Topics
ایک روز نیاز صاحب نے راولپنڈی سے فون کیا کہ حضور پنڈی مراقبہ
ہال تشریف لا رہے ہیں اور پشاور کے تمام دوستوں کو چاہئے کہ وہ آکر ملیں۔ وہ دوپہر
کے بعد پنڈی کے لئے روانہ ہوئے اور شام ڈھلے سواں کیمپ کے نواح میں واقع نو تعمیر مراقبہ
ہال پہنچے۔ شہر سے دور جی ٹی روڈ سے تین کلو میٹر ہٹ کر ایک پہاڑی ٹیلے پر وسیع اور
پُر فضا مقام پہ بنے مراقبہ ہال کو دیکھ کر اسے بہت اچھا لگا۔ مراقبہ ہال کے باہر کئی
ایک گاڑیاں کھڑی تھیں۔ لیکن کوئی چہل پہل نہیں تھی۔شام کی خنکی سردی کی حدوں کو چھو
رہی تھی۔۔۔ایک سکوت اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ مراقبہ ہال کے اندر حاضرین سے خطاب
ہو رہا تھا۔ موضوع تصورِ شیخ تھا۔ وہ پچھلی صف میں بیٹھ گیا۔
آپ فرما رہے
تھے کہ مرشد کے اندر کام کرنے والی لہریں مرید کو منتقل ہوتی ہیں اور یہ کوئی ایسی
اچنبھے کی یا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ہم سردی میں ہیٹر کے سامنے بیٹھتے ہیں تو گرمی
کی لہریں ہمارے اندر منتقل ہوتی ہیں۔ گرمی میں جب ہم ائیر کنڈیشن کے سامنے بیٹھتے ہیں
تو سردی کی لہریں ہمارے اندر منتقل ہوتی ہیں۔نئی نئی شادی ہوتی ہے تو شوہر کے ذہن پہ
بیوی سوار ہوتی ہے اور بیوی کے ذہن پہ شوہر سوار ہو جاتا اور اس طرح دو اجنبی ایک دوسرے
کے ہم دم بن جاتے ہیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ما ں کو بچے کا دھیان رہتا ہے تو بچے
کو بھی ماں کا دھیان رہتا ہے اور اس سے بچے میں ماں کا شعور منتقل ہوتا ہے۔
فرمایا کہ جب
مرید اپنے مرشد کا تصور کرتا ہے تو مرشد کی طرزِ فکر اور اُس کا ذہن مرید کو منتقل
ہوتا ہے۔
لیکچر کے بعد
آپ اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے تو مرید نے آگے بڑھکر سلام کیا۔ آپ آواز سُن کر رک
گئے اور معانقہ فرمایا۔ کچھ دیر نظر بھر کر دیکھا پھر فرمایا۔ آپ تو سیٹھ بن گئے ہیں۔
یہ توند بھی نکل رہی ہے۔ وہ ساتھ ساتھ چلتے کمرے تک آیا۔ کمرے میں بیٹھے تو پشاور سے
آنے والے دوستوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا ۔ اس قافلے کے میر کارواں آپ ہیں؟
مرید نے عرض
کی۔ جی نہیں یہ ڈاکٹر جہاں سوز ہیں۔ کسی نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے کہا۔ ان کا نام تو
ڈاکٹر غفورہے۔
اس پہ فرمایا۔
ققنس ایک ایسا پرندہ ہوتا ہے جو پہاڑوں میں اپنا گھونسلہ بناتا ہے۔ جب اُس کی ماں اُسے
چھوڑ کر چلی جاتی ہے تو وہ ایک ایسی دل سوز آواز نکالتا ہے کہ اُس کو اور اُس کے گھونسلے
کو آگ لگ جاتی ہے۔ ویسے اُس کی بیوی بے وفا ہوتی ہے۔ایک خاتون نے رقعہ دیا۔ پڑھ کر
فرمایا۔ تجدید نکاح کر لیں تو دی گئی طلاق غیر موثر ہو جائے گی۔
ایک خاتون نے
اپنے بیعت ہونے کے حوالے سے بھائیوں سے ہونے والی کھٹ پٹ کی بابت کچھ کہا تو فرمایا۔
آپ مرشد کو دل میں رکھیں۔ اللہ بھی تو دل ہی میں رہتا ہے۔
مرید نے کسی
خواب نامہ کے حوالے سے عر ض کی کہ تمام خواب تو اسلام اور مذہب کا رنگ لئے ہوئے ہیں۔
اس پہ فرمایا۔ ہر قوم کے خواب الگ ہوتے ہیں۔ بھئی ہم کوئی قوم تھوڑے ہی ہیں۔ ہم تو
مرد ہ ہیں ۔ معاش کے علاوہ اور کوئی سوجھتا ہی نہیں۔
خالد محمود
ماسکو مراقبہ ہال کے انچارج ہیں۔ اُن کے حوالے سے جب آپ کو بتایا کہ وہ لوح و قلم کا
روسی زبان میں ترجمہ کروا کر شائع کرنا چاہتے ہیں تو فرمایا۔ آہستہ چلنے والے کو گرنے
کا خطرہ نہیں ہوتا۔ تیز چلنے والے ہی گرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ دس ہزار کتابیں شائع
کر کے بیچ لی ہیں۔۔انہیں کہیں اب آہستہ چلیں۔ وہاں یہ کتاب نہیں چلے گی۔۔ہاں کتاب مراقبہ
اُٹھے گی۔۔۔۔وہ بھی اس لئے کہ وہاں ہندوؤں نے یوگا اور مراقبہ پہ بہت کام کیا ہے اس
لئے اُمید ہے کہ یہ کتاب کچھ چل جائے گی۔ ٹیلی پیتھی بھی اس لئے چلی کیونکہ وہ لوگ
پیرا سائیکو لوجی کے بہت معتقد ہیں۔ حالانکہ ہم نے تو لکھ دیا تھا کہ ہم یہ سائنس اسلامی
اصولوں کے مطابق پیش کر رہے ہیں تاکہ یہ بات معلوم ہو جائے کہ اسلام میں اُن سے بہتر
نظام موجود ہے۔ حالانکہ وہ تو ٹیلی پیتھی کی لہروں سے جہاز اور طیارے تک کنٹرول کر
رہے ہیں۔
صبح ناشتے سے
پہلے ایک لطیفہ سُنایاکہ ایک پیر صاحب کے گھر کے قریب ایک مزدور رہتا تھا ۔ اُس کی
بیوی نے اپنے شوہر کو اُن پیر صاحب کے پاس بھیجا کہ وہ اُس کو اپنے جیسا بنا دیں تاکہ
اور کچھ نہیں تو گھر میں خوردو نوش کا بندوبست تو رہے۔ وہ مزدور جا کر پیر صاحب سے
ملا۔ انہوں نے اُسے کہا کہ اگر تم اس لئے روحانیت سیکھنا چاہتے ہو ہ تمہاری دال روٹی
چلتی رہے تو ہم تمہارے گھر بھی راشن بھجوا دیا کریں گے یا تم آکر لے جایا کرو۔ مزدور
نے گھر آکر بیوی سے مشورہ کیا تو اُس نے کہا یہ پیر صاحب تمہیں اپنے جیسا بنانے کی
بجائے خیرات پہ ٹرخا رہے ہیں۔ آخر وہ کب تک ہمیں کھلائیں گے۔ تم ڈٹ جاؤ۔
اب وہ دوبارہ
پیر صاحب کے پاس گیا اور اصرار کہ وہ اسے اپنے جیسا بنا دیں پیر صاحب نے اُس کو کچھ
مجاہدے وغیرہ کروائے۔۔بندہ پکا نکلا۔۔ بھا گا نہیں۔۔ پھر ایک روز پیر صاحب نے اُسے
اپنا گدھا دے کر کہا۔ جاؤ جا کر بڑے پیر صاحب کو سلام کر آؤ۔وہ سفر پہ روانہ ہوگیا۔
راستے میں گدھا مر گیا۔۔ اُس نے اُس کو پیر صاحب کی نسبت سے مقدس مانتے ہوئے اُس پہ
مٹی ڈالنا شروع کر ، کچھ لوگ اکٹھے ہوگئے۔ انہیں بتایا کہ مجھے بشارت ہوئی ہے یہاں
پہ فلاں نام کے ایک بہت بڑے بزرگ دفن ہیں۔ انہوں نے مجھ سے فرمایاکہ یہاں مٹی ڈال دوں
تاکہ لوگ اُن کے جسد خاکی پر چلیں پھریں نہیں۔ پھر وہاں دیکھتے ہی دیکھتے قبر بنی۔۔۔
قبر سے زیارت بنی اور پھر خانقاہ بن گئی۔ پیر صاحب بھی شہرہ سُن کر گئے۔ اُس نے پیر
صاحب کی آؤ بھگت کی۔ تواضح کے بعد اپنا تعارف کروایا کہ بندہ آپ کا وہی غلام ہے جسے
آپ نے اپنا گدھا دے کر بڑے پیر صاحب کو سلام کرنے بھیجا تھا۔ آپ کا بخشا ہوا وہ گدھا
راستے میں حق کو پیارا ہو گیا۔ اس مزار میں وہی گدھا دفن ہے۔
