Topics

مور کے پر چتھے چتھائے

          ایک ماہ بعد حضور پشاور تشریف لائے۔ ورسک روڈ پہ مراقبہ ہال کے لئے خریدی گئی زمین دیکھ کے فرمایا۔ یہاں قبرستان کے لئے زمین لیں اور وہاں چار دیواری نہیں تو باڑ لگا کر عظیمیوں کے لئے ایک احاطہ مخصوص کر لیں اور پھر اُسے یونہی نہ چھوڑ دیں بلکہ اُس کی دیکھ بھال کریں وہاں پودے لگائیں ۔ قبرستان میں ایک حسن اور ترتیب ہونی چاہئے۔

          فرمایا۔ مردے تبھی اپنی قبروں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جب وہاں کوئی آتا جاتا رہے۔

          پھر ایک حکایت سنائی کہ ایک بار کسی مسافر نے راہ میں بیٹھے ایک فقیر سے بستی کا راستہ پوچھا۔ اُس نے اشارے سے کہا۔۔اُدھر۔۔وہ مسافر چلتے چلتے قبرستان جا پہنچا۔ قبرستان دیکھ کر بہت ناراض ہوا۔ واپس ہوا اور فقیر کے پاس پہنچ کر کہا۔ میں نے تم سے بستی کا پوچھا تم نے مجھے قبرستان کا راستہ بتا دیا۔ فقیر بولا۔ مجھے یہاں بیٹھے سالوں ہوگئے ہیں۔ ادھر سے جو بھی گیا۔۔واپس نہیں آیا ۔۔اصل بستی وہی ہوئی نا۔

          پھر اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا۔ ایک بار اچانک مجھے قبرستان جانے کا شوق چرایا۔ میں قبرستان چلا جاتا ادھر اُدھر گھومتا رہتا اور قبروں کے کتبے پڑھتا۔ ایک روز میں نے ایک قبر پہ بہت خوبصورت سے لگی باڑ وغیرہ دیکھی۔ بیٹھنے کی جگہ بھی بنی ہوئی تھی۔ بیلیں وغیرہ لگا کر ٹھیک ٹھاک جگہ بنائی ہوئی تھی۔ میں نے جا کر وہاں بیٹھنا شروع کر دیا۔ فاتحہ کے بعد مراقبہ وغیرہ کیا کرتا۔ ایک روز صاحبِ مزار سے ملاقات ہوئی۔ میں نے دیکھا وہ تکلیف میں ہیں۔ مجھے ترس آگیا۔ میں نے اُن کے لئے دعا کی اور جو کچھ کر سکتا تھا کیا۔ اللہ نے کرم کیا۔ اُن کی تکلیف ختم ہوگئی۔ اس کے بعد اچانک ہی میرا شوق ختم ہو گیا۔ اب نہ قبرستان جانا اور نہ کتبے پڑھنا۔ ایک روز میں نے حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صاحب اپنی زندگی میں بہت امیر کبیر تاجر تھے۔ اُن میں ایک خوبی تھی کہ وہ فقیروں سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ محض اس عقیدت کی وجہ سے اللہ نے مجھے وہاں بھیجا کہ میں اُن کے لئے کچھ کروں۔

          اتنا کہہ کر آپ خاموش ہوگئے اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لی اور پنڈال میں بیٹھے سبھی لوگ آپس میں بات کرنے لگے۔ کچھ انتظامات کی بات کر رہے تھے کہ چائے کہاں لگائی جائے۔۔مردوں کو الگ دی جائے۔۔خواتین کے لئے انتظام کہاں ہو۔۔۔اور کچھ اُن کی بتائی گئی باتوں پہ اپنا اپنا تبصرہ کر رہے تھے۔

          مرید نے دیکھا کہ حضور کی طرف کوئی متوجہ نہیں تو وہ کھسک کرقریب ہو بیٹھا اور کچھ توقف کے بعد سبع من المثانی۔۔۔سات دہرائی جانے والی آیا ت اور قرآن حکیم عطا کرنے کے حوالے سے دریافت کیا کہ جب قرآن عظیم کا عطا کیا جانا فرما دیا تو پھر سات دہرائی جانے والی آیا ت کو الگ سے بیان کرنے میں کیا حکمت ہے اور یہ کونسی سات آیا ت ہیں؟

          فرمایا۔ کہتے ہیں کہ یہ سورہ فاتحہ کی طرف اشارہ ہے۔ آیت تو نشانی کو کہتے ہیں۔ پھر سورہ فاتحہ کی ساتوں آیا ت کی ایک ایک کر کے تلاوت فرماتے ہوئے۔۔اُن کا ترجمہ کر کے بتایا کہ سات نشانیاں۔۔زمین و آسمان، آب وجل اور بارش ، جمادات، نباتات، حیوانات بشمول چرند پرند اور حشرات، فرشتے جنات اور انسان سبھی کچھ ہیں۔

          رب العالمین یعنی عالمین کو وسائل فراہم کرنے والی ہستی۔۔مالک یوم الدین۔۔حشر نشر۔۔روزِ حساب۔۔۔جس روز ریکارڈ دہرایا جائے گا۔۔ یعنی ایک فلم ہے اس کو بار بار دہرایا جاتا ہے۔۔اُس سے ہر بار ایک نیا تاثر پیدا ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ آپ ایک ہی بات کو بار بار دیکھ کر عادی ہو جائیں گے۔۔آپ ہر روز سورج دیکھتے ہیں کیا آپ عادی ہو گئے؟

          عبادت اور استعانت کی کی درخواست اور ایاک یعنی یہ عہد کہ اسی ذات سے استعانت طلب کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ صراط مستقیم۔۔۔ پیغمبروں کا راستہ ۔۔انعام والے لوگ یعنی پیغمبروں کی تعلیمات پر عمل کرنے والے لوگ۔۔اولیا کرام اور اُن کے پیرو کار۔۔۔۔ اور غیر المغضوب۔۔یعنی وہ باقی تمام لوگ جو انعام والے نہیں ہیں۔

          فرمایا۔ من المثانی۔۔یعنی یہ سب نشانیاں دہرائی جاتی ہیں ۔۔۔دہرائی جانے والی ہیں۔ بھئی اسی لئے تو حضور نے اس سورۃ کی تلاوت ہر نماز کی ہر رکعت میں کرنا لازم فرمایا ہے لیکن کوئی غور کرے تو معلوم ہو۔

          جونہی حضور کی بات مکمل ہوئی۔۔اقبال قریشی صاحب نے چائے پینے کی دعوت اپنے مخصوص تحکمانہ انداز میں دی۔۔ حضور مسکراتے ہوئے صوفے سے اُٹھ کر اس طرف چل دیئے جہاں چائے کا انتظام کیا گیا تھا۔

          اس دوران یہ بات بھی طے ہوگئی کہ صبح ابا حضور بذریعہ جہاز سوات جائیں گے اور باقی سب لوگ گاڑیوں اور بسوں میں سوات جائیں گے۔ ایڈوانس پارٹیاں اعلیٰ الصبح روانہ ہوں گی۔

