمان بھی زیرِ بحث نہیں آ سکتا۔

          محفل کا اختتام ہوا تو بیشتر وکلا کے اندر دور کرتی اطمینان کی لہریں واضح طور پہ محسوس ہو رہی تھیں۔

          لاہور سے واپس پشاور پہنچ کر وہ اپنے مرشد کریم سے سُنی ہوئی باتوں پہ غور کرتا۔۔اُن کو لوگوں کے سامنے بیان کرتا۔ اس طرح اپنے آموختہ کو دہراتا اور اس کو اپنے اندر اتارنے جدو جہد کرتا۔ جب لوگ اُس کی باتوں میں دلچسپی لیتے تو اُس کو اچھا لگتا اور وہ مزید کھلتا چلا جاتا۔

          ایک روز اُس نے مرشد کریم سے فون پر بات کی۔ انہوں نے روزگار اور کاروبار کی بابت دریافت کیا۔ اُس نے کہہ دیا کہ آج کل کام دھندا تو ہے نہیں دب بھر ایک دوسرے کی صورت دیکھتے اور دن تمام کرتے ہیں۔

          فرمایا۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ آپ ایک دوسرے کی صورت تو دیکھتے ہیں۔۔۔ بھئی یہ بھی کوئی آزمائش ہی ہوگی۔۔آپ فکر نہ کریں اللہ سب ٹھیک کر دے گا۔ پھر فرمایا۔ شیر بہت بن لئے اب بکری بن جائیں۔۔گوشت کھانا چھوڑ دیں۔۔ اللہ خیر کرے گا۔


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