پیر صاحب سُن
کر بہت خوش ہوئے اور گلے سے لگا لیا کہ تم میرے صحیح جانشین ہو۔۔۔ وہاں دلی میں اسی
گدھے کی ماں کی قبر پر بیٹھا ہوا ہوں۔
پھر ایک لطیفہ
اور سنایا کہ ایک صاحب روحانی سیر میں مصروف تھے اُن کی نظر دوزخ میں ایک مولوی صاحب
پہ پڑی۔ حیران کن امر یہ تھا کہ وہاں اُن کے ہمراہ ایک حور بھی تھی۔ وہ حور کے پاس
گئے اور پوچھا کہ ان مولوی صاحب نے آخر ایسا کیا کیا کہ انہیں یہاں جہنم میں بھی حور
سے نوازا گیا۔ حور نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ مولوی صاحب نے ایسا ویسا کچھ نہیں کیا
البتہ مجھ ہی سے ایک گناسر زد ہو گیا تھا۔
کمرے سے نکل
کر سردیوں کے آغاز کی دھوپ میں بیٹھنے کا قصد فرمایا تو سیاہ چشمہ پہنتے ہوئے کہا۔
میں ذرا یہ پہن لوں تاکہ نظر نہ لگے۔
چند ایک کیمرہ
بردار افراد نے آپ کو باہر بیٹھے دیکھا تو وہ پروانہ وار آپ کی طرف لپکے۔ ایک صاحب
نے باقاعدہ ریڈی کہہ کر تصویر اتاری ۔ تصویر اتروا کو اس دوران تنگ کرنے والی مکھی
کے حوالے سے فرمایا۔ اس تصویر میں یہ مکھی بھی آئی ہوگی یا نہیں۔ جب کہاگیا۔ جی ہاں
ضرور آئی ہوگی تو فرمایا۔۔ یہ بھی چاہتی ہوگی کہ ابا کے ساتھ میری بھی تصویر ہو۔
الوداع کہہ
کر روانہ ہونے لگے تو دریافت کیا۔ عرس پہ ملاقات ہو رہی ہے نا؟
مرید انشاءاللہ
کہہ کر عرس پہ کراچی جا پہنچا۔
دریافت کیا۔
کیسے آئے ہیں؟ جب بتایا کہ ٹرین پہ آئے ہیں اور لگاتار چھتیس گھنٹے کا سفر ہے۔۔تو فرمایا۔
بڑی ہمت کی بات ہے۔۔اتنا لمبا سفر بندہ تبھی کرتا ہے جسب اس کے دل میں محبت ہو ورنہ
تو لوگ اپنے پڑوسی تک یہاں سالوں نہیں جاتے۔
مرید نے عرض
کی۔ بندہ وہیں تو جاتا ہے جہاں محبت ملتی ہے۔۔
مسکرا کر خاموش
ہو رہے تو مرید نے کہا۔ سلسلہ عالیہ عظیمیہ علمی حلقوں میں ایک منفرد مقام حاصل کر
رہا ہے۔
دھیمے سے مسکراتے
ہوئے پوچھا ۔ کیادوسرے سلا سل میں عالیہ نہیں۔۔۔
عرض کی۔۔۔جی
ہاں کیوں نہیں
فرمایا۔ تو
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ یا سلسلہ عالیہ نقشبند یہ کیوں نہیں کہتے۔۔یہاں بھی سبھی یہی
کہتے ہیں۔ میں ٹوکنا تو چاہتا ہوں لیکن سب کے سامنے کہنا مناسب نہیں لگتا تو خاموش
ہو رہتا ہوں۔ بھئی آپ صرف سلسلہ عظیمیہ ہی کہا کریں۔
مرید عرض گزار
ہوا کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ مرشد کی ڈائری کے عنوان سے اپنے مراد کی باتوں کو قلم بند
کرے۔
نیم وا آنکھیں
کھلیں۔۔پھر بائیں آنکھ بند کر کے۔۔۔مرید کو دیکھا۔۔۔ سائیں کی آنکھ کی پتلی اچانک اتنی
اوپر چلی گئی کہ آنکھ کی سفیدی کے علاوہ کچھ نہ دکھا۔ ایک لحظہ میں آنکھیں واپس اپنی
نارمل حالت میں آگئیں۔ مسکراتے ہوئے خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا اور اس بات پر بات
کرنے کو وقت رکھ لیں۔۔کل بیٹھ جاتے ہیں۔
پھر فرمایا
کہ میگ والے دوبارہ سلسلہ مضامین شروع کرنے کی فرمائش کر رہے ہیں۔ مرید نے استجاباً
۔۔اچھا جی۔۔کہا۔۔ تو جلدی سے کہا یہ میں نہیں کہتا۔۔اقبال صاحب نے بتایا ہے۔
فرمایا۔ اگر میں ملنے والے تحائف لوگوں میں بانٹتا
نہ رہوں تو یہاں ایک ڈھیر لگ جائے ۔ بیٹھنے کی جگہ تک نہ رہے۔ کچھ ساعت توقف کے بعد
فرمایا۔ وسائل کی کثرت بھی نہیں ہونی چاہئے۔
پھر ایک بات
یہ بتائی۔ ایک صاحب تھے نور الدین علیم۔ انہوں نے کبھی حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کو
انگریزی پڑھائی ہوگی۔ خود کو اُن کا استاد کہتے تھے۔ کسی قدر کھسکے ہوئے تھے اور خود
کو پرزیڈنٹ آف دی ورلڈ کہتے تھے۔ اُن کو جانے کیا سوجھی۔۔مجھ سے کہنے لگے۔۔ میں آپ
کو اپنا سیکریٹری بنانا چاہتا ہوں۔
میں نے کہا
حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ سے اجازت لے کر بتاؤں گا۔
کہا۔ عظیم سے
میں خود بات کر لوں گا صرف تم تیار ہو جاؤ۔
میں نے کہا۔
میرے ذہن میں ایک بندہ ہے ۔۔۔وہ ٹھیک رہیں گے ۔۔اور پھر میں نے انہیں ایک صاحب سے ملوایا۔
وہ بھی پورے حضرت تھے۔۔ خود کو خدا کہتے تھے۔
مجھے افسوس
ہے کہ میں نے اُن کی باتیں نہیں سنیں۔۔۔ مجھے چاہئے تھا کہ میں چھپ کر اُن کی باتیں
سنتا۔
اس ملاقات کے
بعد ایک روز میں اُن دوسرے صاحب سے ملا تو میں نے دریافت کیا کہ علیم صاحب سے آپ کی
ملاقات کیسی رہی؟ کہنے لگے عجیب آدمی ہے۔۔میں نے ہی تو اُن کو پریزینڈنٹ بنایا اور
وہ مجھی سے کہہ رہے تھے کہ میں اُن کا سیکریٹری بن جاؤں۔ یعنی اپنے خدا ہونے کے حوالے
سےکہہ رہے تھے۔
پھر ملکی حالات
پہ بات کرتے ہوئے جرنل مشرف کو سراہتے ہوئے فرمایا۔ فوجی کھاتے ہیں تو کام بھی کرتے
ہیں۔۔۔ بے نظیر آئی تو آئی پیز IPs سے پیسے لے کر آج بجلی ۷ روپے یونٹ کر دی۔۔ نواز شریف
نے تو ملک ہی بیچ ڈالا تھا۔۔کھاؤ لیکن کام بھی تو کرو۔۔ وہ تو صرف کھانے میں لگے ہوئے
تھے۔
فرمایا۔ آپ
اپنی صلاحیتیں استعمال کریں اللہ نے کوئی صلاحیت دی ہے اور آپ اُسے استعمال نہیں کرتے
تو یہ نہ صرف ناشکری ہے بلکہ بے ایمانی ہے۔
اگلے روز مرید
مراقبہ ہال کے لان میں ٹہل رہا تھا ۔ آپ سیر سے واپس آرہے تھے اُس نے سلام کیا تو فرمایا۔
باغِ خلد کی سیر ہو رہی ہے؟
غفار صاحب آپ
کے قریب ہوئے تو اُن سے فرمایا۔ اس بار عید قربان پہ اونٹ بھی لے ائیں۔ چند روز پہلے
آجائے گا تو بچے کھیلیں گے۔ خوش ہوں گے۔
اگلے روز صبح
جب غفار صاحب اونٹنی لے کر آئے تو اُسے دیکھنے گئے۔ اُس پہ ۹۱۰ لکھا دیکھ کر فرمایا۔
اس کا مطلب ہے کہ نو دس نمبر ملیں گئے۔ مرید نے جملہ کسا۔۔یہ نہلے پہ دہلا ہے۔ اُس
کر مسکرائے اور زیرِ لب دہرایا۔ نہلے پہ دہلا۔
شام کو نشست
ہوئی تو فرمایا۔ آج کل مجھے یہ خیال آتا ہے کہ آکر انسان زندہ رہنا ہی کیوں چاہتا ہے؟
پھر مرید سے
مخاطب ہو کر پوچھا ۔ آپ کو کبھی یہ خیال آیا۔ مرید نے اثبات میں جواب دیا تو دریافت
کیا کہ پھر آپ کیا سمجھے؟
مرید نے اپنے
حاصل فکر کا اظہار کیا۔ آدم کو جو علم عطا ہوا تھا وہ پریکٹیکل کی بجائے تھیوریٹکل