          شام تک موسم نے پلٹا کھایا۔ گنگھور گھٹائیں چھا گئیں۔ خبر آئی کہ موسم کی صورت حال کے پیشِ نظر ہو سکتا ہے کہ صبح پرواز نہ جا سکے۔ مزید تفصیلات کے لئے صبح کا انتظار کرنا ہوگا۔ مرید نے یہ جاننے کے لئے صبح دم فون کیا تو معلوم ہوا کہ فلائٹس کینسل ہوگئی ہیں اور اب پروگرام یہ ہے کہ ابا حضور اور میاں مشتاق احمد مرید کے ہمراہ سوات گاڑی میں جائیں گے۔ مرید اس سعادت پہ پھولا نہیں سما رہا تھا کہ وہ اُس گاڑی کا ڈرائیور ہوگا جس میں اُس کا مراد بیٹھے گا اور وہ بھی مسلسل سوات تک جانا وہاں گھومنا پھرنا اور پھر واپس آنا۔

          پشاور سے نکلے تو تیز بارش شروع ہوگئی۔ گاڑی کے شیشے بند کیے تو نمی نے انہیں دھندلا دیا۔ گاڑی کا ہیٹر کام کرنے سے انکاری تھا۔ مرید کو گاڑی چلانے کے ساتھ ساتھ گاڑی کا شیشہ کپڑے سے بار بار پونچھنا پڑ رہا تھا۔ نمی شیشوں سے باہر کا منظر دھندلا رہی تھی۔

          اس دوران میاں صاحب نے مرشد کریم سے کہا۔ میں نے مقصود صاحب سے فرمائش کی ہے کہ سفر نامے کی طرز پہ ایک کتاب لکھ کر دیں تو اُسے چھاپ میں دوں گا۔ اس پر مرشد کریم نے فرمایا۔ ہاں بھئی کیوں نہیں۔۔ پھر اُسے مخاطب ہو کر فرمایا۔ انیسہ عرفان نے جو سفر نامہ ایران لکھا وہ بہت مقبول ہوا۔ لوگوں نے اُسے بہت پسند کیا۔ بھائی جان نے بھی اُس پہ بہت محنت کی۔ کئی میٹنگیں ہوئیں۔ ایک عورت ہو کر۔۔۔۔پہلی بار لکھا اور اچھا لکھا۔

          میاں صاحب نے تبصرہ کیا۔ اُس میں آپ کی باتیں بہت کم تھیں اور ایران بہت زیادہ تھا۔

          فرمایا۔ میں اور آپ کی امی بیٹھے رہتے تھے۔۔ یہ لوگ سیر کرتے گھومتے پھرتے تھے۔۔ اب ہم پہاڑوں پہ چڑھ بھی تو نہیں سکتے نا۔۔ وہاں کوئی زیادہ باتیں بھی تو نہیں ہوئیں۔۔۔اب خاموش رہنے کو جی چاہتا ہے۔۔۔ پہلے بہت بولا کرتا تھا۔۔۔یوں لگتا تھا گویا اندر کوئی ٹیپ ریکارڈر لگا ہو۔۔۔ ہر وقت بولتا رہتا تھا۔۔جو بات بھی اللہ ذہن میں ڈالتا جی چاہتا کہ سب کو سناؤں۔۔لیکن اب ساتھ میں یہ خیال آجاتا ہے کہ کیا فائدہ؟ اللہ نے یہ بات اب جا کر کہیں مجھے سمجھائی میں اُس کو کسی کے سامنے بیان کروں بھی تو کیا۔۔ جب اللہ سمجھانا چاہے گا تو وہ خود ہی سمجھا دے گا۔

          پھر مرید سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ آپ یہ کتاب ضرور لکھیں۔ ویسے لوگ ماورائیت کی باتیں شوق سے پڑھتے ہیں۔

          مرید سوچ میں پڑ گیا کہ ماورائیت سے کیا مراد؟ انہوں نے کس خوبصورتی سے میاں صاحب کے تبصرے کا ڈنک بے اثر کر دیا تھا۔ کیا یہ ماورائیت نہیں ہے؟ کیا بادلوں سے اوپر اڑان ہی نام ماورائیت ہے؟ ابھی اُس کی سوچ یہیں تک پہنچی تھی انہوں نے ارشاد فرمایا۔ بھئی آپ نے تو بادلوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

          مرید نے تنبیہ کو ستائش جانے کی غلطی کی اور خوش ہوا۔ بارش کی بوچھاڑ میں اچانک Diversion کا ایک بورڈ نگاہوں کے سامنے ابھرا۔ مرید نے یکبارگی بریک کو دبایا اور سڑک کے عین بیچ میں رکھے بورڈ سے بچنے کو اسٹیئرنگ گھمادیا۔۔گیلی سڑک پہ یکبارگی بریک لگانے سے گاڑی پھسلتی ہوئی دور رو یہ سڑکوں کے درمیان نشیب میں ایک درخت کو کچلتی ایک جھٹکے سے رک گئی۔

          جھٹکا لگنے سے گاڑی کے اندر پڑا گلاس اچھلا۔۔ڈیش بورڈ سے ٹکرایا اور کرچی کرچی ہوگیا۔ گاڑی اور اس میں سوار سب بالکل محفوظ و مامون تھے۔ مرشد  کریم نے مرید کو تسلی دی۔ اللہ کا شکر ہے کہ خیر ہوگئی۔ اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔ پھر میاں صاحب کی خیریت دریافت کی۔ میاں صاحب نے اپنی خیریت کا بتا کر حضور کی خیریت کا پوچھا۔

          مرید اپنی لاپرواہی پہ شرمندہ گنگ بیٹھا تھا کہ قافلے کی تمام گاڑیوں سے لوگ اتر کر دیوانہ وار اپنے مرشد کی گاڑی کی طرف لپکے چلے آئے ۔ نیاز صاحب اور اُن کے دیگر ہمراہی بارش کی پرواہ کئے بغیر گاڑی کو دھکیل کر اُسے نشیب سے نکالنے کی تگ ودو کرنے لگے۔ حضور نے دروازہ کھولا اور گاڑی سے اترتے ہوئے فرمایا۔ خواتین پریشان ہو رہی ہوں گی۔۔ میں ذرا اُن کو تسلی دے دوں۔

          آپ پیچھے کھڑی گاڑیوں کی طرف بڑھے۔ نیاز صاحب نے یہ دیکھ کر کہ گاڑی کو وہاں سے دھکیل کر نہیں نکالا جا سکتا۔۔۔ وہاں سے گزرتے ایک ٹرک والے سے مدد کی درخواست کی۔ ٹرک والے نے کلینر کو کچھ کہا۔ وہ ٹرک کے اوپر چڑھا اور ٹول بکس سے ایک لمبی سی رسی کا گچھا نیچے اتارا۔رسی کو ٹرک کے اگلے حصے اور گاڑی کے پیچھے باندھ کر ڈرائیور کو پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔ گاڑی ٹرک کے زور سے پیچھے ہٹی تو اُس کے نیچے دبا درخت ابھرا اور سرو قامت کھڑا ہوگیا گویا اُس نے گاڑی کو تھامنے کی ڈیوٹی پوری کر دی تھی۔

          حضور یہ دیکھ کر گاڑی روانگی کے لئے تیار ہے نیاز صاحب کی گاڑی باہر آئے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔ مرید نے سوچا اگر مرشد کریم اُس کے ساتھ گاڑی میں مزید سفر کرنے سے انکار کر دیتے تو اُس پہ کیا بیتتی۔۔کیا پھر کبھی دوبارہ اسی اعتماد سے گاڑی چلا سکتا؟۔۔۔سب نے کہا بھی کہ اس گاڑی کا ہیٹر درست نہیں۔۔ اس گاڑی میں سفر غیر محفوظ ہے۔۔ ابھی تو سفر شروع ہی ہوا ہے اور مقصود صاحب کے حواس بے قابو ہو رہے ہیں۔۔۔آگے جا کر تو ملاکنڈ اور سوات لہراتی سڑکوں پہ سفر اور بھی خطر ناک ہو جائے گا۔ لیکن وہ سب کو تسلی دیتے آکر گاڑی میں بیٹھ گئے ۔۔گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔

          اس حادثے پہ فقط اتنا تبصرہ کیا کہ باہر ممالک میں کہیں راستے میں ٹریفک کو ناگہانی موڑنا ہو تو میلوں پہلے سے آگاہ کرنے کو بورڈ کھڑے کئے جاتے ہیں۔ یہاں کی طرح نہیں کہ موڑ کے عین اوپر جہاں راستہ بند کیا وہیں ایک بورڈ لٹکا دیا۔

          پھر امریکہ کے حوالے سے یہ بات ارشاد فرمائی کہ وہاں حکیم فیاض صاحب ہیں۔ بہت اچھے سرجن ہیں۔ جب وہ ڈاکٹری پڑھ رہے تھے تو انہوں نے مجھے فون کیا کہ میں کیا پڑھوں؟ میں نے کہا بھئی مجھے تو سرجن اچھے لگتے ہیں۔ کہنے لگے وہ تو میں کر ہی نہیں سکتا کیوں کہ جب میں نشتر پکڑتا ہوں تو میرے ہاتھ کانپتے ہیں۔ میں نے کہا اگر کرنا نہیں تھا تو پوچھا کیوں؟۔۔مشورہ کیوں لیا۔۔انہوں دوبارہ پوچھا۔۔میں نے پھر وہی جواب دیا۔۔ اب ماشاء اللہ خیر سے وہ بہت کامیاب سرجن ہیں۔ ایک بار جب میں اُن سے ملنے گیا تو پتہ چلا کہ اُن کے یہاں اولاد نہیں۔۔ میں نے کہا ۔ کیا بات ہے میاں تم بانجھ ہو یا تمہاری بیوی۔۔کہنے لگے نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔ صرف یہ سوچا ہے کہ جب تک ہم یہاں امریکہ میں ہیں۔۔۔ بچے نہ ہی ہوں تو اچھا ہے۔۔یہاں کا ماحول بچوں کے لیے اچھا نہیں ہے۔ میں نے اُن سے کہا۔ بھئی مجھے تو بچے اچھے لگتے ہیں۔۔اگر تم بچے نہیں لاؤ گے تو میں آئندہ تمہارے گھر نہیں آؤں گا۔ وہ کچھ زیادہ ہی دور اندیشی کر رہے تھے۔ اب ماشاء اللہ اُن کے تین بچے ہیں۔ اُنکی بیوی بھی ڈاکٹر ہیں۔

          خیر سے سوات پہنچے تو سندر سنگھ کے یہاں بھی گئے۔ گروہی تقسیم پہ بات ہوئی تو فرمایا۔ آپ نے اس ماہ کا صدائے جرس نہیں پڑھا۔ پھر اپنا بیگ منگوا کر روحانی ڈائجسٹ نکال کر مرید کو دیا اور پڑھنے کو کہا۔

          پھر فرمایا کہ دنیا ایثار پر قائم ہے۔ ہر چیز دوسری چیز کو کھا رہی ہے۔ ایک طرف انسان گندم کو کھا رہا ہے تو دوسری طرف گندم انسان کو کھا رہی ہے۔ اگر صرف انسان گندم کو کھا رہا ہوتا تو آج گندم ختم ہو چکی ہوتی۔ گندم نے خود کو انسان کے سامنے پیش کیا کہ مجھے کھاؤ۔ موم بتی جلتی ہے تو روشنی ہوتی ہے گویا روشنی موم بتی کو کھاتی اور موم بتی روشنی کو۔۔۔۔ اب باقی کیا بچا؟ سب نے کہا ۔۔کچھ نہیں۔

          فرمایا۔ ایثار بچا۔

          کچھ توقف کے بعد فرمایا۔ سب پھل ایک ہی طرح بننے کے باوجود ایک سے نہیں ہوتے بلکہ مختلف ہوتے ہیں۔ آپ ایک ٹرے میں مختلف پھل رکھ کر اُن پر غور کریں۔

          سوات میں رہنے والے سلسلے کے ایک بھائی نے سوال کیاکہ جو لوگ تصرف کر سکتے ہیں وہ مسلمانوں کی حالت سدھارنے کے لئے تصرف کیوں نہیں کرتے؟ مثلاً جب کوئی اسم اعظم سیکھنا چاہتا ہے اور وہ سیکھ بھی لیتا تو وہ اُسے دوسروں کے فائدے اور بھلے کے لئے استعمال کیوں نہیں کرتا؟

          فرمایا۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے قوانین کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک قانون بنا دیا ہے کہ آپ جس حالت میں رہنا چاہتے ہیں۔۔ رہیں۔۔کوئی آپ کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا ۔ اب اگر آپ کوئی اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو اصحاب تصرف کر کے آپ کی مدد کرتے ہیں مگر کسی بُرے کام میں آپ کی مدد نہیں کرتے۔

          فرمایا۔ یورپی اقوام کے لئے تسرف ہوتا ہے کیوں کہ وہ اس کے اہل ہیں۔۔آپ اس کے اہل ہو جائیں گے تو آپ کے لئے بھی ہوگا۔ آپ اپنی حالت سدھارنا چاہتے ہیں تو حکومتوں سے توقع نہ رکھیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا لیں اور مل جل کر کام کریں۔۔ ایجادات کریں۔ حکومتوں نے تو ہمیشہ ایجادات کرنے والوں کو سزا دی ہے ۔ گیلیو کو پھانسی کی حکم دے دیا کہ اُس نے دور بین کیوں بنائی۔ بھئیحکومت کو کیا پڑی ہے کہ آپ کی مدد کرے۔ آپ کوئی ایجاد کر لیں اور اگر کامیاب ہو گئی تو حکومت کی طرف سے گرانٹ بھی مل جائے گا اور اُس پہ ٹیکس بھی لگا دیا جائے گا۔ آپ اس اس پہ نہ بیٹھیں کہ حکومت آپ کی مدد کر کے آپ کی ایجاد مکمل کرا دے گی۔ آپ تو اپنے گھروں کے کوڑا کرکٹ کی صفائی کے لئے بھی حکومت ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ جو کام آپ کے کرنے کے ہیں۔۔وہ تو آپ کوخود کرنے چاہیئں۔

          پھر جانے کیسے بات کا رخ مرشد کی کہی بات نہ ماننے اور اُس کے انجام کی طرف مُڑ گیا۔ فرمایا۔ بڑے پیر صاحب ابو الفیض قلندر علی سہروردیؒ نے وصیت کی فلاں صاحب کو میرا نائب اور خلیفہ ہو نا چہایئے۔ اُن کے بعد اُن کی گدی پہ اُن کے بیٹےکو بٹھا دیا گیا۔۔ وہ جب تک زندہ رہے اونگھتے ہی رہے اور جوانی میں ہی فوت ہوگئے۔ اُن سے وہ انوار برداشت ہی نہ ہوسکے جو گدی کے متعلق تھے۔ اُس کے بعد اُن کے دوسرے بیٹے کو اُن کی جگہ بنا دیا گیا مگر اُن کو پھر بھی نہ بنایا جن کی بابت انہوں نے نصیحت کی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سلسلہ ہی ختم ہوگیا۔ مرید کے اندر کوئی گویا ہوا ۔ نافرمانی کا تو یہی انجام ہوتا ہے۔

