Topics

سوداگر اورطوطے کی کہانی

          ایک روز جب وہ مراقبہ ہال پہنچا تو اُس نے ایک نستعلیق سے صاحب کو اپنے مراد کے پاس بیٹھے دیکھا۔ انہوں نے تعارف کروایا۔ وہ روز نامہ جسارت کے ناشر ذاکر صاحب تھے۔اُن کی سعادت تھی کہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ نے اُن کا ماتھا چوما تھا۔ بات ہو رہی تھی زیرِ زمین میٹھے پانی کی موجودگی کی۔ ذاکر صاحب نے اپنے ساتھ لائی ہوئی ڈاؤزنگ راڈز کی مدد سے پورے مراقبہ ہال کی زمین کا جائزہ لینے کے بعد


مراقبہ ہال کی شمال مغربی سمت میں میٹھے پانی کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا۔ اُس کے مراد نے اُن سے دریافت کیا۔ چائے پیئں گے؟ انہوں نے کچھ پس و پیش کے بعد کہا تبرکاًپی لیتے ہیں۔ اس پہ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” بھئی انہیں تبرک والی چائے پلائیں۔“ جانے سے پہلے انہوں نے بتایا کہ انہیں وہاں آکر انشراح اور بالیدگی حاصل ہوئی ہے تو اُسے کوئی حیرت نہ ہوئی کیونکہ وہاں آنے والے اکثر کچھ ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔

          اس انشراح اور بالیدگی کی بات میں اُس نے اتنا پھیلاؤ دیکھا تھا کہ اس کی بیوی اپنے گھر آئے مہمانوں سے اُن کی بابت بات کرتے کہتی ۔۔۔۔ ہمارے بابا جی۔۔۔۔ اور وہ اسے چھیڑنے کو کہتا وہ تو میرے بابا جی ہیں تمہارے کہاں سے ہو گئے۔ تم ہمارے کے بجائے "ان کےبابا جی“ کہا کرو۔ وہ کہتی میں بابا جی سے آپ کی شکایت کروں گی۔ وہ کہتا۔ تم شکایت کرو گی تو وہ تمہی کو ڈانٹیں گے کہ تم کیسی بیوی ہو کہ اپنے شوہر کی شکایت کر رہی ہو۔ وہ دل برداشتہ ہونے کے بجائے بڑے وثوق سے کہتی۔ جی نہیں وہ آپ کے کان کھینچیں گے کہ تم اپنی بیوی کو ستاتے ہو۔

          ایک روز وہ دونوں اپنے بچوں کے ہمراہ مراقبہ ہال پہنچ گئے۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ کھلتے پھولوں پہ نکھار آگیا تھا۔ وہ ادھر سے اُدھر یوں دوڑنے بھاگنے لگے جیسے وہ اپنے گھر پہنچ گئے ہوں۔ اُس نے اُن کی اپنائیت اور اتنی جلد مانوس ہونے کی بابت سوچنے کا تکلف کرنے کی بجائے اس بات کو اپنے مراد کا اعجاز مانا کہ وہاں کسی کو غیرت اور بے گانگی محسوس نہیں ہو سکتی تھی۔ کچھ دیر بعد جب وہ دونوں اب حضور کے کمرے میں اُن کے سامنے بیٹھے تھے، اُس کو چہل سوجھی اور اُس نے اپنے مراد کو مخاطب کر کے اپنی بیوی کی بابت کہا۔ حضور اس کو منع کریں۔۔ یہ آپ سے بیعت تو ہوئی نہیں اور یہ خود کو عظیمی بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ یہ بھی آپ کی مریدنی ہیں۔



” کیوں آپ یہ نہیں چاہتے کہ یہ بھی جنت میں جائیں؟“ انہوں نے اُس کی خوش طبعی کا مزا لیتے ہوئے فرمایا۔

          اپنے مراد کی زبانی جنت کی بشارت سُن کر وہ کھل ہی تو گیا۔ اُس نے شرارت سے کہا۔ حضور یہ وہاں۔۔۔ جنت میں بھی۔۔۔ اور بات ادھوری چھوڑ دی۔