تھا۔ اور علم کے ایس کچے پن کی وجہ سے اُن سے سہو ہوگیا۔۔۔ اور وہ شیطان کے بہکاوے
میں آگئے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ انسان اس علم کے تجرباتی پہلو سے محسوساتی حدوں میں
واقف اور آگاہ ہوتا کہ شیطان اُس کو پھر کبھی نہ بہکا سکے۔ یعنی یہ سارا انتظام انسان
کو عطا کردہ علم کو تجرباتی اور محسوساتی طور پر سمجھنے اور برتنے کے لئے کیا گیا ہے۔
انسان لاکھ زندہ رہنا چاہتا ہو تو بھی اسے مرتا تو پڑتا ہی ہے۔
آپ نے یہ بات
سُن کر سوال کیا۔ کیایہ تجربات جانوروں کو نہیں ہوتے؟ کیا وہ نہیں کھاتے پیتے۔ پھر
بات کو مختلف زاویوں سے دہرا کر فرمایا۔۔ نہیں صاحب۔۔۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ
ہم زندہ رہنا کیوں چاہتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بچوں کے لئے۔۔ تو جب بچے بڑے ہو جاتے
ہیں تو پھر زندہ رہنے کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
مرید نے عرض
کی۔۔ تو پھر آپ ہی کچھ روشنی ڈالیں۔
فرمایا۔ اللہ
کو پہچاننے کے لئے۔
دیر تک خاموشی
رہی۔ اس خاموشی میں مرید جانے کیا کیا سوچتا رہا۔ سوچوں اور خیالوں کے ان بنتے بگڑتے
دائروں سے گزرتے۔۔ا س کی نظر مراقبہ ہال میں آستانے کے سامنے دیوار پہ بنی تصویری طغرے
پہ جا ٹھہری۔ اس پہ لکھا تھا۔ زینت دی ہم نے آسمان کو بروج سے اور چھپا دیا ان شیطان
مردود سے۔
مرید کو سوال
ملا تو اس نے اسے اپنے مراد کے حضور پیش کرتے ہوئے عرض کی۔
یہ بروج کیا ہیں؟ ۔۔۔جن سے آسمان کو زینت دی گئی دیکھنے والوں کے لئے اور چھپا لیا
شیطان مردود سے۔۔۔؟
فرمایا۔ دنیائیں ہیں۔ بروج کا مطلب ہے دنیائیں۔اگر
ہمیں یہ دنیائیں نظر نہیں آتیں تو اس کا کیا مطلب ہوا۔۔ ہم بھی تو شیطان ہی ہوئے نا۔
فرمایا۔ یہ دنیائیں ہمارے لئے سٹورہاوسز
کا کام کرتی ہیں۔ وہ جو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒنے لوح و قلم میں فرمایا ہے کہ مستقل
نظام اور غیر مستقل نظام۔۔انہیں مستقل کی بجائے عارضی مستقل سمجھنا چاہئے کیونکہ وہ
بھی مستقل نہیں ہوتے۔۔۔ صرف اُن کی عمر کا تعین ہوتا ہے۔ غیر مستقل وہ ہوتے ہیں جن
کی عمروں کا تعین نہیں ہوتا۔ ہم ان لاکھوں کروڑوں دنیاؤں میں بیک وقت موجود ہیں۔ وہاں
مٹتے ہیں تو یہاں فیڈ ہوتے ہیں۔ جیسے گندم کا ایک دانہ مٹی میں مل کر فنا ہوتا ہے اور
سترہ سو دانوں کی زندگی کا سبب بنتا ہے۔ اگر ایک دانہ نہ مٹے اور فنا نہ ہو تو سترہ
سو دانے نہیں بن سکتے۔ اسی طرح انسان بھی چھ ارب ہو گیا ہے۔
پھر اس بات کو پروجیکٹر کی مثال سے سمجھاتے
ہوئے فرمایا۔
پروجیکٹر میں ایک تو فلم ہوتی ہے اور دوسرے
اس فلم کو سکرین پہ لانے کے لئے روشنی ہوتی ہے۔ روشنی فلم پہ پڑتی ہے تو وہاں موجود
تصویر ٹوٹتی ہے اور روشنی کی لہروں کے ذریعے سکرین پہ منتقل ہو جاتی ہے۔ جوں جوں یہ
فلم چلتی ہے۔۔ یہ فلم پرانی ہوتی چلی جاتی ہے۔
بچپن اصل میں اس فلم کے نقوش کا تازہ پن
ہے اور بڑھاپا اس فلم کے گھس جانے اور پرانا ہونے کو کہتے ہیں۔ جوں جوں یہ فلم چلتی
ہے۔۔وہاں پہ موجود تصویر ہر لحظہ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتی ہے۔ وہ تصویر دھندلی ہوتی چلی جاتی
ہے۔ا س تصویر کا دھندلا بڑھاپے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ وہاں فلم پہ تصویر ٹوٹتی ہے
تو ہمیں یہاں فیڈنگ ہوتی ہے۔۔ا س پورے نظام کو چلانے پہ بیس ہزار فرشتے معمور ہیں۔
پھر اپنے ہاتھ کان تک لے جا کر دکھاتے ہوئے
کہا۔ یہ ایک حرکت تبھی ممکن ہوئی جب بیس ہزار فرشتوں نے یہ پروسس مکمل کیا۔
اس بار عرس
اور عید قربان آگے پیچھے تھے۔ عید قربان پہ خوب چہل پہل تھی۔ سلسے کے ڈیڑھ سو کے لگ
بھگ بہن بھائیوں نے قربانی میں حصہ لینے کو مراقبہ ہال میں قربانی کرنا پسند کیا۔ پہلے
دن قربانی کی گائیں مراقبہ ہال کے اندر ذبح کی گئیں اور دوسرے روز اسکول کے میدان میں۔۔
بائیس تیئس گائے اور بچھڑے ایک اونٹنی اور چند ایک بکرے ذبح ہوئے۔ گوشت کٹتا۔۔تھیلوں
میں پیک ہوتا۔۔اور قریب کی بستی کے اُن گھروں کی دہلیز تک لے جایا جاتا جہاں قربانی
نہیں ہوئی تھی۔ سوزوکی میں۔۔۔ پہلے سے سروے شدہ ہزار بارہ سو گھروں تک قربانی کا گوشت
پہنچانے والوں نے واپس آکر ایسے ایسے جذباتی مناطر بیان کئے کہ سننے والوں کی آنکھوں
میں پانی امڈ امڈ آیا۔ ایاز صاحب نے آ کر بتایا کہ جب وہ گوشت بانٹ رہے تھے تو ایک
خاتون جذباتی ہوگئیں او رکہا کہ انہوں نے کتنی ہی مدت بعد گوشت دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا۔
آپ اُن کو دو تھیلے دے دیتے۔ بے کسی اور تشکر کے مناظر کی بات سنتے مرید نے اپنے مراد
کی طرف دیکھا۔ وہ سائے میں بچھی کرسی پہ بیٹھے۔۔۔کام میں مصروف قصائیوں کو بظاہر گہری
نظر سے دیکھتے ہوئے نہ جانے کہاں کہاں کس کس کو دیکھ رہے تھے۔
دوسرےروز قربانی
ہوتے دیکھ رہے تھے تو فرمایا کہ میں نے اُن سے کہا کہ قربانی یہاں کریں تو اگے سے بحث
کرنے لگے کہ یہاں مٹی ہے۔ میں نے کہا کہ پلاسٹک بچھا کر اوپر چٹائی ڈلوا دیں اور ٹینٹ
لگوا دیں تو کہنے لگے قناعت کے نیچے مٹی آئے گی۔۔ اب بتائیں کہاں ہے وہ مٹی۔۔پھر سر
جھٹک کر کہا۔۔۔ نہ جانے بات ماننے میں تامل کیوں کرتے ہیں۔
رات کو حامد
صاحب کے یہاں کھانے کی دعوت پہ جاتے ہوئے مرید نے اپنے مرادکے سامنے اظہار خیال کیا۔دنیا
بھر میں مساجد سے متعلق لوگ عیدپر اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ بستی سے اُن کے لئے کھانا
آئے گا۔۔گوشت آئے گا۔۔اور ایک مسجد ہے یہاں سے پوری بستی کو لنگر کا کھانا اور عید
پہ گوشت دیا جاتا ہے۔
بڑے گہرے انداز
میں کہا۔ الحمد اللہ
مرید اس سے
کچھ زیادہ سننے کی طلب میں گویا ہوا۔ اس بار بہت منظم اور سٹمیٹک انداز میں کام ہوا۔
فرمایا۔ اس بار کا کیا مطلب؟
مرید نے جلدی
سے کہا۔۔ میں نے اس بار ہی دیکھا ہے نا۔۔اس لئے۔۔
فرمایا۔ یہاں
تو ہمیشہ سسٹمیٹک کام ہوتا ہے۔
فرمایا۔ یہاں
غربت بہت ہے۔
حامد صاحب کے