          مرشد کی ذات سے متعلق انوار کا تذکرہ سن کر نیاز صاحب ، میاں صاحب اور ہمایوں صاحب تربیتی پروگرام میں اپنی شرکت کے حوالے سے بتا رہے تھے کہ وہاں سے آنے کے بعد کئی دن تک یہی محسوس ہوتا رہا تھا کہ ابا حضور ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ پاؤں رکھتے کہیں تھے اور پڑتا کہیں اور ہی تھا۔ حضور ان کی باتیں سنتے مسکراتے رہے فرمایا۔ جی ہاں تصرف کے اثرات ہوتے ہیں۔

          میاندم چلنے لگے تو نیاز صاحب نے دریافت کیا۔ آپ کس گاڑی میں تشریف رکھیں گے؟ فرمایا۔ جمشید کی گاڑی ٹھیک رہے گی۔۔ مقصود صاحب تو مجھے دیکھ کر جذبات میں آجاتے ہیں۔

          راستے میں ایک جگہ دیکھ کر قافلے نے پڑاؤ کیا۔ بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان لہراتی بل کھاتی سڑک کے کنارے ایک چبوترہ سا بنا ہوا تھا۔۔ اُس کے ایک سرے پر ایک پتھر لگا کر اُسے بطور مسجد استعمال کا عندیہ دیا گیا تھا۔ حضور کے لئے چادر بچھا کر جگہ بنائی گئی۔ سب انہیں گھیرے میں لے کر بیٹھ گئے۔ منظر کی خوبصورتی دیکھ کر نیاز صاحب کو مرشد کی تصویر اتارنے کا خیال آیا اور پھر چونک کر بولے۔۔ا فوہ۔ کیمرہ تو میں وہیں سوات بھول آیا ہوں۔۔ مسکرا کر کہا۔۔ آپ کیمرہ اس لئے بھول آئے کہ آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ کیمرہ رہ جائے۔۔ کیمرہ اس لئے رہ گیا کہ آپ بار بار اس بات کی تکرار کر رہے تھے کہ کہیں رہ نہ جائے۔۔ لہذا وہ رہ گیا۔

          انسانی شعور کی کتنی ہی ادائیں ایسی ہیں جنہیں سمجھنا محال ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے کس سہولت سے انہیں یہ بات تعلیم فرما دی کہ وسوسے اور خدشے کی ایک صورت یہ بھی ہوا کرتی ہے کہ آپ جس شے کی بابت جس قدر متفکر ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے تو ویسا نا ہوگویا ہم نے خود ہی طے کر دیتے ہیں۔

          فرمایا کہافرا سیاب اور حضرت لوط علیہ السلام کی عمر ایک ہزار پچاس سال تک ہوئی کیونکہ اُن کا ذہن ایسا تھا کہ وہ کسی کیفیت میں Invole نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً اگر انہیں اطلاع ملتی کہ آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے تو وہ کہتے۔۔یہ کون سی بڑی بات ہے۔۔ سبھی جانداروں کی اولاد ہوتی ہے ۔ اگر بتایا جاتا کہ فلاں مر گیا تو وہ کہتے سبھی نے مرنا ہے۔

          میاندم ایک ہوٹل میں چائے کے لئے رُکے۔ سڑک کنارے شروع ہو کر ہوٹل پہاڑ کے ساتھ ساتھ زینہ بہ زینہ بلند ہوتا، انگریزی طرز تعمیر کی جھلک لئے، تین چار منزلوں میں بنا ہوا تھا۔ اس کے لان میں فوارے اور موسمی پھولوں کی فراوانی نے منظر کو دلفریب بنا دیا تھا۔ چائے پینے کے دوران بات بکریاں چرانے کے حوالے سے شروع ہوکر پہاڑوں میں رہ کر ریاضتوں اور مجاہدوں تک آ پہنچی تو فرمایا۔ یہاں اس ہوٹل جیسی عمارت لے کر اس سلسلے کے افراد کے لئے ایک تربیتی ادارہ بنا دیا جائے۔ سالکین آ کر یہاں رہیں۔ سال چھ ماہ قیام کریں۔ اس پروگرام میں تین تا چھ ماہ بکریاں چرانا بھی شامل ہو۔ سب نے تجویز کی تائید کی اور سراہا۔ واہ ایسا ہو جائے تو مزہ ہی اجائے۔ نیاز صاحب نے تجویز دی کہ اسی ہوٹل کو خرید لیا جائے۔

          مرشد کریم نے دریافت کیا۔ اس ادارے کو چلانے کے لئے یہاں کس کو بٹھائیں گے۔ نیاز صاحب نہ جانے کیا سوچ کر مرید سے سرگوشی کی ۔ آپ کہیں کہ آپ تیار ہیں۔ مرید سن کر لرز گیا۔ اُس نے عرض کی میں ایسا نہیں سمجھتا۔۔ہاں اگر حضور خود حکم دیں تو پھر میں تیار ہوں۔ انہوں نے کما سادگی سے مرشد کریم کو مخاطب کر کے کہا۔ حضور ! مقصود بھائی کہہ رہے ہیں کہ اگر ابا کہیں تو میں تیار ہوں۔ آپ انہیں کہہ دیں یہاں رہیں اور اس ادارے کا انتظام کریں۔ مرشد کریم نے نظر بھر کر نیاز صاحب کو دیکھا۔ سب انہیں دیکھنے لگے کہ اب وہ کیا کہیں گے۔ کچھ تامل کے بعد فرمایا۔ ابھی مقصود صاحب کے بچے چھوٹے ہیں۔۔ اُن پہ اپنے بچوں کی ذمہ داریاں ہیں۔

          چائے سے فارغ ہو کر پورے ہوٹل کا باقاعدہ معائنہ ہوا۔ اب سب اسے ایک مختلف حوالے سے دیکھ اور پرکھ رہے تھے۔ استقبالیہ پہ ایک صاحب اس کے مالکوں کا پوچھ رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ وہ کراچی کا کوئی سیٹھ ہے۔ انہوں نے اُس کا نام پتہ لا کر ابا کو دیا تاکہ کراچی میں اُن سے رابطہ کر کے اس ہوٹل کا سودا کیا جا سکے۔

          ہوٹل کی سیڑھیاں اترتے ہوئے میاں صاحب نے کہا کہ انہوں نے زندگی میں سفر بہت کئے ہیں۔ سلسلے میں آنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔

          فرمایا۔ سفر کرنا فقیر کی خاصیت ہوتی ہے۔ آپ تو شروع سے ہی فقیر ہیں۔ پھر فرمایا مور کے پر چتھے چتھائے ہوتے ہیں یعنی پر مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ طے ہو چکا ہوتا ہے کہ ان پروں پر کیسا ڈیزائن ابھرے گا۔

          سوات واپس پہنچے۔سندر سنگھ کے گھر کے ساتھ بنے ایک وسیع و عریض مہمان خانے میں قیام کا بندوبست کیا گیا تھا۔ رات کھانے کے بعد سوال جواب کی نشست رہی۔ پھر یہ کہتے ہوئے اُٹھ گئے کہ صبح مراقبے کے لئے آنکھ نہیں کھلے گی ۔۔۔۔سو جائیں۔