          انہوں نے مقدمے کو طول دینے کی بجائے فرمایا۔” چلیں کبھی یہ ملنے آجایا کریں گی کبھی آپ چلے جایا کریں گے۔“ اور کہا ”لاؤ بھئی ان سے فارم بھروا دیں۔ وہ فارم لے کر آیا۔ فارم بھرنے کے دوران اُس کو ایک اور چہل سوجھی۔ اُس نے تاریخ پیدائش اور عمر کی خانہ پوری پہ بیوی کو شرارت سے دیکھتے ہوئے معصوم بن کر پوچھا۔ یہاں کیا لکھوں۔ اکثر خواتین کی طرح اُس کو اس بات کا دھیان رہتا تھا کہ لوگ اُس کی عمر کا درست اندازہ نہ لگا پائیں اس لئے وہ اپنا سن پیدائش بھلائے رکھتی تھی۔ اس نے اُس وقت بھی یہی کہا۔ وہ تو مجھے یاد نہیں۔ اس پہ انہوں نے کہا آپ تیس سال لکھ دیں۔ پیشتر اس کے وہ کوئی اور بات کرتا انہوں نے اُس کو بیعت کرکے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کے اُس کو دم کیا۔

          اگلے روز جب وہ دونوں اپنے مراد کے پاس پہنچے تو اُس کی طبیعت کی جولانی مستی پہ مائل تھی۔ وہ کسی قدر شوخی پہ اترا ہوا تھا۔ اُس نے مصنوعی سنجیدگی کہا۔

          ” حضور ایک عجیب سا مسئلہ ہو گیا ہے۔“ انہوں نے سوالیہ انداز سے اُس کی طرف دیکھ کر اُسے مسئلہ بیان کرنے کی اجازت بخشی تو اُس نے کہا۔

          ” حضور اب میری بیوی سلسلے کے حوالے سے میری بہن بھی ہوئی۔۔۔۔ “ اور اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا۔ شاید ادب مانع آگیا تھا۔

          انہوں نے اُس کی بات سُنی اور مسکرادیئے اور کہا۔ جب آپ کی امی کو حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ نے سلسلے میں بیعت کیا اُس وقت ہمیں بھی کچھ ایسی ہی بات


سوجھی تھی۔ آپ نے تو محض سوال پوچھا ہے ۔ بھئی ہم نے تو شرارت میں بھی کہہ دیا تھا۔ آپ کی امی نے بات کو اتنا بڑھا دیا کہ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒ ﷭ سے شکایت کر دی۔ انہوں نے کہا۔ ہاں بھئی کفارہ دینا پڑے گا فیصلہ دے کر انہیں ساٹھ آدمیوں کے لئے کھانے کھلانے کا کہا تو تب جا کر کہیں معاملہ رفع دفع ہو اتھا۔“

          اُس نے محسوس کیا کہ وہ اُس کی خوشی کی خاطر اُس کی گستاخی سے نہ صرف  نظر فرما گئے ہیں بلکہ دلجوئی اور حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ یہ سبق بھی تعلیم کیا کہ احتیاط ہی بہتر ہے۔

          رفتہ رفتہ مراقبہ ہال میں اپنائیت کا احساس بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ وہ چند ایک بارسہ پہر میں وہاں گیا اور رات گئے گھر گیا۔ ایک دو بار وہاں مراقبہ ہال میں ہی شب بسر کی۔ وہ اپنے مراد کے شب و روز قریب سے قریب تر ہو کر دیکھنے کا متمنی تھا اور وہ اُس کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ جس رات وہ پہلی بار مراقبہ ہال میں شب بسری کے لئے رکا۔ اُس رات اُس کو معلوم ہوا کہ مراقبہ ہال کے تمام امور سلسلے کے بھائی رضا کارانہ طور پر سر انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ذمے ڈیوٹیاں لے رکھی ہیں۔ کچھ دن میں وہاں آکر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تو کچھ رات میں۔ دن میں آنے والوں کو مراقبہ ہال کی صفائی ، مطبخ کے انتظام، استعمال شدہ برتنوں کی صفائی سے لے کر روحانی ڈاک میں آنے والے خطوط کو کھولنا، اُن کو فائل میں لگانا، انہیں اپنے مرشد کے ملاحظہ کے لئے پیش کرنا، اُن خطوط کے لکھے جوابات کو لفافوں میں بند کرنا، انہیں حوالہ ڈاک کرنا ۔۔۔ شامل تھا۔رات میں آنے والوں نے شام ہوتے ہی لالٹینوں کی صفائی کرنے، پودوں کو پانی دینے، رات کا کھانا بنانے، برتن سنبھالنے، اور رات کی ڈیوٹی پر مامور لوگوں کے لئے چائے بنا کر دینے اور رات میں رکنے والے مہمانوں کے لئے بستر لگانے جیسے کام اپنے ذمے لے رکھے تھے۔ انہی دنوں مسجد کی تعمیر بھی شروع تھی۔ رات میں آنے والے ایک بھائی نے اُسے بتایا کہ حضور اُس کے رات کو یہاں قیام سے بہت خوش ہیں۔