گھر کھانے پہ بتایا کہ پشاور میں ژالہ باری ہوئی ہے۔ فرمایا ۔ آپ کے مزے ہیں۔۔ہر طرح
کے موسم دیکھتے ہیں۔۔یہاں تو اکثر گرمی ہی رہتی ہے۔
کھانے میں تاخیر
پہ تبصرہ کیا۔۔ دولہا کا انتظار ہو رہا ہے ۔ اتنے میں فرخ اعظم اپنی بیگم شمیمہ کے
ہمراہ تشریف لے آئے تو مرید نے کہا۔ لیجیئے دولہا اور دلہن دونوں ہی آگئے ہیں۔ ایک
پھیلتی اور بڑھتی مسکراہٹ نے دونوں کا استقبال کیا۔ کھانے کے دوران زیادہ تر خاموشی
ہی رہی۔
عرس پہ منقبت بحضور قلندر بابا اولیا ء ؒ
کی کیسٹ ریلیز ہوئی۔ رات کو اپنے کمرے میں اس کی بابت بات کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ بہت
ہی اچھی کاوش ہے۔ جاوید اللہ دتا نے اس کی موسیقی ترتیب دی ہے۔ بھائی جان وقار یوسف
عظیمی نے دن رات ایک کر کے چار ماہ میں یہ کیسٹ تیار کروائی۔ ستار اور بانسری اصلی
استعمال ہونے سے یہ بہت اُٹھ گئی ہے۔ اس کیسٹ کو مشہور گلوکاروں رحیم شاہ وغیرہ کو
دینے کو کہتے ہوئے فرمایا اُن سے کہیں کہ وہ بھی ایسا کلام گائیں۔
اس دوران طاہرہ
نثار نے بادام پیش کئے تو مسکراتے ہوئے مصرعہ پڑھا
وہ شاخ ہی نہ
رہی جس پہ آشیانہ تھا
فرمایا۔ آج
کل میرے کھانے پہ کرکری بہت ہوتی ہے اور کھانے میں وہی بے نمک دال یا سبزی ۔ پھر کہا۔
ہر امیر آدمی کی طرح۔
صبح سیر پہ
ساتھ لے لیا۔راستے میں مرید سے دریافت کیا۔ اللہ نے اتنا بڑا نظام بنایا۔ اُس کو چلا
بھی رہا ہے۔ آخر اس کا اللہ کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ اس میں اللہ کا کیا فائدہ ہے؟
فرمایا۔ اللہ
الصمد۔۔اللہ تو بے نیاز ہے ۔ اللہ تعالیٰ اخلاص کے سوا کچھ نہیں۔ خلوص سے کام کرنا
ہی اللہ کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ بہت ہی بڑے ہیں۔
مرید کو اچانک
یوں محسوس ہوا گویا اللہ کی بڑائی اور عظمت کا ایک نیا مفہوم اس کو تعلیم کیا گیا ہے۔
عظمت اور بڑائی کا بہت گہرا تعلق خلوص اور اخلاص سے ہے۔ اُس کے مراد نے اُسے بن کہے
خلوص سے کام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے بتا دیا کہ لالچ اور فائدے۔۔سود و زیاں سے بے
نیاز ہو کر کام کرنا چاہئے۔
مرید نے دعا
کی۔۔اللہ اُسے خلوص عطا فرما دے۔
عید کے دوسرے دن گلشن شہباز حید ر آباد مراقبہ ہال
میں عید ملن پارٹی رکھی گئی۔ پشاور سے آنے والی ٹیم جس کی سربراہی ہمایوں پرویز کر
رہے تھے۔ چپلی کباب بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اُن کے مقابلے میں کراچی کی ٹیم
گولا کباب بنانے کا اہتمام کر رہی تھی۔ نو تعمیر مسجد دکھاتے ہوئے پوچھا۔ کیسی بنی
ہے؟ عرض کیا کہ بہت شاندار۔۔سطح زمین سے بلند ہونے کے باعث اور بی نمایاں ہو گئی ہے۔۔۔
بالکل کراچی کی جامعہ عظیمیہ جیسی ہے۔
مرید نے سلسلے
کی تعلیمات کے حوالے سے ویب سائٹ بنانے کی ضرورت کی بات کی تو فرمایا۔ آپ اسے بنائیں
اور انڈیپیندنٹ ہو کر کام کریں۔ اب آپ بڑے ہو گئے ہیں۔ مجھے ڈیپنڈنٹ لوگ یوں بھی پسند
نہیں۔۔بھئی جہاں اللہ کا معاملہ آجائے وہاں ڈیپینڈنٹ ہو جائیں اور جہاں دنیا کا معاملہ
ہو وہاں انڈیپیندنٹ رہیں۔ آپ لوگوں کی زیادہ پرواہ مت کیا کریں۔ اپنے کام سے لگے رہیں۔
لوح و قلم کے
انگریزی ترجمے کے حوالے سے فرمایا۔ سب نے مجھے کہا کہ ترجمہ بہت مشکل انگریزی میں کیا
گیا ہے۔ ڈکشنری کے بغیر نہیں پڑھا جا سکتا۔ میں نے ان سے کہا۔ انہوں نے مشکل انگریزی
میں سہی۔۔لکھ تو دیا۔۔ اب آپ اسے آسان زبان میں کر دیں۔ کسی نے دس تو کجا ایک صفحہ
تک لکھکر نہ دیا۔ ۔۔یہی (سلسلے کے لوگ) ایسا کہتے رہے۔۔ انہوں نے (انگریزوں ) نے تو
ایسا ویسا کچھ نہیں کہا۔۔۔ انہوں نے تو لے کر اسے سالفورڈ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل
کر دیا ۔ انہی تراجم کی وجہ سے دوسری زبانوں میں ترجمے ہو رہے ہیں یہ بھی نہ ہوتا تو
کیا کر لیتے۔
اس پر مرید
نے عرض کی۔ کہ ان باتوں سے محض یہ ہوا کہ دس سال ضائع ہو گئے۔۔جو تراجم ہوئے وہ چھپنے
سے رہ گئے۔
مرید کے گلہ
کرنے کا برا مناتے ہوئے فرمایا۔ یہ تو نا شکری ہوئی۔ابن عربی ی لکھی ہوئی کتابیں اب
آٹھ سو سال بعد منظر عام پر آئیں۔۔آپ کی کتابیں آپ کی زندگی میں چھپ بھی گئیں۔۔کورس
میں بھی شامل ہوگئیں۔۔بھئی آپ اپنا کام کرتے رہیں۔۔کچھ دیر سے سہی اس کا سامنے آنا
طے ہے۔
فرمایا۔ پھر یہ بھی تو ہے کہ ایک کتاب پہ ایک لاکھ
روپے لگ جاتے ہیں اور کتاب بکتی بھی نہیں۔۔۔ سب ہی مفت میں پڑھنا چاہتے ہیں۔
مرید نے لقمہ
دیا۔۔ کتابیں آ تو رہی ہیں۔
رعایت لفظی
کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا۔ آ رہی ہیں تو کیا جا بھی رہی ہیں۔ صرف آئیں گی ہی یا
جائیں گی بھی
شعور انسانی
کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
شعور سے ٹکرانے
سے بچنا چاہئے۔سقراط کو زہر کا پیالہ اسی لئے پینا پڑا کہ وہ شعور سے ٹکرا گیا تھا۔
شاہ ولی اللہ کا کیا قصور تھا۔ انہوں نے قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ ہی تو کیا تھا۔۔
لے کے اُن کے ہاتھ نچوا دیئے گئے۔ منصور نے کیا کہا دیا تھا؟ لے کے پھانسی پہ ٹانگ
دیئے گئے۔ یہ سب شعور نے کیا۔ اب اگر منصور سمجھدار ہوتے تو کہنے کے بجائے کچھ کام
ہی کر جاتے۔
فرمایا۔ دراصل
منصور میں سکت بھی تو نہ تھی۔ انہوں نے رابعہ بصری کے پیالے سے دودھ پی لیا تھا۔
اُس سے اُن کی انکھ کھل گئی اور وہ غیب میں دیکھنے لگے۔۔۔ اب اگر برداشت اور سکت ہوتی۔۔۔تو
وہ جو دیکھتے وہ بیان کرنے میں احتیاط کرتے۔۔وہ لاشعور میں دیکھتے اور بولتے رہے اس
سے شعور اکھڑ گیا۔۔ اب جو آپ دیکھ رہے ہیں ضروری تو نہیں کہ لوگ بھی وہی دیکھ رہے ہوں
اور اُسے برداشت بھی کر لیں۔۔اُن کے شعور تو اس بات سے واقف ہی نہیں۔۔۔وہ تو وہی کریں
گے جو ان کا شعور کہے گا۔ شعور سے ٹکرانے سے اجتناب ہی کرنا چاہئے۔۔شعور تو ہر اُس
بات سے گھبراتا ہے جو اُسے لاشعور کی طرف لے جاتی ہو۔
فرمایا۔ شعور