          صبح ناشتے کے بعد مینگورہ سے آگے مدین کے قریب پکنک کا پروگرام تھا۔ وہاں گئے اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے دوپہر ہو گئی تو دریا کنارے ایک جگہ دیکھ کر نیاز بھائی نے دریاں چادریں بچھانے کا حکم دیا۔ وہاں جگہ جگہ بھینسوں کے سوکھے گوبر بھی پڑے تھے۔ کچھ افراد چولہا جلانے ، کھانا پکانے میں لگ گئے ۔ ایک دو افراد کو۔۔گاڑی دے کر ۔۔۔ قریب کے کسی تنور سے روٹیاں لانے بھیجا گیا۔ کھانا پکنے اور روٹیاں آنے میں سہ پہر ہوگئی۔۔کھان کھاتے کھاتے چار بج گئے۔ مرشد نے دھوپ کا چشمہ لگا لیا تھا۔

          مرید نے انہیں دھوپ کا سیاہ چشمہ پہنے دیکھا تو اُس کو کچھ یوں محسوس ہوا گویا انہوں نے خود کو اپنے اردگرد کے ماحول سے

بے تعلق سا کر لیا ہے یا جیسے وہ اُن سے کچھ دور ہٹ گئے ہیں۔ وہاں ہوتے ہوئے بھی وہ وہاں نہیں ہیں۔۔۔ اُن کے انداز میں بے تعلقی سی در آئی تھی۔

          ایسے میں کوئی بات کہاں ہوتی۔ سب احترام سے بیٹھے انہیں دیکھتے رہے۔ کھانا ختم ہوتے ہی واپسی کا سفر شروع ہوا۔مینگورہ میں شام کو نیاز صاحب اور میاں صاحب کے ہمراہ سید و شریف کے مزار پہ گئے۔ نیاز صاحب سیدو بابا کے بارے میں بتا رہے تھے کہ بادشاہ وقت ان کے دربار میں حاضری دیا کرتے تھے۔

          مزار کے راستے پہ چند ایک ملنگ نما افراد کا سہ گداگری پھیلائے ، اکا دکا زائرین کی صورتیں دیکھ رہے تھے۔ مزار کی حالت اور رکھ رکھاؤ میں عقیدت اور دلچسپی کے بجائے بے دلی اور بے توجہی کا تاثر نمایاں تھا۔ منتظمین اپنی ادھیڑ بن میں مصروف۔۔زائرین اپنی سوچوں میں غلطاں صاحب مزار سے بے جا غلط توقعات لگائے۔

          مرشد کریم نے احاطہ مزار سے باہر نکلتے ہوئے تبصرہ کیا۔ بادشاہ وقت سے تعلقات والی بات کے اثرات تو محسوس نہیں ہورہے۔ مینگورہ کے گرین بازار میں ڈھلتی شام میں بجلی کے تاروں پہ سینکڑوں نہیں ہزاروں ابا بیلوں کو پہلو بہ پہلو بیٹھے دیکھ کر اچنبھا اور حیرت ہوئی۔ وہاں رہنے والوں کے لئے اس منظر میں کوئی ندرت نہ تھی وہ یہ منظر روزانہ ہی دیکھتے تھے۔ لیکن باہر سے آنے والے انہیں دیکھنے رک جاتے اور پوچھتے آندھی بارش میں یہ پرندے کہاں جاتے ہوں گے ، اُن پہ ایسے میںن بیتتی ہوگی؟ ذہن میں آنے والے سوال کا جواب نہ ملے تو سوال حیرت کا اظہار یہ ہو جاتا ہے۔۔سو اُس وقت بھی یہی ہوا۔

          وہاں چوک سے آگے بڑھے تو نیاز صاحب نے سوات مراقبہ ہال کے لئے سندر صاحب کا اپنے گھر کی پیشکش کا تذکرہ کیا تو فرمایا۔ یہ مناسب نہیں رہے گا۔ لوگ بہت تنگ نظر ہیں انہیں بہانہ مل جائے گا ۔ پھر کہا ۔ نیاز بھائی آپ بھی بات کو سوچ تو لیا کریں۔ اب آپ مجھے اتنے عرصے سے بلا تو رہے تھے لیکن کوئی مناسب پروگرام طے نہیں کیا۔ آپ کو چاہئے تھا کہ میرے قیام کا کوئی ایسا بندو بست کرتے جہاں میں کسی پہ بوجھ نہ بنتا۔آزادی سے رہتا۔ اب لوگوں کے گھروں میں رہنے سے پہلا مسئلہ یہی ہو جاتا ہے کہ لوگ مجھے ملنے آتے ہیں تو میزبان پہ مزید بوجھ پڑتا ہے۔ ایک وہ بے چارہ میری میزبانی کرے اور اوپر سے میرے مہمانوں کی بھی مہمانداری کرے۔ یہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ آپ آئندہ جب بھی انتظام کریں تو ان باتوں کا خیال رکھا کریں۔

          پھر اپنی بات کو مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ اب پکنک کے لئے پہلے سے کسی مناسب جگہ کا تعین نہ ہونے کے سبب یہ ہوا کہ آپ کو اپنے مرشد کو گوبر کے پاس بٹھا کر کھانا کھلانا پڑا۔ کھانا تیار ہونے میں ہی چار بج گئے۔۔یہ سب اس لئے ہوا کہ آپ لوگ ہدایات کو نظر انداز کرتے ہیں۔۔۔میں نے کہا بھی تھا کہ زیادہ لوگ ہمراہ نہ ہوں پھر بھی اتنے لوگ ہمراہ ہو لئے۔۔ایسے میں بھلا کیا انتظام ہوتے۔۔۔ بھیڑ میں انتظامات ہوں بھی تو کیسے۔

          نیاز بھائی سر جھکائے بات سن رہے تھے اور مرید سوچ رہا تھا کہ آپ نے یہ بات سمجھانے کو کتنے تحمل سے موقع تلاش کیا۔ اب تک کسی کو خبر نہ تھی وہ جوش عقیدت میں کیا کیا غلطیاں کر رہے ہیں اور اپنے مرشد کے چہرے پہ مسکان دیکھ دیکھ کر سمجھ رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہو رہا ہے ۔

          اگلے روز پشاور کی طرف روانگی ہوئی۔ راستے میں ایک جگہ کچھ لینے کے لئے رُکے تو وہاں جھولے دیکھ کر ایک بچہ مچل گیا۔ باپ نے سوچا کہ بچے کو اجازت دی اور میرا قافلہ روانہ ہوگئے تو کیا ہوگا۔ اُس نے جان چھڑانے کو بچے سے کہا۔ جا کر ابا حضور سے پوچھ لو اگر وہ اجازت دیں تو ٹھیک۔ بچہ دوڑتا ہو حضور کے پاس پہنچا۔ آپ گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بچے کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ اُس کی پوری بات سنی اور کہا۔ دیر ہو جائے گی۔ آپ پشاور جا کر اپنے ابو سے کہنا کہ میں نے کہا ہے کہ وہ آپ کو جھولے پہ بٹھائیں۔ بچہ خوشی سے اچھلتا ۔۔اپنے والد کی طرف دوڑ گیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے فرمایا۔ یہ تو ایک طوفانی دورہ ہے۔