اُس بھائی کی بات سے اُس کو بہت حوصلہ ہوا۔ اُس نے جانا کہ وہ سب جانتے ہیں کہ کون کیا چاہتا ہے۔

          رات میں مراقبہ ہال میں قیام کا تجربہ اُس کو اپنی زندگی کے انمول تجربات میں سے ایک لگا۔ شام ہوئی تو مغرب کی نماز کے بعد اُس کا مراد لان کی گھاس پہ بچھی جاء نماز پہ ہی مراقب ہو گیا۔ مراقبہ کے بعد وہاں لالٹینیں جل اُٹھیں۔برقی روشنیوں کے شہر نگاراں میں فقیر کی کٹیا میں چراغ جل اُٹھے تھے اور اُن چراغوں کی لو صاحب روشن ضمیر اصحاب کے دلوں کو جگمگا رہی تھی۔

          سرجانی ٹاؤن میں اُس وقت تک آبادی مراقبہ ہال سے کوسوں دور تھی۔ اُس نے سوچا کہ وہ اُن سے کوئی سوال پوچھے۔ کیا پوچھے؟ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا وہاں کچھ اور لوگ بھی آگئے۔ پیشتر اس کے آنے والے افراد میں سے کوئی بات کرے۔۔۔ اُس کے مراد نے ایک کہانی سنانا شروع کر دی۔ نہایت تفصیل اور جزیات کے ساتھ انہیں تیسری چوتھی جماعت کے نصاب میں شامل سوداگر اور چین کے طوطے والی کہانی سنائی۔

          اُس کہانی کے مطابق ایک سوداگر چین جانے کے لئے سفر پر نکلنے سے پیشتر اپنے بچوں سے پوچھتا ہے کہ وہ اُن کے لئے کیا لائے؟ اُس کا بیٹا لکڑی کے گھوڑے کی فرمامئش کرتا ہے اور بیٹی گڑیا کی۔ پھر وہ سوداگر اپنے گھر میں پنجرے میں بند طوطے سے دریافت کرتا ہے کہ میاں مٹھو۔۔۔ تم بتاؤ میں تمہارے لئے چین سے کیا لاؤں؟ وہ طوطا کہتا ہے کہ آپ میرا ایک پیغام چین کے طوطوں کو دے سکیں اور جو جواب وہ دیں وہ آکر مجھے بتا دیں تو آپ کی بہت عنایت ہوگی۔ سوداگر اُس کا پیغام لے جانے اور جواب لاکر دینے کا وعدہ کرتا ہے۔وہ طوطا سوداگر سے کہتا ہے کہ چین کے طوطوں سے کہنا۔ تم یہاں کھلی فضاؤں میں آزادی سے اُڑتے پھرتے ہو۔ کبھی اس باغ اور کبھی اِ س باغ۔ لیکن تمہارا ایک ساتھی یہاں سے بہت دور ایک قفس میں قید ہے۔ اُس نے تمہیں



سلام کہا ہے۔ سوداگر چین پہنچ کر اپنا سامان بیچ لیتا ہے۔ واپس جانے کی تیاری کرتا ہے۔ بچوں کے لئے اُن کی فرمائش کے علاوہ بھی تحائف خریدتا ہے۔ راستے میں وہ ایک باغ کے قریب سے گزرتے ہوئے طوطوں کے ایک غول کو دیکھتا ہے تو اُسے اپنے مٹھو کا پیغام یاد آتا ہے اور وہ پکار کر اُن کو مٹھو کا پیغام دیتا ہے۔ مٹھو کا پیغام سُن کر ایک ڈال پہ بیٹھے طوطوں میں ایک طوطا نیچے گرتا ہے۔