کی اسی روش کی بابت تو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ نے یہ لکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی
آزادی ادھوری رہتی ہے۔
پھر ارشاد ہوا
کہ عجیب بات ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ طویل عرصے تک زندہ رہے لیکن کھاتا ایسی چیزیں
ہیں جن سے عمر گھٹتی ہے۔۔گوشت کھاتا ہے۔۔سری پائے کھاتا ہے۔۔۔اب یہ کلیجی اور گردے
کیا ہیں؟ انسانی جسممیں فضلے کی صفائی کے اعضا ء ہیں۔۔اوجھڑی کیا ہے؟ کلیجی یعنی جگر
میں مضر روشنیاں فلٹر ہوتی ہیں۔۔ یہ تو ایسےہی ہے جیسے کموڈ یا فلش کو دھو کر اُس میں
کھانا کھانے بیٹھ جائیں۔ہماری غذاؤں میں کولسٹرول کی جتنی زیادتی ہوتی ہے۔۔عمر اُسی
قدر کم ہوتی چلی جاتی ہے۔
پھر ایک واقعہ
سنایا۔
ہمارے پڑوس
میں ایک شیخ صاحب رہتے تھے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ وہ رات کو دونوں بیویوں کے درمیان
چارپائی بچھائے سیدھے لیٹے رہتے۔۔ ایک طرف کروٹ لیتے تو دوسری طرف کی بیوی پیچھے سے
کرتا کھینچ کر پوچھتی۔۔ کیا میں تیری بہنیا لگتی ہوں۔۔ اور جھٹکے سے سیدھے ہو کر لیٹ
جاتے۔۔کچھ دیر بعد دوسری طرف کروٹ لیتے تو پہلی ولی پکڑ لیتی۔۔ کیا میں تیری میا لگتی
ہوں۔۔ سیدے لیٹے لیٹے اُن کیکمر تختہ ہو جاتی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کسی سے دشمنی لینی
ہو تو اُسے قتل مت کرو۔۔ اُس کی دوسری شادی کروا دو۔
پھر ارشاد ہوا
کہ بعض لوگ کام کرتے ہیں تو کام جلد ہو جاتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کچھ چولہے
کے پاس جائیں تو آگ بھی ٹھندی پڑ جاتی ہے۔
فرمایا۔ در
اصل اُن کے نسمہ میں اتنی سستی ہوتی ہے کہ جب وہ آگ پہ پانی رکھتے ہیں تو جو پانی دس
منٹ میں گرم ہونا ہوتا ہے اُسے پندرہ بیس منٹ لگ جاتے ہیں۔
عرس کی رات
اپنی سالانہ تقریر میں علم کی اہمیت اور ضرورت پہ روشنی ڈالنے کے بعد فرمایا۔ انسان
پیدا ہو تا ہے۔۔تو کہاں سے آتا ہے۔۔۔ جہاں سے آتا ہے وہ سب لاشعورہے۔ بچہ پیدا ہوتا
ہے تو وہ لاشعور کے قریب ہوتا ہے۔۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے۔۔ توں توں وہ لاشعور سے
دور ہوتا جاتا ہے۔۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے لاشعور سے قرین ہو جائے تو اُس کو
چاہئے کہ وہ اپنے بچپن میں واپس چلا جائے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ آپ آج سے دس بیس
سال بعد کیسے ہوں گے لیکن آپ جب چاہیں یہ بات اپنے ذہن میں اجاگر کر سکتے ہیں کہ آپ
آٹھ یا دس سال میں کیسے تھے۔ پھر تین چار ہزار افراد کے مجمع کو یہ مراقبہ کروایا کہ
وہ سب یہ تصور کریں کہ وہ آٹھ سال کے بچے ہیں۔پانچ دس منٹ مراقبہ کروا کر یہ دریافت
کیا کہ آپ کو کچھ نظر آیا؟ نصف سے زیادہ افراد نے ہاتھ بلند کر کے اثبات میں جواب دیا
تو آپ نے فرمایا کہ اس طرح روزانہ مشق کرنے سے آپ عمر کے پہلے دوسرے سال تک پیچھے جا
سکتے ہیں۔ جتنا آپ پیچھے جائیں گے اتنا لاشعور کے قریب ہو جائیں گے۔
صبح مراقبے
کے بعد ایک صاحب نے دریافت کیا کہ جب مرشد سامنے ہو تو کیا ضروری ہے کہ آنکھیں بند
کر کے مراقبہ کیا جائے؟
فرمایا۔ یہ
آپ سے کس نے کہہ دیا کہ کھلی آنکھوں سے مراقبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اصل میں آنکھیں بند
کرنے سے یکسوئی رہتی ہے اس لئے آنکھیں بند کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اگر کسی کو کھلی آنکھوں
سے یکسوئی رہتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ آنکھیں کھول کر مراقبہ کر لیاجائے۔
اپنے مراد کی
قربت میں بیس اکیس دب بتا کر واپس جاتے ہوئے مرید نے سوچا۔ مرشد کریم کے قول و فعل
میں دنیا اورآخرت کا ایک شاندار امتزاج اور حسین توازن اُن کی پہچان ہے۔ دوسری بات
اُس نے یہ محسوس کی اس بار حضور زیادہ تر کم گوئی پہ مائل رہے۔ حتیٰ کہ محفل میں بھی
بیشتر خاموش ہی رہتے۔۔کسی گہری سوچ میں گم۔۔۔اگر کسی نے کچھ پوچھ لیا تو چند ایک الفاظ
میں جواب دے کر بات ختم کر دیتے۔
جس برس مرید
کو پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی اُس نے فون کیا تو بات نہ ہوسکی۔۔ اس نے فون پہ پیغام چھوڑا
اور مرشد کریم کو اس بارے مطلع کرنے کی درخواست کی۔پھر چند ماہ بعد وہ حضور قلندر بابا
اولیا ء ؒ کے عرس کی تقریب میں شرکت کے لئے کراچی پہنچا۔ مٹھائی لے کر حاضر خدمت ہوا
تو بہت دعائیں دیں۔ مٹھائی دیکھ کر کہا۔۔ اس کے چار چار ٹکڑے کر کے لنگر میں رکھوا
دیں۔
مرید نے اپنے
پی ایچ ڈی کے تھیسس پہ اپنے سپر وائزر کے طور پر حضور کا نام دکھا کر عرض کی کہ آپ
میرے روحانی استاد تو ہیں ہی اس دنیا وی ڈگری کے حوالے سے بھی مجھے آپ کی شاگردی کا
شرف حاصل ہو گیا ہے تو مسکرا دیئے اور فرمایا ۔ میرے مرشد نے مجھے ہر طرح سے اتنا نوازا
ہے کہ کوئی کمی نہیں رہی۔ پھر کچھ توقف کے بعد ارشاد فرمایا۔ استغنا تبھی تو پیدا ہوتا
ہے جب کوئی کسر نہ رہ جائے۔
فرمایا ۔ اس کی ایک نقل یہاں دفتر میں بھی دے دیں۔
مرید نے ڈاکٹر
آف سائنس کی ڈگری ملنے کی پیشکش کی بابت بتایا تو فرمایا۔ اب آپ کیا ڈگریاں ہی لیتے
چلے جائیں گے۔۔ پھر کہا۔ اچھی بات ہے۔۔ آپ کر لیں۔
مرید نے اس
ضمن میں موضوع کی بابت راہنمائی کی درخواست کی تو فرمایا۔ روحانیت کو سائنسی انداز
میں پیش کرنے میں حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ کی کتاب لوح و قلم پہ کام ہونا چاہئے۔
ویسے روح کی صلاحیتوں کے حوالے سے بھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ لوگوں کو روحانیت کا جتنا
شغف ہے اتنا روح کے بارے میں جاننے اور اُس سے واقف اور آگاہ ہونے کے بارے میں نہیں
ہے۔ آج تک کسی کے ذہن میں یہ تک تو واضح نہیں ہے کہ روح ہوتی کیا ہے۔۔ سب اپنے ذہن
کے مطابق اپنے سمجھنے کو ہی حتمی مانتے ہیں۔
فرمایا۔ یہ
کتابیں پڑھ لینا۔۔کتابیں لکھ لینا۔۔ترجمہ کرنا۔۔ یہ مراقبے کرنا روحانیت نہیں ہے؟ اس
سے روحانیت کے بارے میں آپ کے علم میں اضافہ ضرور ہوتا ہے لیکن یہ سب روحانیت بہرحال