          پشاور واپس پہنچ کر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ اگلے روز علیٰ الصبح اجتماعی مراقبہ میں شرکت کے لئے پہنچے۔ مراقبہ کے بعد درس دے کر حضور چہل قدمی کے لئے باہر تشریف لے گئے۔ نیاز صاحب کو محکمہ برق و آبپاشی میں ایکسین ہونے کے ناطے شہر کے گرد ڈسٹیشن کے اندر بنے رہائشی حصے میں بنگلہ نما گھر ملا ہوا تھا۔ انہوں نے اسی میں مراقبہ ہال بنا دیا تھا۔ سیر کے دوران فرمایا کہ بات کو بار بار دہرانے سے اُس کی تہیں کھلتی ہیں۔ دہرائی کرنے۔۔۔بات کو ذہن میں بار بار گردش دینے سے اس کے مفہوم اچھی طرح ذہن نشین ہوتے ہیں۔

          پھر فرمایا۔ روحانی سلاسل میں اس وقت عظیمیہ سلسلہ سب سے اوپر آگیا ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سلسلے کی تعلیمات لٹریچر کی صورت میں۔۔ سائنٹفک انداز میں۔۔آج کے ترقی یافتہ شعور کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کی جا رہی ہیں۔

          فرمایا ایک بار میں نے سوچا کہ آخر لکھنے پڑھنے کا کیا فائدہ؟۔۔۔لوگ پڑھتے تو ہیں نہیں۔۔۔ اس خیال کے نتیجے میں مجھ پر اک جمود سا طاری ہو گیا۔ سال ڈیڑھ سال یہی کیفیت رہی۔۔پھر خیال آیا کہ آج نہیں تو کل تو ضرور کوئی پڑھے گا۔۔ اللہ نے ایک صلاحیت دی تو میں اس کو استعمال کیوں نہ کروں۔۔۔اس طرح بات کا ریکارڈ پر تو آگئی۔ اب آپ دیکھیں کہ کتنی ہی کتابیں بن گئی ہیں۔

          فرمایا ۔والدین بھی اُسی بچے کی طرف ملتفت ہوتے ہیں جو اُن کا خیال رکھے۔ پھر اپنی والدہ کے حوالے سے بتایاکہ وہ ہمارے چھوٹے بھائی کے گھر کو اپنا گھر کہتی تھیں۔ آتیں تو کچھ عرصے بعد کہتیں۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ ہم کہتے کیایہ آپ کا اپنا گھر نہیں؟ تو فرماتیں۔۔ ہے تو۔۔مگر مجھے جانا ہے۔

          غصے کی بابت فرمایا۔آپ گھر سے باہر اس لئے غصہ قابو کر لیتے ہیں کہ وہاں منہ توڑ جواب ملنے کی توقع ہوتی ہے بھئی آخر وہاں بھی تو کنٹرول کرتے ہی ہیں نا تو پھر گھر میں کیوں نہیں کرتے؟ یہ تو غلط ہی ہوا نا۔ دراصل یہ سب اپنی ملکیت سمجھنے کے سبب ہوتا ہے۔ بیوی خاوند کو اور خاوند بیوی کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے اس لئے دونوں ایک دوسرے پہ غصہ کرنا جائز سمجھتے ہیں۔

          مرید نے جزا و سزا کی بابت دریافت کیا تو فرمایا۔۔ آپ کسی کو قتل کرتے ہیں۔۔ خدا نہ کرے کہ آپ قتل کریں۔۔۔۔میں ایک مثال دے رہا ہوں۔۔۔اس عمل کی ایک فلم بن گئی۔ اب یہ فلم آپ کو بار بار دکھائی جائے گی اور ہر بار اس کا وہی تاثر مرتب ہوا ہر بار انہی کیفیات سے بار بار گزریں جو اس وقت طاری ہوئیتھیں جب آپ قتل کر رہے تھے۔۔یہ سزا ہوئی۔ فرمایا یہی حال جزا کا ہے۔ یعنی اعمال کی فلم بنتی ہے اچھے اعمال کی فلم میں کیفیات اچھی ہوتی ہیں اور برے اعمال کی فلم میں کیفیات ایزیت ناک ہوتی ہیں۔

          جب ایک کام ہو گیا اور اُس میں آپ کی مرضی شامل نہیں تو پیشمانی کیسی۔ پیشمانی کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ نے وہ کام اپنی مرضی سے کیا۔ پھر اس کی مثال دیتے ہوئے فرمایا۔ آپ پولیس سے ڈرتے ہیں۔ جب آپ نے چوری نہیں کی تو پولیس سے ڈرنا کیسا؟ جب آدمی بے اختیاری کی زندگی اپنا لیتا ہے تو پھر جزا ور سزا دونوں کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ جب آپ اضافی عقل استعمال کرتے ہیں تب خود کو بااختیار سمجھتے ہیں اور یہیں سے انانیت زیرِ بحث آجا تی ہے ۔ یہ اضافی عقل ہی تو ہے جو انسان کو مغالطے کا شکار کرتی ہے۔

          سیر سے واپسی پر ناشتے کے بعد نگہت حیات کے یہاں جانے کا پروگرام بنا۔ شوکت حیات اور اُن کی بیوی نگہت دونوں حضور مرشد کریم سے بہت گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ حیات آباد میں روحانی لائبریری کے قیام کی منظوری لے کر وہاں اس کا افتتاح مرشد کریم سے کراونے کا پروگرام تھا۔

          کسی نے کہہ دیا۔۔نگہت بہت کام کرتی ہے لیکن شوکت صاحب سستی کرتے ہیں۔ حضور نے مدافعت فرماتے ہوئے کہا۔نہیں بھئی کام تو وہ کرتے ہیں۔ بستر سے اُٹھتے ہیں۔ سبزی لاتے ہیں۔۔ بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔۔۔ ٹھیک ہے وہ کوئی کاروبار نہیں کرتے لیکن گھر میں ہلتے جلتے تو ہیں نا۔

          نگہت حیات صاحبہ کے گھر لوگوں سے ملنے ، اُن کے مسائل کے حل تجویز کرتے جب بہت دیر ہوگئی تو نیاز صاحب نے سلیقے سے چائے لگانےکا کہہ کر بھیڑ کو ہٹایا۔

          چائے کے بعد بچیوں نے اپنی کشیدہ کاری کے کاموں پہ داد چاہی۔ مسکراتے ہوئے سر ہلا کر جب آپ کسی کام کو سراہتے تو بچیاں کھل اُٹھتیں۔

          مرید نے بھورے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اچانک پوچھا ۔ آپ کے کپڑے میلے ہیں یا ان کا رنگ ہی ایسا ہے۔ مرید نے عرض کی ان کا رنگ ہی ایسا ہے تو فرمایا ۔ سفید رنگ سب سے بہتر ہوتا ہے۔ فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ کپڑا میلا ہے یا نہیں۔ پھر فرمایا۔ آپ سفید رنگ کے کپڑے پہنا کریں۔