          سوداگر پاس جا کر دیکھتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا کہ وہ طوطا تو مر چکا ہے۔ سوداگر افسو س کرتا ہے اور اپنی راہ چل کر گھر آتا ہے۔ بچوں کو اُن کے تحائف دینے کے بعد جب وہ طوطے کے پاس آتا ہے اور طوطا اُس کا اپنا پیغام کی بابت پوچھتا ہے اور سوداگر اُس کو پورا واقعہ تفصیل سے سناتا ہے ۔ سوداگر سے پوری بات سُن کر اُس کا طوطا گم سم ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد سوداگر دیکھتا ہے کہ اُس کا مٹھو بھی مر چکا ہے۔ وہ پنجرے کا دروازہ کھول کر مٹھو کی لاش باہر پھینکتا ہے۔ جونہی مٹھو زمین سے ٹکراتا ہے وہ زندہ ہو کر اُڑ کر قریبی درخت کی شاخ پر جا بیٹھتا ہے۔

          سوداگر حیران ہو کر اُس سے دریافت کرتا ہے کہ میاں یہ کیا ماجرا ہے؟ تو مٹھو کہتا ہے دراصل چین کے طوطے نے اُس کو یہی پیغام بھجوایا ہے کہ اگر آزادی چاہئے تو مرنے سے پہلے مر جاؤ۔ تمہیں آزادی مل جائے گی۔ اور فرمایا۔ روح کا طوطا بھی اس جسم کے پنجرے میں قید ہے اور مراقبہ درحقیقت مرنے سے پہلے مرنا سیکھنے کا ذریعہ ہے۔

          آخری جملہ سننے سے پہلے کہانی سننے کے دوران وہ یہی سوچتا رہا تھا کہ بچوں کی یہ کہانی وہ انہیں کیوں سنا رہے ہیں لیکن جونہی انہوں نے کہانی کا آخری جملہ ارشاد فرمایا۔۔۔ وہ کہانی جس پہ اُس نے آج تک غور کرنے کی زحمت نہیں کی تھی یکدم اک گنجینہ ء معنیٰ بن گئی۔ کتنی ہی کام کی باتیں اُس نے سُن کر کھو دی تھیں۔ اسی طرح کی کام کی ایک بات انہوں نے اُن سب کو لوٹا دی تھی۔ اُس کا سر جھک گیا۔ اُس نے



سوچا کہ فقیر کس طرح سامنے کی بات اُن کو سمجھاتا ہے۔ اُس نے یہی کہانی اپنے بچپن میں، گرمیوں کی چاندنی رات میں چھت پہ اپنی ماں کے پہلو میں لیٹ کے بھی سنی تھی۔اُس وقت اُس کے ذہن میں طوطے کی چالاکی اور طوطا چشمی کے علاوہ کچھ سمجھ نہ آیا تھا۔ اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ” مر جاؤ مرنے سے پہلے“ ۔۔۔۔ کا سبق تو وہ سمجھ ہی نہ سکا تھا۔ اُس نے احسان مندی سے گہرے ہوتے اندھیرے کے پسِ منظر میں اپنے مراد کا روشن اور پُر نور ہیولا دیکھا۔ انہوں نے کس ہنر مندی سے انہیں جتایا تھا کہ وہ تو ابھی پہلے کا پڑھا سبق ہی نہیں سمجھے مزید آگے پڑھنے کی سکت پیدا ہوگی تو وہ آگے چلیں گے۔ نشانِ منزل کی وضاحت بھی ہو اور راستہ بھی معلوم تو پھر نہ چلنا اپنا ہی قصور ٹھہرتا ہے۔




 
 

 


Batein mere Murad ki

مقصود الحسن عظیمیؔ


سفید پوش طبقے سے تعلق رکھنے والا وہ ایک ایسا شخص تھا جو معاشی ناآسودگی اور معاشرتی ناہمواریوں کے بے کراں صحرا میں اپنے لئے ایک کنج عافیت، اک گوشہ سکون کی تعمیر میں مصروف تھا۔ اُس کی یہ مصروفیت اور تگ و دوسالوں کی محنت کے بعد کسی قدر بارآور ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ خوش تھا کہ برسوں کی ترساہٹوں سے پنڈ چھوٹا اور اب وہ آسودگی کی چھتری لئے فکر معاش کی کڑی دھوپ میں زندگی کی شاہراہ پہ اپنا سفر جاری رکھ سکے گا۔