نہیں ہے۔
مرید نے عرض
کی ۔ حضور تو پھر روحانیت کیا ہے؟
فرمایا۔ روح
کا عرفان روحانیت۔۔روح کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ۔۔روحانیت ہے۔ روح کو سمجھیں۔۔روحانیت
کیا ہے اس کو سمجھیں۔
برطانیہ سے
آئے ہوئے ایک نو مسلم انگریز عمر شریف ملک سے مترجم کے ذریعے بات ہو نا شروع ہوئی۔
فرمایا۔ ان
سے کہیں۔۔ کہ یہ بائبل اور قرآن میں ایسی آیات تلاش کریں جو ایک مفہوم کی حامل ہوں۔۔جیسے
بائبل میں ہے کہ God said Light! And there
it was اور قرآن میں ہے کہ
اللہ نور السمٰوات و الارض۔۔اس سے یہ ثابت ہوگا کہ تمام انبیا کرام نے ایک ہی بات فرمائی
اور تمام انبیا ء آپس میں Brotherhood رکھتے تھے۔۔یہ فرقے تو ہم انسانوں نے بنا
دیئے ہیں۔۔ہمیں چاہئے کہ ہم انبیاء کے مابین بھائی چارے کو بنیاد
بنا کر آپس کے بھائی چارے کو فروغ دیں۔
آپ وہاں کرسمس
کا تہوار منائیں تو مسلمانوں کو مدعو کریں، انہیں کیک کھلائیں ، شراب نہ پلائیں، شراب
کسی نبی نے نہ پی اور نہ پسند کی۔۔۔ اسی طرح عید منائیں تو عسائیوں کو بلائیں۔۔۔ عید
میلاد النبی ﷺ پہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بلائیں۔۔ انہیں نعتیں سنائیں۔۔انہیں اپنے
نبی ﷺ کے بارے میں بتائیں۔۔انہیں کھانا کھلائیں۔۔چائے پلاےئں۔۔سوفٹ ڈرنک پلائیں۔۔ا
س سے آپس میں میل جول بڑھے گا۔۔ وہ آپ کو جانیں گے آپ انہیں جانیں گے تو دوریاں کم
ہو سکیں گی۔
مرید نے عرض
کی کہ یہ صاحب شرح لوح وقلم کے ترجمے کی ایڈیٹنگ کر کے دینا چاہتے ہیں اور اس کے لئے
مسودے کی نقل مانگ رہے ہیں۔
فرمایا ان سے
پوچھیں یہ کب تک واپس بھجوا دیں گے؟۔۔۔۔مرید نے دریافت کیا تو انہوں نے کہا ۔ ایک ہفتے
میں۔
فرمایا۔ ایک
مہینے تک بھی آجائے تو غنیمت ہی ہوگا۔
عرس پہ مقا
لات کا سیشن کا آغاز ہو چکا تھا کہ آپ پنڈال میں تشریف لائے اور نیچے سامعین میں بیٹھ
گئے۔احتشام بھائی نے سٹیج پر مدعو کیا تو منع فرما دیا۔ انہوں نے چٹ بھجوائی جس پہ
لکھا کہ آپ نیچے بیٹیں گے تو آپ کی توہین ہوگی۔ چٹ پڑھ کر فرمایا۔ کوئی توہین نہیں
ہوگی یہ تو مثال قائم ہوگی کہ مرشد ہوکر بھی سامعین میں بیٹھنا چاہئے۔ پھر دریافت کیا۔
ہر مقالہ کتنے وقت کا ہے؟ جب بتایا گیا کہ وقت کا تعین نہیں کیا گیا تو سُن کر سر ہلا
دیا۔
مرید کی باری
آئی۔ اُس نے اپنا مقالہ پیش کیا۔ جب نعت شروع ہوئی تو اُٹھ کر چلے گئے۔ بعدمیں جب وہ
پاس جا کر بیٹھا تو فرمایا۔
بھئی آپ کے مقالے کی بہت تعریف ہو رہی ہے۔
مرید نے عرض کی۔۔ آپ نے توجہ فرما دی تو لوگوں نے
بھی سُن لیا۔
فرمایا۔ نہیں
ایسی بات نہیں۔۔جب کوئی سٹیج پہ جا کر کچھ کہتا ہے تو لوگ سنتے ہیں۔۔ اچھی بات کہی
جائے تو سراہتے بھی ہیں۔
مرید روحانی
علوم پہ تحقیقی مقالے کے حوالے سے بات کرنے حاضر ہوا تو فرمایا۔
جی پھر کوئی
نئی سوجھی ہے؟
عرض کی۔ روحانی
علوم پہ ایک مقالہ تیار کرنے کے حوالے سے سوچ بن رہی ہے۔
فرمایا۔ آپ
انبیا کے Brotherhood پہ لکھیں۔۔ اس حوالے سے کام کی بہت ضرورت ہے۔
کتاب محمد الرسول
ﷺ اللہ جلد سوم کی بات ہو رہی تھی۔ کسی نے بتایا کہ حامد صاحب کی بیگم گھر میں بچوں
کو بٹھا کر اس میں سے کوئی ایک آدھ قصہ اُن کو سناتی ہیں۔ سُن کر پسندیدگی کا اظہار
فرمایا اور کہا کہا س سے بچوں کی تربیت اچھی ہوگی۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے فرمایا۔
میری دادی اماں
بچوں کو دوپہر میں سلانا بہت ضروری سمجھتی تھیں اور شام کے بعد بچوں کو گھر سے باہر
نہیں نکلنے دیا جاتا تھا۔ وہ اس بات کا بہت اہتمام کرتی تھیں۔ عصر تا مغرب تک کھیلنے
کی اجازت ہوتی تھی۔
کتاب اللہ کے
محبوب دکھائی اور کہا کہ طارق صاحب نے کتاب نہیں سونئیر شائع کا ہے۔
کسی نے کہہ
دیا کہ بہت پیار سے شائع کیا ہے۔
فرمایا۔ عقیدت
کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ لے کے دو سو روپے قیمت رکھ دی۔۔ اتنی تو اس کی لاگت ہی ہے۔ سارا
آرٹ پیپر اور فور کلر پرنٹنگ ہے۔
فرمایا۔ اجی
کہاں۔۔۔ اُن کی پھونک اتنی آسانی سے نہیں نکل سکتی۔
مرید نے عرض
کی۔ افغان قوم سے نہ جانے ایسا کیا قصور سر زد ہوا ہے کہ گزشتہ بیس بائیس برسوں سے
اس قدر عتاب کا شکار ہے۔ مہاجرت کے دکھ اور غیر ملکی اقوام کا تسلط اور خانہ جنگی۔۔انتہائی
جفاکش لیکن غربت اور ابتلا میں گرفتار۔
فرمایا۔ قصور
کیا ہونا ہے۔۔۔ جھوٹے ہیں۔۔جھوٹے کہنے میں اتنی شدت تھے کہ مرید لرز کر رہ گیا۔ کذب
و افتر ا پہ اتنی سخت پکڑ ہو سکتی ہے۔۔۔ ایک سرسراتی ہوئی ٹھنڈی سی لہر ریڑھ کی ہڈی
سے گزرتی چلی گئی۔۔اس نے ایک جھر جھری سی لی۔
انچارج بفرزون
لائبریری نصرت شاہین نے نجمہ صاحبہ کے گھر پر چائے کا اہتمام کیا تھا۔ چائے پہ انہوں
نے ابا حضور کے سامنے کیک رکھا جس پہ راقم کی پی ایچ ڈی کے حوالے سے انگریزی میں مبارک
باد لکھی ہوئی تھی۔ دیکھ کر فرمایا۔۔ میں یہ Congratulation کا
لفظ کبھی بھی درست طور پر ادا نہیں کر سکا۔
نصرت صاحبہ
نے پھولوں کے ہار پیش کئے جو مرشد کریم نے مرید کو پہنائے اوع دعا دی کہ اللہ آپ کو
ترقی اور برکت دے اور کامیاب کرے۔ پھر شاہین کو گجرے پہنانے کو کہا کہ بھئی یہ ڈاکٹر
صاحب کی بیوی ہیں۔ انہیں یہ ڈگری انہی کی وجہ سے ملی ہے۔
مرید نے عرض
کی۔ یوں محسوسہو رہا ہے گویا آج میں نے پی ایچ ڈی کی ہے۔
فرمایا۔ ابھی تو ان کا سینگ اگا ہے دوسرا اگ رہا
ہے۔
پھر ذوالقرنین
کا قصہ سنایا کہ اُس نے لوہے کی چادریں گرم کر کے اُن پر پگھلا ہوا تانبہ انڈیل کر
سدِ یا جوج بنائی مگر کہا کہ یہ دیوار اسی وقت قائم رہے گی جب تک اللہ اس کو قائم رکھے
گا یعنی یہ دیوار مضبوط تو ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ اللہ اس نہ گرا سکے۔
عرفان صاحب
نے کہہ دیا۔ یہ دیوار چین ہے؟
سُن کر خاموش ہوگئے اورکہا۔۔شاید ۔۔۔؟
پھر چائے کا اہتمام کرنے پہ نصرت صاحبہ کا شکر یہ
ادا اور اُٹھ کر سیر چل دیئے۔