          اگلے روز صبح ناشتے کے بعد نیاز صاحب کے گھر پہ اُس کمرے میں جہاں حضور قیام فرما تھے محفل جمی۔ آپ پلنگ پر تکیے کمر کے نیچے رکھے نیم دراز تھے۔ جب مرید کمرے میں داخل ہوا تو آپ فرما رہے تھے ۔ بندہ ایسے کام کرتا ہے جن کی بابت وہ سمجھتا ہے کہ یہ اچھے ہیں لیکن درحقیقت وہ اللہ کے نزدیک بُرے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ بندہ سمجھتا ہے کہ یہ بُرے ہیں لیکن اللہ کے نزدیک وہ برے نہیں ہوتے۔ ہمیں کیا پتہ کہ اللہ کی پسند اور نا پسند کیا ہے؟ ہمیں کیا معلوم کہ اللہ کی پسند اور ناپسند کا پیمانہ کیا ہے؟ ہم نے نہ تو شیطان کو دیکھا ہے اور نہ ہی اللہ کو۔ ہمیں اللہ کی پہچان کب ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ اللہ ہے۔۔لیکن یہ بات ہمارے مشاہدے میں نہیں ۔ مشاہدے میں تب آتی ہے جب دل میں شک نہ ہو۔ یہ کتاب ہدایت دیتی ہے متقیوں کو۔۔ مسلمین کو نہیں۔۔منافقین کو نہیں کفار کو بھی نہیں۔۔ متقی کہا۔۔ جب شک نہ ہو اور متقی ہو۔ مسلمان ہونا تو یہ ہے کہ آپ نے اللہ کی واحدانیت اور توحید کا اقرار کر لیا۔ لیکن آپ میں ایمان تب پیدا ہوتا ہے جب آپ کو یہ یقین آجائے کہ اللہ ہے ۔۔۔اللہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔

          پھر اُس مرید کا قصہ سنایا جس کو مرشد نے ایک مرغی ذبح کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کو کسی ایسی جگہ ذبح کرنا جہاں کوئی نہ دیکھ رہا ہو اور مرید آ کر بتاتا ہے کہ اس نے جہاں بھی چھری مرغی کی گردن پہ رکھی تو اللہ کو اپنی طرف دیکھتے اور نگران پایا۔

          فرمایا۔ انسان گناہ کرتا ہی تب ہے جب اُسے کوئی نہ دیکھ رہا ہو۔ پھر مثال دیتے ہوئے فرمایا۔ میں اور نیاز صاحب یہاں اس کمرے میں اکیلے ہوں اور کوئی گناہ کرنا چاہتے ہوں۔۔تو ہم سب سے پہلے یہ اطمینان کریں گے کہ کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا۔ پردہ بھی تھوڑا سا مزید کھسکاکر درست کر لیں گے۔۔۔ اگر یہ شبہ ہو جائے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم کوئی گناہ کر ہی نہیں سکیں گے۔

          فرمایا۔ اور جب بندے کے اندر یہ طرزِ فکر راسخ ہو جائے کہ مجھے اللہ دیکھ رہا ہے تو اس کو تو گناہ اور ثواب سے تو ویسے ہی نجات مل گئی۔ جب اُس نے اللہ کو دیکھ لیا پھر کسی اور کی کیا پرواہ؟ آپ نے کبھی کسی فقیر کے بادشاہ بننے کا واقعہ سنا ہے؟ آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا۔ پوری تاریخ انسانی میں ہے ہی نہیں۔ البتہ یہ کئی بار ہوا ہے کہ شاہوں نے بادشاہت چھوڑ کر فقیری اختیار کی۔ اس لئے کہ وہ حقیقی بادشاہ اور اُس کی بادشاہت سے واقف ہو گئے تھے۔حقیقی بادشاہ سے مل لینے کے بعد تو ہر بادشاہت ہیچ ہو جاتی ہے۔

          ڈاکٹر نعمت صاحب نے سوال دریافت کیا کہ نقشے میں دیئے گئے مقامات  لطائف کی کیا اہمیت ہے اور یہ کہ جب دل کے آپریشن کے دوران دل کو جسم سے الگ کر کے کرنٹ دینے والی مشین پر ڈال دیا جاتا ہے تو یہ سب کیسے کام کرتا ہے؟

          آپ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ کائنات میں دور کرنے والے کرنٹ کی لہریں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک افقی اور دوسرے عمودی۔ ایک کو طولانی حرکت کہتے ہیں اور دوسری کو گردشی۔ ایک شعور ہوا اور دوسرا لاشعور۔ جب یہ دو لہریں آپس میں مرکب ہو جاتی ہیں تو بارہ کھرب پوائنٹس بن جاتے ہیں ۔ ان پوائنٹس کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر چھ گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تصوف میں انہیں لطائف کہا جاتا ہے۔ یہ انسان ہوا۔

          جب لہروں میں تھوڑا فاصلہ در آتا ہے اور گردشی حرکت غالب آجاتی ہے تو ہم سو جاتے ہیں اور جب فاصلہ اور زیادہ ہو جاتا ہے تو ہم اس کو مرنا کہتے ہیں۔ روحانی آدمی ا فاصلے کو ختم کر دیتے ہیں یعنی دونوں لہروں کو واپس جوڑ دیتے ہیں تو آدمی زندہ ہو جاتا ہے۔

          جب کبھی کسی ایک عضو کے پوائنٹس میں کرنٹ کا بہاؤ رُک جاتا ہے تو وہ عضو بے کار ہو جاتا ہے۔ جیسے کسی ٹیوب لائٹ کی تار خراب ہو جائے تو ٹیوب لائٹ روشن نہیں ہوتی حالانکہ بجلی موجود ہے۔ اب اگر آپ ٹوٹے ہوئے تار کو جوڑ دیں تو بجلی کا بہاؤ شروع ہو جائے گا اور بلب، ٹیوب یا پنکھا دوبارہ کام شروع کر دے گا۔

          اب رہی بات دل کی۔۔تو دل کو کہیں سے کرنٹ ملتا ہے تو وہ پھیلتا اور سکڑتا ہے۔ وہ مشین بھی اُس کو کرنٹ کے بہاؤ کا ایک متبادل نظام ہی تو فراہم کرتی ہے۔

          ڈاکٹر نعمت صاحب نے دوسرا سوال کیا۔ یہ مجذوب لوگ کپڑے کیوں نہیں پہنتے؟

          جواب میں ارشاد فرمایا ۔ آپ ایکسرے مشین کے سامنے دس بیس قمیضیں پہن کر کھڑے ہو جائیں۔ کیا مشین تب بھی آپ کے اندر دیکھ نہیں لیتی۔ آپ فقیر کی نظر کو کیا سمجھتے ہیں؟ کیا وہ ایکسرے سے بھی گئی گزری ہوتی ہے؟ دراصل مجذوب کے ذہن میں یہ بات ہی نہیں ہوتی کہ کوئی اُسے دیکھ رہا ہے۔

          پھر تاج الدین بابا اولیا ؒ کے بارے میں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کا بتایا ہوا واقعہ سُنایا۔ راجہ رگھورائے کے ملازم اُن کے لئے تھال میں کپڑے لئے کھڑے رہتے تھے۔ جب طبیعت ہوتی تو پہن لیتے لیکن پھر جونہی جذب غالب آتا تو یہ کہہ کر پھاڑ کر پھینک دیتے۔۔جنت میں بھلا کوئی لباس ہو تا ہے۔

          فرمایا آدمی لباس تو دوسروں کے لئے پہنتا ہے ۔ خود تو بے لباس ہو کر ہی خوش ہوتا ہے۔ آپ باتھ روم میں جا کر۔۔۔جہاں کوئی نہیں ہوتا تو لباس اتار کر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے جسم کے ایک ایک عضو کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اس میں مرد اورعورت کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔ سبھی یہی کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر مسکراتے ہوئے فرمایا۔۔ ورنہ باتھ روم میں آئینے لگاتے ہی کیوں ؟