نصرت صاحبہ نے بتایا کہ اس دعوت کا اہتمام مرشد کریم
نے خود ہی کروایا تھا۔ مرید تشکر و امتنان کی گہری گھٹا میں بھیگ کر رہ گیا۔
اگلے روز ابا حضور خط بنوا رہے تھے مرید جا کر پاس بیٹھ گیا۔
اس دوران فرمایا۔ شیو کرنے والے روزانہ شیو کرتے ہیں۔۔۔ چھوٹی ڈاڑھی والے ہفتے دو ہفتے
کے لئے فارغ ہو جاتے ہیں او لمبی ڈاڑھی والے تو مہینے دو مہینے کے لئے فارغ رہتے ہیں۔
خط بنوا کر
فارغ ہوئے تو کسی کا نام لے کر فرمایا کہ انہوں نے کہا تھا کہ میری نصیحت ہے کہ کبھی
ہونٹ نہ منڈوانا۔ ہونٹ منڈوانے والے چند روز شیو نہ کریں تو خارش ہوتی ہے اور عجیب
سا بھی لگتا ہے۔
پھر اُٹھ کر
کمرے میں گئے۔ باہر آئے تو ہاتھ میں سیاہ کپڑا تھا ۔ مرید کو دے کر فرمایا۔ یہ سلسلے
کی یونیفارم ہے۔ آپ مجھ سے پیسے لے کر سلوائیں۔
پھر پوچھا۔
سلائی کتنی ہے؟مرید نے عرض کی ۔ آپ رہنے دیں۔ میں سلوا لوں گا۔
فرمایا۔ اگر
میں نے سلائی کے پیسے نہ دیئے تو یہ پڑا رہ جائے گا۔
حامد صاحب نے
کہا۔ ساڑھے چار سو روپے۔
فرمایا ۔ لو
سونے سے گھڑ ونت مہنگی ہوگئی۔ گھڑونت یعنی بنائی۔ پھر جا کر کمرے سے پانچ سو کا نوٹ
لا کر دے دیا۔
شہرت کے حوالے
سے فرمایا۔ اس سے پرائیویسی ختم ہو جاتی ہے۔ بندہ کوئی کام کر ہی نہیں سکتا۔
فرمایا۔ میں
نے جنگ کے لئے کالم لکھنا شروع کیے تو میر صاحب سے پوچھا۔ آپ مجھے کیا دیں گے تو انہوں
نے کہا۔ آپ کو شہرت ملے گی۔
میں نے کہا۔
کیا میں شہرت کھا کر زندہ رہوں گا۔ میرے بچے شہرت کھائیں گے؟ اجی یہ سب فضول کی باتیں
ہیں۔ شہرت ہے۔۔ کھانے کو کچھ نہیں۔۔آپ خود کیوں صرف شہرت پہ گزارا نہیں کرتے۔
کتب بینی کے
ذوق کے بڑھتے فقدان کی بات ہو رہی تھی تو فرمایا ۔ لوگ کتابیں پڑھیں یا نہ پڑھیں۔۔خریدتے
ضرور ہیں۔ امیر لوگ اپنے علم کا اظہار کرنے کو گھروں میں لائبریریاں بناتے ہیں اور
ہر مصنف کی کتابوں کاپورا پورا سیٹ خرید کر رکھتے ہیں۔ قیمتی اور مہنگی کتب تو وہ ضرور
ہی خریدتے ہیں کیونکہ اس سے زیادہ رعب پڑتا ہے۔
عرفان صاحب
کے گھر پر رات کھانے کے بعد بیٹھے تھے۔ کھانے کے بعد کوئی بات نہیں ہو رہی تھی۔ عرفان
اُٹھ کر گئے اور پارکر کا ایک پین لا کر ابا حضور کو دیا اور کہا کہ آپ یہ قلم میری
طرف سے ڈاکٹر صاحب کو دے دیں۔ حضور نے قلم لے کر مرید کو دیتے ہوئے کہا۔ آ پ کے کام
کی چیز ہے۔
اس بار عرس
کے دن لوگوں سے ملاقات کا یہ انداز رہا کہ صبح نماز، مراقبے اور درس کے بعد امی حضور
اور مرشد کریم کو مسجد کے اندر ایک تخت پوش پر بٹھا دیا گیا۔ سب قطار بنا کر باری باری
گزرتے اور سلام کرتے۔۔میاں مشتاق صاحب اور نیاز
احمد صاحب سے تبرک کے چنوں کا پیکٹ لیتے۔۔اور آگے بڑھ جاتے۔
ہاتھ تک ملانے کی ممانعت تھی۔ اگر کسی نے فرطِ کشش الفت سے مغلوب ہو کر کوشش کی بھی تو اُس سے بڑھے
ہوئے ہاتھ میں تبرک کا پیکٹ تھما کر اس کو دوسروں کو موقع دینے کی تلقین کے ساتھ آگے
برھا دیا گیا۔ ہزار بارہ سو عقیدت مندوں کے جوش عقیدت کو لگام دینے کا سلیقے سے اہتمام
کیا گیا تھا۔ جب سب حضرات گزر گئے تو خواتین کی باری ائی اور وہ بھی ایک ایک کر کے
سلام کر کے گزرتی رہیں۔
بعض لوگ جن
کو مرشد سے قربت کا کچھ زیادہ ہی دعویٰ تھا انہوں نے اس سے اگے بڑھ کر اظہار الفت و
اپنائیت کرنا چاہا تو انہیں جتا دیا گیا کہ نطم و ضبط کے ،لئے ڈسپلن کے لئے کسی استثنا
کی گنجائش نکالی گئی تو سارا نظام تلپٹ ہو جاتا ہے۔لہذا قدم بڑھاؤ۔۔اور نظم و ضبط برقرار
رکھو۔۔ مقررہ حدوں میں رہنا ہی اصل قربت و
الفت ہے۔
صبح کے درس
میں معاشرتی نظام کی اہمیت پہ بات کرتے ہوئے فرمایا۔ پیغمبروں نے انسان کو اچھائی برائی
کے تصورات دیئے تاکہ معاشرت کا نظام قائم ہو سکے۔ شروع میں بہن بھائیوں کی آپس میں
شادی ہوا کرتی تھی لیکن اُس میں بھی امر ملحوظ رکھا جاتا تھا کہ ایک بار توام پیدا
ہونے والے بھائی بہن کی شادی نہیں ہوتی تھی بلکہ اُن کی شادی کے بعد پیدا ہونے والے
لڑکے اور لڑکی سے کی جاتی تھی۔ ہابیل کی بہن ۔۔قابیل کی بہن کی نسبت اتنی خوبرو نہ
تھی۔۔ اور قابیل کو ہابیل کی بہن گوارا نہ تھی۔۔۔اس لئے اُس نے جھگڑا کھڑا کر دیا کہ
وہ ہابیل کی بہن کی بجائے اپنی بہن۔۔جس کی شادی قابیل سے ہونا تھی۔۔سے شادی کرے گا۔
اس پہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ قابیل نے ہابیل کو قتل ہی کر ڈالا۔
انبیاء کرام
نے انسان کو یہ شعور دیا کہ اگر وہ معاشرتی اقدار کو اپنائیں گےتو نہ صرف یہ کہ اُن
کی یہ دنیا بہتر ہوگی بلکہ اُن کو اپنی اُخروی زندگی کو بہتر بنانے کے بہتر اور زیادہ
مواقع ملیں گے۔
فرمایا۔ لوگ
روحانیت سیکھنے کے لئے پندرہ منٹ تو دیتے نہیں اور یہاں وقت دیئے بغیر کام بنتا نہیں۔
آپ دنیاوی علوم کے لئے تو سالوں پڑھتے ہیں۔۔ ہم نے ایک بار حساب کیا تو معلوم ہوا کہ
چھتیس ہزار گھنٹے پڑھ کر انسان میٹرک کرنے کے بعد ،محض اس قابل ہوتا ہے کہ وہ یہ طے
کر سکے کہ اب کیا پڑھنا ہے۔
اس کے برعکس
یہاں پندرہ منٹ کا مراقبہ کرنا دو بھر لگتا ہے اور اس پہ یہ گلہ بھی رہتا کہ ہم نے
کچھ نہیں سیکھا۔ جب آپ باقاعدگی سے مراقبہ نہیں کریں گے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔
فرمایا۔ یہ
عجیب منطق ہے کہ روحانیت بوڑھے ہی سیکھیں۔۔۔۔ اگر بوڑھوں نے ہی پڑھنا ہے تو انہیں چاہئے
کہ نرسری جماعت میں بھی داخل کئے جائیں۔
آپ کے ملک میں
خواندگی کا تناسب ۱۳ فیصد ہے چلیں آپ بیس مان لیں۔۔۔ باقی ۸۰ فی صد میں سے کتنے لوگ
ہیں جو بوڑھے ہیں آپ اُن کو تو تعلیم دیتے نہیں اور چلے ہیں بوڑھوں کو روحانیت سکھانے۔۔بھلا
بڈھے طوطے بھی کبھی کچھ سیکھ سکے ہیں۔۔وہ نرسری کا قاعدہ تو پڑھ نہیں سکتے تو روحانیت
کیونکر سیکھیں گے۔
ناشتے میں مالٹے
کا جوس پیش کیا گیا تو فرمایا۔
اب ڈاکٹروں
کا کہنا ہے کہ جوس کی نسبت براہ راست مالٹے کھانا بہتر ہے۔
مرید نے عرض
کی۔ شاید اس لئے کہ اس طرح فائبر زیادہ ملتا ہے۔
فرمایا۔ نہیں۔
فائبر تو جوس میں بھی ہوتا ہے۔ جوس میں فارن باڈیز پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس لئے اگر جوس
پیا بھی جائے تو تازہ جوس پئیں۔
مرید نے کتاب
محمد الرسول اللہ ﷺ کے حوالے سے کہا کہ اس نے اس کتاب کو سرسری سا دیکھا ہے اور اسے
اس میں حضرت شمعون علیہ السلام اور دانیال علیہ السلام کا تذکرہ نظر نہیں آیا۔
فرمایا۔ حضرت
شمعون علیہ السلام کا تذکرہ سموئیل کے نام سے کیا گیا ہے اورحضرت دانیال علیہ السلام
کا تذکرہ بھی موجود ہے البتہ فہرست میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔
کسی نے ملاوٹ
کی بابت کہا کہ آج کل یہ برائی بہت عام ہو گئی ہے۔
فرمایا۔ آج
کل آٹے میں ملتانی مٹی ملاوٹ کر رہے ہیں۔
حامد صاحب نے
کہا۔ بھوسی ٹکڑے پیس کر ملاتے ہیں۔
فرمایا۔ بھوسی
ٹکڑے تو پھر بھی کھانے کی چیز ہیں۔۔۔۔ یہ تو ملتانی مٹی ملا رہے ہیں۔
فرمایا۔ عجیب
بات ہے چکنائی کی زیادتی سے موت واقع ہو جاتی ہے لیکن کبھی کوئی چکنائی کی کمی سے نہیں
مرا۔۔ ہاں یہ ہے کہ کمزور ضرور ہوتا ہے۔ کولیسٹرول کی زیادتی سے رگوں میں خون کا بہاؤ
رُک جاتا ہے۔
مرید نے عرض
کی کہ غفار صاحب کا کہنا ہے کہ مکھن میں جامنی رنگ ہوتا ہے جبکہ میرا خیال ہے کہ اس
میں سفید رنگ غالب ہوتا ہے اور اس کا مغلوب رنگ زرد ہوتا ہے جیسا کہ گائے کے مکھن میں۔
فرمایا۔ جی
ہاں۔ آپ کا خیال درست ہے۔
مرید نے عرض
کی کہ لوگوں میں جامنی رنگ کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہیہ صرف سیکس کے لئے ہے۔۔جبکہ
میں سمجھتا ہوں کہ یہ تمام جسمانی غدودوں کی کار کردگی کی اصلاح کرتا ہے۔
فرمایا۔ بھئی
سیکس بھی تو غدودوں ہی سے متعلق ہے۔
پھر ایک یہ
بات فرمائی کہ بڑے لوگ عوام سے بہت ڈرتے ہیں۔۔۔ عوام ان سے ڈرتی ہے۔ سیکیورٹی کے انتظامات
لوگوں میں گھلنے ملنے سے پرہیز کے پس پردہ یہی خوف ہی تو ہوتا ہے۔ ایک بار ہم کوئٹہ
میں ایک صاحب کے یہاں گئے ۔ بہت وسیع و عریض علاقے میں اُن کا گھر تھا ۔پہلے ہم ایک
چار دیواری سے گزرے۔۔۔کافی آگے جا کر ایک اور چار دیواری آئی۔ اُس کے گیٹ سے گزر کر
آگے گئے تو ایک اور چار دیواری ائی اس کے بعد اسل گھر کی عمارت شروع ہوئی ۔ دروازے
اتنے نیچے اور تنگ کہ مجھ سا آدمی بھی پہلو کے بل ہو کر جھک کر ہی اندر داخل ہو سکے۔
وہ نواب صاحب ایک کمرے میں جتنے باغیچے میں وقت گزارا کرتے۔ وہاں سے اُٹھتے تو اندر
کمرے میں چلے جاتے۔ اُن کی زندگی کا باہر اتنا چرچا اور اندر اتنی گھٹن۔
زبیر صاحب نے
کچھ کہا تو فرمایا۔ ایک آدمی ظلم کی باتوں پہ سوچ بچار کرتا ہے تو وہ ظلم کرنے پہ اتر
اتا ہے۔ ایک آدمی تحقیق اور جستجو کی بابت سوچتا ہے تو اُس کے اندر تحقیق اور جستجو
کی باتیں اتر جاتی ہیں۔ ایک آدمی اچھی باتیں سوچتا ہے تو اچھا بن جاتا ہے۔۔۔۔ ایک آدمی
بری باتیں سوچتا ہے تو وہ برا آدمی کہلاتا ہے۔ بھئی جو جیسا سوچتا ہے وہ ویسا ہی تو
بن جاتا ہے۔
فرمایا۔ ہر
آدمی ناک ہاتھ میں لئے پھرتا ہے لیکن ہم نے کبھی کسی کی ناک کٹی ہوئی نہیں دیکھی۔
اپنی والدہ
کے حوالے سے ارشاد فرمایا۔ وہ کہا کرتی تھیں اولاد کی محبت نہیں آگ ہوتی ہے۔ ایک اور
بات وہ یہ بھی کہا کرتی تھیں کہ میرا پیٹ تو کراچی میں پڑا ہے۔
محبت کو آگ
کہنا۔۔۔ اولاد کو پیٹ کہنا۔۔۔ یہ اردو کو نئے روزمرہ دینے کے برابر ہے
پھر حضور قلندر
بابا اولیا ء ؒ کے حوالے سے بتایا کہ وہ کیا فرمایا کرتے تھے کہ جائیداد نہیں ہونی
چاہئے۔ انہوں نے اپنے لئے جو گھر بنایا۔۔۔ وہ ۲۴۰ گز پہ ہے۔۔۔۔۔ اُس پہ بھی افسوس ہی
کیا کرتے تھے کہ نہیں بنانا چاہئے تھا۔
مرید نے حضور
کے کمرے میں جا کر کتاب قوس و قزح آٹو گراف کے لئے پیش کی تو فرمایا۔میاں صاحب کتاب
شائع کرنے میں بہت تیز ہیں۔
مرید نے کمرے
میں لگے رنگین شیشوں کو دیکھ کر تبصرہ کیا کہ آپ کے کمرے میں رنگین شیشے لگے دیکھ کر
اُسے بہت اچھا لگا۔۔ آپ ایک طرز علاج۔۔کلر تھراپی کے بانی ہیں۔۔ اور یہاں آپ ہی کے
ارد گرد کہیں کوئی ایسی چیز نظر نہ آئے جس سے معلوم ہو کہ آپ خود بھی اس طرزِ علاج
سے استفادہ فرماتے ہیں تو کچھ عجیب سا لگتا ہے۔
فرمایا۔ نہیں
ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔ میرے ارد گرد یہ پھول ہیں۔
پھر قدرے توقف
کے بعد کہا۔ رنگوں کے حصول کا بہترین ذریعہ پھول ہی تو ہیں۔
مرید نے سوچا۔
وہ اس قدر مثبت طرزِ فکر خود کیسے حاصل کرے جو کسی بات پہ بھی کسی طور سے منفی سوچ
تک پاس پھٹکنے نہ دے۔ اُن کی بات کا ہر انداز اتنا مثبت ہوتا ہے کہ سننے والے کی سوچ
کی منفیت اُس کے بہاؤ میں بہہ جاتی ہے ۔
محفل برخاست
ہوئی۔ کمرے سے باہر آکر اُس نے صبح کی تیز ہوتی دھوپ کو کچھ زیادہ ہی روشن محسوس کیا۔
وہ آستانے کے پاس آ کر رکا۔
آج سے کتنے
ہی سال پہلے وہ اسی جگہ بار اپنے مراد کے روبرو پیش ہوا تھا۔۔اس تمام عرصے میں وہاں
کتنا کچھ بدل گیا تھا۔ خالی میدان میں ایک دو منزلہ عمارت بن گئی تھی۔۔۔مراقبہ ہال
کے پہلو میں جامعہ عظیمیہ اور عظمی پبلک سکول بن گئے تھے۔۔۔ وہاں سے یقین اور روشن
فکر کی کرنیں اور لہریں پھیل رہی تھیں۔۔۔۔ کتنے ہی ذہنوں کی ابیاری ہو رہی تھی اور
نہ جانے مزید کتنے اس سے سیراب ہوں گے۔
اُس نے ایک
گہرا سانس لیا اور سوچا خود اُس کے اپنے اندر اس تمام عرصے میں کیا کیا تبدیلیاں رونما
ہوئی ہیں۔ تبدیلیوں کی فہرست بناتا وہ گھر لوٹ گیا۔ اس نے تبدیلیوں کی فہرست کا عنوان
سوچا۔۔۔ انشراح اور بالیدگی۔۔۔ اس کے اندر ایک گہری طمانیت اور شکر گزاری کی لہر ابھری
اور اُس کو بھگوتی چلی گئی۔۔ اُس کو شکر الحمد للہ کہنے کے سوا اور کیا سوجھتا۔ سو
اُس نے تشکر کے ایک گہرے احساس کے ساتھ کہا ۔ شکر الحمد للہ۔
مقصود الحسن عظیمیؔ
سفید پوش طبقے سے
تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے
بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس
کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش
کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