          اس پر مرید نے گوالے کے مقدمے میں تاج الدین بابا اولیاؒ کا اپنا کرتا اتار دینے کی بات کہنے کی بابت پوچھا تو فرمایا۔ وہاں کرتے سے مراد۔۔تکوینی اختیار کے تحت کام کرنا ہے۔ وہاں اوپر کوئی ایسی بات ہو گئی ہوگی تبھی تو مقدمہ حضور ﷺ کے دربار تک پہنچا ورنہ گوالے کو تو وہ خود ہی لے کر آسکتے تھے۔

          کسی نے دریافت کیا کہ جمعرات کو قبروں پہ جانے کی کیا اہمیت ہے؟

          فرمایا۔ اس روز اعراف کے لوگوں کو چھٹی ملتی ہے تو وہ اپنے لواحقین کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس روز قبر پر صاحب مزار کی توجہ ہوتی ہے۔ یہ تعلق تیس سال تک رہتا ہے۔ جب لوگ قبر پر نہیں جاتے تو اُن کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے۔ وہاں اور دلچسپیاں بن جاتی ہیں۔ جب لوگ مزار پہ جاتے ہیں اور صاحب قبر کو سلام کرتے ہیں تو وہ بھی متوجہ رہتے ہیں۔۔۔ ورنہ رہے نام اللہ کا۔

          نیاز صاحب نے اپنی والدہ مرحومہ کی بابت دریافت کیا تو فرمایا۔ وہ وہاں بہت خوش ہیں۔۔ اپنی پرانی سہیلیوں کے ہمراہ ہیں۔

          جمشید نے آکر بتایا کہ خواتین حضور سے الگ ملاقات کے لئے دوسرے کمرے میں منتظر ہیں تو اس محفل کا اختتام ہوا۔

          شام کو حیات اباد میں نگہت حیات کے گھر روحانی لائیبریری کا افتتاح ہوا۔ وہاں سے نکلے تو حیات اباد کے باغِ ناران میں سیر کے لئے گئے۔ صبح مراقبے کے بعد مغرب سے پہلے دو وقت سیر کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ کراچی میں ہوں لاہور میں ہوں یا کہیں بھی ہوں یہ دو وقت سیر ضرور کرتے ہیں۔ اگر کبھی کسی مصروفیت کے سبب شام کی سیر میں تاخیر ہو جائے تو بعد از نماز مغرب وقت نکالا جاتا ہے اور اگر کبھی ایسا ہو جائے کہ کسی فنکشن یا تقریب کے سبب شام کا وقت نکل جائے تو رات کھانے کے بعد پندرہ منٹ کا ٹہلنا لازم ہے۔

          سیر کے دوران ایک دو اصحاب ساتھ ہو لیتے ہیں اور کبھی کبھار یہ دو چند ہو جاتے ہیں۔ جس کسی کو سیر پہ ساتھ دینے کی سعادت ملتی وہ خوشی اور فخر سے پھولے نہیں سماتا۔ اس دوران اگر کسی نے کچھ پوچھ لیا تو ہلکی پھلکی گفتگو کے انداز میں علم و عرفان کے موتی بکھیرتے چلے جاتے ہیں۔ سیر کرنے کی بابت ارشاد فرمایا۔ اگر میں سیر نہ کروں تو نیند نہیں آتی، گیس پریشان کرتی ہے، جسم ٹوٹتا ہے۔

          سیر کے دوران فرمایا۔ ایک بار ایک صاحب میرے ساتھ کھانے پہ بیٹھے تو تبصرہ کیا کہ آپ قطب ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات کس بنا پہ کہی ہے تو کہا۔ آپ کے دستر خوان میں ہر طرح کی نعمتیں موجود ہوتی ہیں۔ بہت لطف لیتے ہوئے کہا تو پھر یہ صدر اور وزیر اعظم تو قطب سے بھی بڑے ہوئے۔

          بات صدر اور وزیر اعظم سے ملک پہ آ گئی ۔ فرمایا۔ امریکہ نے ویزہ لاٹری کے نام پہ ریفرنڈم کروایا ہے۔ ملک کے ہر پڑھے لکھے آدمی نے اس لاٹری میں حصہ لے کر یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ ہمیں پاکستان میں نہیں رہنا۔ آپ ہمیں امریکہ اپنے یہاں بلا لیں۔

اب امریکہ سب کو اپنے یہاں تو بلا نہیں سکتا وہ خود یہاں آگیا ہے۔

          فرمایا۔ اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ آپ نے ایک اینٹ بھی لگانی ہوتی ہے تو اجازت آئی ایم ایف دے گی۔

          سننے والے اک سناٹے کے عالم میں سنا۔ آپ نے خود ہی اس سناٹے کو توڑنے کو ایک بات بتائی۔ ایک طرح کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ وہ جیب میں لیموں ڈالے ہوٹلوں وغیرہ کے قریب گھومتے رہتے۔ جہاں کسی کو اچھے کھانے کا آرڈر دیتے دیکھتے۔ جا پہنچتے۔ لباس اچھا خاصا مہذبانہ ہوتا۔ بیتھنے کی اجازت لیتے۔ ادھر اُدھر کی بات شروع کر کے کھانے کے ساتھ لیموں کی افادیت پہ لیکچر دیتے۔۔ جب کھانا آتا تو یہ جیب سے لیموں نکال کر میز پر رکھ دیتے۔ پھر کہتے۔ اجازت ہو تو لیموں نچوڑ دیں۔ انداز  گفتگو ایسا ہوتا کہ کوئی انکار کر ہی نہ پاتا۔ یہ لیموں نچوڑ کر سیدھے ہو کر بیٹھ جاتے تو کھانے والا اخلاقاً کہنے پہ مجبور ہو جاتا۔ آیئے آپ بھی کھائیں۔۔اور وہ جی شکریہ کہہ کر کھانے پر ٹوٹ پڑتے اور ہر ہر لقمے پر لیموں کی وجہ سے ذائقے میں ہونے والی بہتری پہ داد طلب کرتے۔ ایسے لوگوں کو لیموں نچوڑ کہا جاتا تھا۔ اب ایسے لوگ کہاں؟

          مرید نے سوچا واقعی ایسے لوگ کہاں ہیں اب لوگ جیب میں لیموں نہیں۔۔ لیموں نچوڑنے کا شکنجہ لئے پھرتے ہیں۔ وہ بھی کیا بھلا وقت تھا لوگ کسی کو بے وقوف بناتے تھے تو وہ بھی محض چند لقموں کا ساتھ دینے کے لئے۔۔ اب تو لوگ آدمی کو ہی لیموں کی طرح نچوڑ کر پی جاتے ہیں۔۔۔ اب اس فن کی ترقی یافتہ صورت دیکھنی ہو توترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کے تیل اور لہو کو نچوڑتے دیکھیں۔۔ وہ یہ کام اتنی مہارت اور پُکاری سے کرتے ہیں کہ کوئی انہیں اخلاقاً بھی منع کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔ اس شکنجے کے دستوں میں سے ایک پہ مفاد پرستی اور حرص و لالچ کی سنہری پٹی چڑھی ہوتی ہے اور دوسرے پہ جہالت اور ناسمجھی کا پانی پھرا ہوتا ہے ۔ جو ایک بار اس شکنجے میں کسا جاتا ہے پھر اُس کو چھڑانے کوئی نہیں اتا۔ وہ جس کسی کو مدد کے لئے پکارتا ہے تو وہ بھی آ کر شکنجے کدستوں پہ زور دینے میں لگ جاتے ہیں۔

          سبھی پہ اک سناٹا سا چھا گیا۔


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